انسان کی سب جانداروں پر برتری علم کی وجہ سے ہے ۔ اس علم کی مختلف شاخیں طرح طرح کے دلچسپ حقائق کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ۔ شیخ علی بن عثمان ہجویری ؒ نے فرمایا تھا کہ ہر علم میں سے اتنا لازماًحاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔ایک بہت دلچسپ علم کانام Earth Sciencesہے ۔ اس میں زمین کی ظاہری شکل و صورت ، اس کے سمندر، اس کے نیچے موجود معدنیات اور اس کی فضا (Atmosphere)وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں ۔ جب آپ زمین میں موجود معدنیات ، اس کی فضا میں موجود آکسیجن اور اس کے مقناطیسی میدان کے بارے میں پڑھتے ہیں تو بہت سی باتیں سمجھ آنے لگتی ہیں ۔زمین میں زندگی کے لیے کون کون سے انتظامات اور اس کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کون کون سے لوازمات رکھے گئے ہیں ۔
اسی طرح ایک علم فاسلز کا ہے ۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ زمین پر زندگی کب شروع ہوئی ۔ ابتدا میں جاندار کس قسم کے تھے ۔ کون کون سے جاندار کب ناپید ہوئے ۔ اس سے زمین کی تاریخ میں گزرنے والے بڑے حادثات کا علم بھی ہوتاہے ۔ اسی طرح ماہرینِ ارض زمین پر موجود مختلف بڑے گڑھوں سے یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہاں کوئی دم دار ستارا یا بڑا شہابِ ثاقب آگرا تھا۔ پھر وہ وہاں سے پتھروں ، مٹی اور شیشے وغیرہ کے نمونے لے کر انہیں لیبارٹری میں مختلف تجربات سے گزارتے ہیں ۔ انہیں یہ معلوم ہوجاتاہے کہ گرنے والا جسم کتنا بڑا تھا۔ اس نے کتنی حرارت پیدا کی ۔ زمین میں کتنی گہرائی تک اس کا اثر ہوا۔ اس سے کتنی تباہی پید اہوئی ۔ کون کون سے جاندار اس واقعے کے بعد بالکل ختم ہوگئے ۔ ان میں سب سے اہم واقعہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے کا ہے ،ایک دم دار ستارہ جب میکسیکو میں آگرا تھا۔ اس کے نشان اب بھی وہاں موجود ہیں ۔ اس دمدار ستارے کا قطر اندازاً دس کلومیٹر تھا۔ اس کے گرنے سے پیدا ہونے والا گڑھا 150کلومیٹر چوڑااور اس کی گہرائی 20کلومیٹر ہے ۔ کرئہ ارض کی تاریخ میں اس پرایک بیرونی جسم ٹکرانے سے پیدا ہونے والا یہ دوسرا بڑا گڑھا ہے ۔حیرت انگیز طور پر ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے رونما ہونے والایہ حادثہ ایک عالمگیر ہلاکت کے دور (Mass Extinction)کا تھا۔ یہ وہ دور تھا، جب کرّئہ ارض پر پائے جانے والے اس وقت کے 100جانداروں میں سے 75ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے ۔
یہی وہ چیزیں ہیں ، جنہیں دیکھ کر سائنسدان ارتقا کے نظریے تک پہنچے ۔ اگر آپ کو اسے رد کرنا ہے تو ا س کے لیے لازماً آپ کویہ چیزیں پڑھ لینی چاہئیں ۔ارتقا کا پورا نظریہ ان فاسلز کی بنیاد پر ہی قائم ہے ۔ مختلف ممالک میں تحقیقاتی ادارے قائم ہیں ۔ ان اداروں میں لاکھوں سائنسدان کام کرتے ہیں ۔ ان کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے۔ کئی مذہب اور خدا کے وجود کو سرے سے مانتے ہی نہیں ۔ ایک مثال میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف ایوو لوشنری اینتھروپالوجی ہے ۔ یہ جرمن ادارہ ہے ۔ میکس پلانک سوسائٹی میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے دس ہزار سائنسدان کام کرتے ہیں ۔جب بھی آپ کسی سائنس کا مطالعہ کرنا شروع کریں تو وہ چیزیں پڑھیں ، جو کہ غیر متنازعہ ہیں ۔جیسا کہ میکسیکو میں دم دار ستارے سے پید اہونے والا یہ گڑھا ۔ یہ 150کلومیٹر چوڑا اور20کلومیٹر گہرا گڑھا ایک ایسی حقیقت ہے ، جسے آپ جھٹلا نہیں سکتے ۔ کوئی ماہر بھی اس بات میں شبہ نہیں کر سکتا کہ یہاں آسمان سے ایک چیز آکر گری تھی۔ اب اس چیز کا قطر کتنا تھا ، اس سے پیدا ہونے والی تباہی کتنی تھی ؟ اسی دور میں ہونے والی عالمگیر ہلاکت خیزی میں اس کاحصہ کتنا تھا، اس پر مختلف ماہرین کی رائے مختلف ہوگی۔ وقت بھی کچھ آگے پیچھے ہو سکتاہے ۔
زمین پر زندگی کس کس شکل میں پائی جاتی ہے ۔ زندگی کی مختلف اقسام کیسے ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔یہ سب چیزیں بہت دلچسپ ہیں ۔جب شیر ایک ہرن کا شکار کرتا ہے تو بلندی پر اڑنے والے گدھ اسے دیکھ لیتے ہیں ۔ وہ اکھٹے ہونے لگتے ہیں ۔ جب شیر اپنا پیٹ بھر کے وہاں سے رخصت ہوتے ہیں تو پھر یہ مردار خور اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ۔ یہ سلسلہ چلتا رہتاہے ؛حتیٰ کہ بیکٹیریا اور خوردبینی جاندار بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ایک جانور جب رفع حاجت کرتاہے تو اس کا گند بھی دوسرے کی خوراک بن جاتی ہے ۔ مثلاً آپ Dung beetlesکے بارے میں پڑھ سکتے ہیں ۔
آپ یہ دیکھیں کہ جانداروں کا ایک دوسرے پر منحصر ہونا کس قدر دلچسپ ہے ۔ کچھ جاندار یعنی پودے آکسیجن پیدا کر رہے ہیں ۔ دوسرے جاندار ان آکسیجن پیدا کرنے والوں کو کھا رہے ہیں لیکن آکسیجن پیدا کرنے والوں کے پھلنے پھولنے کی رفتار اتنی تیز ہے کہ وہ ختم نہیں ہو رہے ۔ پھر ان سبزی خور جانوروں پر گوشت خوروں کا منحصر ہونا لیکن سبزی خوروں کی نسل کا تیزی سے بڑھنا اور ان کا ختم نہ ہونا کتنا دلچسپ ہے ۔ ہاتھی او راونٹ اگر گوشت خور ہوتے تو صورتِ حال کتنی مختلف ہوتی۔ اونٹ اگر کتوں کی طرح گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے ،ساری رات بھونکتے اور ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تو سکون کا نام و نشان نہ ہوتا ۔
اسی طرح توانائی کی ایک قسم کا دوسری میں بدلنا ۔ یہ ایک بہت بڑی سائنس ہے ۔ ہم سورج سے توانائی حاصل کرتے ہیں ۔ کوئلے ، تیل او رگیس کو جلا کر اس میں موجو د ایندھن سے توانائی حاصل کرتے ہیں ۔ بہتے اور بلندی سے گرتے ہوئے پانی سے اور ایٹم کو توڑ کربھی ۔ یہ سب چیزیں وہ ہیں کہ جنہوں نے انہیں جلدی سمجھ لیا ، وہ دوسری قوموں سے آگے بڑھ گئے ۔ امریکہ نے ایٹم توڑ کر توانائی نکال کر اس سے تباہی پھیلانا پہلے سیکھ لیا اور دوسری جنگِ عظیم جیت گیا ۔ پاکستان اگر ایٹم بم نہ بناتا تو بھارت نے اس کے ساتھ کیا کرنا تھا، یہ سب جانتے ہیں ۔
اسی طرح سیاروں کا علم ہے ۔ Planetary Scienceیا Planetology۔ اس میں آپ زمین اور دوسرے سیاروں کی تشکیل ، ان کے چاند اور دیگر تفصیلات کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ ان کی حرکت (Movement)کو سمجھے بغیر آپ کو دن او ررات کی سمجھ نہیں آسکتی۔ قرآن میں لکھا ہے کہ دن اور رات کے بدلنے میںاورآسمانوں اور زمین کی تخلیق میں عقل والوں کے لیے نشانی ہے ۔ اب یہ دن اور رات کا بدلنا کیا ہے ۔ یہ زمین کی اس کے محور کے گرد گردش ہے ۔زمین گھومتی رہتی ہے ۔ یہ تقریباً گول ہے ۔ اس کا جو حصہ سورج کی طرف مڑ جاتاہے ، وہاں سورج کی روشنی سے دن اور دوسری طرف رات ہو تی ہے ۔ زمین اپنے محور پر ایک طرف جھکی ہوئی ہے ۔ چاند کا زمین سے ایک خاص فاصلہ ہے اور وہ زمین کے پانی کو متحرک رکھتا ہے ۔ زمین کا اس طرح سے ایک طرف جھکائو موسموں پر اثر انداز ہوتاہے ۔
یہ سب علوم و فنون وہ ہیں ، جنہیں پڑھ کر ہی اندازہ کیا جا سکتاہے کہ ہم انسان کون ہیں اور یہاں اس زمین پر کیا کر رہے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر زندگی یہاں تک محدود ہو کہ انسان اپنی ضروریات پوری کرتا رہے تو پھر ضروریات تو جانوروں کی بھی پوری ہوتی ہیں ۔ پھرہم میں اور ان میں فرق کیا ہوا؟