"FBC" (space) message & send to 7575

سٹیفن ہاکنگ

جب بھی کوئی بڑا شخص مرتا ہے، بالخصوص وہ‘ جس نے انسانیت کے لیے بہت سی خدمات سر انجام دی ہوں تو یہ سوال بہت شدت سے اٹھتا ہے کہ کیا ایسا شخص بھی جہنم میں جائے گا؟ یہ سوال مدر ٹریسا کی وفات پر زیادہ شدت سے اٹھا تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مغرب میں مذہب کی کیا حیثیت ہے۔ برصغیر جیسے معاشرے میں‘ جہاں مذہب کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، ریا کاری، کم علمی، اپنے معاشرے سے مکمل کٹے ہونے، منافقت اور تشدد پسند سوچ کی وجہ سے اقبالؔ نے کتنے اشعار نام نہاد ملّا کے خلاف لکھ ڈالے۔ آپ تحریکِ پاکستان کے ہنگام دیکھ سکتے ہیں کہ کچھ طبقات کی ایک بڑی اکثریت قیامِ پاکستان کے خلاف تحریک چلاتی رہی۔ سبھی جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے۔کون نہیں جانتا کہ اسی ملک میں ایک جماعت کے سربراہ نے پاک فوج کے جاں بحق ہونے والے جوانوںاور افسروں کو شہید قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہم میں سے کتنے ہیں، جو خود کو کٹھ ملا کہلوانا پسند کریں گے۔ طالبان کا ٹیگ لگوانے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔
یہ سب اس کے باوجود ہے کہ دوسری الہامی کتابوں کے برعکس قرآن میں کوئی تحریف نہ ہو سکی۔ اس کا ایک ایک لفظ خدا کی طرف سے سند یافتہ ہے۔ کوئی ایک بھی غلط Statement اس میں سے ڈھونڈی نہیں جا سکی۔ گو یہ سائنس کی کتاب نہیں لیکن جہاں کائنات، کرّۂ ارض اور دوسرے موضوعات پر کوئی سائنسی Statement خدا نے دی ہے، وہ Ultimate Truth ثابت ہوئی۔ مثلاً یہ کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے، پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا۔
مغرب میں سینکڑوں برس پر پھیلی ہوئی مذہبی طبقات کی ریا کاری ہمارے ملّا سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایک طویل عرصے تک چر چ نے حکومت کی۔ سولہویں صدی میں نامو ر فلکیات دان گیلیلیو کو اجرامِ فلکی سے متعلق ایک سچائی ظاہر کرنے پر تاحیات نظر بند کر دیا گیا۔ مائیگرین کے مریضوں کے سر میں کیل ٹھونک دیئے جاتے کہ ان میں شیطانی بدروحیں آ چکیں۔ دس پونڈ کے عوض پادری جنت کے ٹکٹ جاری کرتے۔ دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ انجیل کا کوئی مستند متن باقی نہ رہا۔ اب اس میں غلطیاں ڈھونڈنا بہت آسان تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب مذہبی طبقات کے قبضے سے حکومت چھینی گئی تو پڑھے لکھے افراد خود کو کبھی بھی مذہب سے Relate کرنے میں فخر محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جس میں مغرب میں پڑھے لکھے لوگ اور بالخصوص سائنسی طبقات مذہب والوں کا مذاق اڑاتے، انہیں Ridicule کرتے رہتے۔ خدا پر یقین رکھنے والے سائنسدان بھی ہیں لیکن اکثر ان کا پکڑا ہوا میں ہی رہتا ہے۔ سٹیفن ہاکنگ ان لوگوں میں سے نہیں تھا، جو مذہب کو Ridicule کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگ وہاں دل ہی دل میں خدا پہ ایمان رکھتے ہی ہوں لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا، مغرب میں اب خدا پرست ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ حقائق کی دنیا سے بہت دور اندھے، بہرے اور گونگے سمجھے جائیں۔
دوسری طرف چرچ کی ظالمانہ حکومت کے بعد، اب مغرب میں ہر قسم کے گناہ کو انسانی آزادی کا بنیادی جزو سمجھا جاتا ہے۔ جن چیزوں سے خدا منع کرتا تھا، جیسا کہ ہم جنس پرستی، ان کے حق میں قوانین منظور کیے گئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اگر کوئی ہم جنس پرستی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے گزرے ہوئے زمانے میں جینے والا انتہا پسند سمجھا جاتا ہے۔ شادی کر کے ساری عمر بچوں کو پالنے والے بیوقوف سمجھے جاتے ہیں۔ ہم جنس پرستی کی حمایت میں بات کرنے والے پڑھے لکھے، روشن خیال اور انسانی آزادی کے چیمپئن سمجھے جاتے ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں، جن میں کوئی بھی مذہبی کہلوانا نہیں چاہتا۔
خدا کے بارے میں سٹیفن ہاکنگ کی دو تین Statements ایسی تھیں، جن پر شور اٹھا۔ اس نے ایک پیچیدہ Statement دی۔ اس کے مطابق جب بگ بینگ سے پہلے وقت (Time) پیدا ہی نہ ہوا تھا تو خدا کا وجود بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح اس نے کہا کہ جو لوگ تقدیر پر یقین رکھتے ہیں، وہ بھی سڑک پار کرتے ہوئے دونوں طرف دیکھتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سڑک پار کرنے والا تقدیر کا لکھا دیکھ تو نہیں سکتا۔ اسے کیا معلوم کہ تقدیر میں بچنا لکھا ہے یا گاڑی سے ٹکرانا۔ وہ تو اپنی حسیات، آنکھوں اور کان وغیرہ کی مدد سے حادثے سے بچنے کی کوشش ہی کر سکتا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقدیر لکھنے والے نے آنکھیں لگائیں کس لیے؟ ہو سکتا ہے کہ تقدیر میں یہ لکھا ہو کہ ساری زندگی وہ دیکھ کر سڑک پار کرے گا اور بچتا رہے گا لیکن ایک دن جلدی میں دیکھے بغیر سڑک پار کر ے گا اور گاڑی کے نیچے آ جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں یہ لکھا ہو کہ ایک دن وہ اپنی طرف سے اچھی طرح دیکھ کر سڑک پار کرے گا، پھر بھی ایک گاڑی کے نیچے آ جائے گا۔ زمین پر جو زندگی چل رہی ہے، وہ تو حسیات کی مدد سے ہی چل رہی ہے۔ خدا نے کبھی یہ کہا بھی نہیں کہ تم آنکھیں، کان، ناک بند کر کے خود کو تقدیر کے سپرد کر دینا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر بہت عالمانہ ہونے کے باوجود یہ Statement بہت بچگانہ ہے۔
سٹیفن ہاکنگ کے بارے میں، میں تو کوئی حتمی اعلان نہیں کر سکتا کہ دل سے وہ خدا پرست تھا یا ملحد۔ وہ جنت میں گیا یا دوزخ میں لیکن ایک بات کی وضاحت کر تا چلوں۔ خدا یہ کہتا ہے کہ ایک شخص شہرت، دولت اور ساری دنیاوی نعمتیں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اگر یہ سمجھے گا کہ بونس میں ساتھ خدا بھی مل جائے تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ مجھے تو جس نے پانا ہے، وہ پہلے خالص نیت کرے۔ میرے بارے میں سوچے ، غور و فکر کرے۔ خدا نے انسان کو ایسی عقل دی ہے کہ جو ذرا سا بھی غور کرے گا، وہ خدا تک پہنچ جائے گا۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ میرے جیسا تیسری دنیا کا ایک معمولی کالم نگار یہ جانتاہے کہ کرّۂ ارض کی تاریخ میں پانچ ارب قسم کی مخلوقات گزری ہیں۔ آج بھی 87 لاکھ قسم کی مخلوقات موجود ہیں۔ ان میں سے انسان کے سوا کسی نے لباس نہیں پہنا اور کسی نے مذہب کے بارے میں گفتگو نہیںکی۔ انسانی عقل خود خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ویسے بھی اگر میں ایک شخص کو سائیکل دے کر کہوں کہ اس نے پانچ گھنٹے میں لاہور سے اسلام آباد پہنچنا ہے تو یہ مذاق ہی ہو سکتا ہے۔ ہاں! اگر میں کسی کو لینڈ کروزر دے کر یہ کہوں کہ 20 گھنٹے میں اسے لاہور سے اسلام آباد پہنچنا ہے تو اب یہ Justified ہے۔ اب اگر وہ شخص صلاحیت اور Tool ہونے کے باوجود لینڈ کروزر میں بیٹھ کر گانے ہی سنتا رہے۔ یا اس کا رخ بدل کر کسی اور طرف نکل جائے تو میں اس سے یہ سوال کر سکتا ہوں کہ میں نے تجھے اتنی صلاحیت دی، وقت دیا، پیسہ دیا، یہ وعدہ کیا کہ اسلام آباد پہنچنے پر انعام دوں گا لیکن تو نے یہ کیا کیا؟ انسانی عقل لینڈ کروزر سے بہت بڑی ہے اور ہمیں لاہور سے اسلام آباد پہنچنے کے لیے کئی مہینوں کا وقت دیا گیا ہے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں