"FBC" (space) message & send to 7575

عقل و حکمت کی انتہا

کبھی ایسا ہوتاہے کہ آپ قرآن میں درج خدا کی ایک statementپڑھتے ہیں ، جس میں عقل و حکمت کی آخری انتہا نظر آتی ہے ۔ آدمی مبہوت اور گنگ ہو جاتا ہے ، speechlessہو جاتا ہے ۔ اسے ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس نیلے سیارے میں ، جن چیزوں کو ساری زندگی وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا رہا ہے ،جن تکلیفوں کو وہ اپنی جان پر سہتا رہا، جن حقیقتوں کو بیان کرنے کے لیے دنیا کی بڑی سے بڑی لائبریری ناکافی ہو ، ڈیٹا محفوظ کرنے والے دنیا کے تمام میموری کارڈ اور سپر کمپیوٹر چھوٹے پڑ جائیں، ایک سطر میں خدا نے انہیںبیان کر دیا ۔خوشی سے انسان جھوم اٹھتا ہے اور فخر سے اس کا سینہ چوڑا ہو جاتاہے کہ میرا رب کس قدر علم والا ہے ۔علم والا کیا، وہی تو سارے علوم کا ماخذ و منبع ہے ۔ جس نے انسانی دماغ بنایا اور اس دماغ کی وجہ سے انسان نے اتنے سارے علوم پڑھے ۔ خدا کے یہ الفاظ ، یہ statementsآخری درجے کی جامعیت اپنے اندر سموئے ہوتی ہیں ۔ آپ نے زندگی میں فصیح لوگ دیکھے ہوں گے ۔وہ لوگ جو بڑی بات اور بڑا فلسفہ کم الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں ۔ مثلاً ہمیں اگر کوئی یہ بتاتا ہے کہ یہ جس طرح کی زندگی تم گزار رہے ہو، جس قدر شور شرابا ، ہنگامہ اور جس تگ و تاز میں دن رات تم لگے رہتے ہو، یہ صرف ایک جبلت ،خود ترحمی یا حبِ جاہ یا ان دونوں کے تعامل کی وجہ سے ہے ۔ تو جب انسان چند الفاظ میں اپنی پوری زندگی پر ایسا ایک جامع تبصرہ سنتا ہے تو کچھ دیر کے لیے اس کا دماغ بھک سے اڑجاتا ہے ۔اس لیے کہ عقل چونک کراس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے ۔
فصیح وہی ہوتاہے ، جس کے پاس علم بھی زیادہ ہو اور جو زبان بھی جانتا ہو۔ اب خدا سے زیادہ فصیح کون ہو سکتاہے ۔زبان بنائی ہی اس نے اور اسی نے سب علوم تشکیل دئیے ۔ ایک بچّہ پیدا کرنے والے ماں باپ کو تو یہ ڈر ہو سکتاہے کہ ایک دن ان کی اولاد کا علم ان سے بڑھ جائے گا لیکن جو ذات آپ کے دماغ کے خلیات کے اندر موجود ہو ، اسے کیا خوف ہو سکتاہے ۔ انسان کو یہ خوف ہو سکتاہے کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس والا روبوٹ اسے فنا کر دے گا، خدا کو کبھی بھی نہیں ۔ 
ایک دفعہ ایک کالم میں نے لکھا تھا کہ خدا اور ماں کی محبت میں فرق علم کا ہے ۔ ماں اپنی شدید محبت کی وجہ سے اولاد کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی لیکن جہاں اسے علم ہوتاہے ، وہاں وہ اولاد کو جان بوجھ کر تکلیف دیتی ہے ۔ مثلاً بچّہ انجکشن لگنے سے بہت ڈرتا ہے لیکن ماں کا علم یہ بتا رہا ہے کہ یہ بچّے کی صحت اور زندگی کے لیے بہت ضروری ہے ۔ وہ چیخ و پکار کرتے ہوئے بچّے کو زبردستی انجکشن لگواتی ہے ۔ خدا صرف ستر مائوں جتنی محبت ہی نہیں رکھتا بلکہ وہ سب سے بڑا استاد بھی ہے ۔ ایک استاد سے زیادہ کون جانتاہے کہ شاگرد کو تربیت کے دوران کس کس تکلیف سے گزارنا ہے کہ وہ سخت جان بن جائے ۔ پھر خدا نے یہ دنیا آزمائش کے لیے بنائی ہے ۔ اس نے صرف محبت ہی نہیں کرنی بلکہ آپ کو آزمانا بھی ہے ۔ خیر،سچے خدا کو کبھی بھی یہ خوف لاحق نہیں ہو سکتا کہ ایک دن انسان کا علم اس سے بڑھ جائے گا۔ اس لیے کہ کائنات اس نے بنائی، انسانی دماغ اس نے بنایا۔ یہ دماغ جہاں جہاں تک رسائی حاصل کر سکتاہے ، اس کا حساب اس کے پاس بدرجہ ء اتم موجود ہے ۔ہر چیز ایک منصوبے کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے ۔ انسان دوسرے سیاروں پر قدم ٹکانے کی کوشش کر سکتاہے ، یہ بھی اس کے علم میں ہے بلکہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ نشانی بتائی کہ انسان اجرامِ فلکی میں مداخلت کرے گا۔ انسان جینز اور ڈی این اے تک رسائی حاصل کرے گا، یہ بھی اس کے علم میں ہے ۔سب معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ اس کی کوئی statementغلط نہیں ہو سکتی ۔ جہاں لوہے کا ذکر آتا ہے ، وہاں وہ فرماتا ہے ، و انزلنا الحدید۔ لوہا ہم نے زمین پر نازل کیا ۔ یہ نہیں کہ زمین کے اندر لوہا بنایا۔ 
خیر بات ہو رہی تھی ، فصاحت اور عقل و دانش کی آخری حد کو چھوتی ہوئی آیات کی۔ خدا فرماتا ہے :وجعلنا بعضکم لبعض فتنہ اتصبرون۔ اور ہم نے تم میں سے بعض (لوگوں کو ) بعض کے لیے آزمائش بنایا ہے تو کیا تم صبر کرو گے ؟ And we have made some of you a trial for others. will you have patience?۔ سورۃ الفرقان۔ 20۔ زندگی میں شاید اس سے زیادہ جامع بات میں نہیں سنی ۔ انسان انسانوں کے لیے آزمائش ہیں ۔ شوہر کی افتادِ طبع بیوی کی آزمائش ہے ۔ بیوی کا مزاج شوہر کی آزمائش ہے ۔ بیٹا او ربیٹی والدین کی آزمائش ہیں ۔بڑے بڑے نامی گرامی لوگ اپنی اولاد کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں ۔والدین اولاد کے سر پر بہت بڑا سایہ تو ہوتے ہیں لیکن کبھی وہ بھی آزمائش بن سکتے ہیں، خدا نے والدین کا جو درجہ رکھا ہے ، وہ تو اپنی جگہ لیکن ہیں تو وہ بھی انسان ۔ ان کے روّیوں میں بھی خامیاں موجود ہیں ۔ والدین سے بھاگ کر انسان کہاں جائے گا؟ 
یہ وہ رشتے ہیں ، جو انسان کے خون سے وجود میں آئے ہیں ۔ ماں جس بچّے کو نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھ کر جنم دیتی ہے ، اس سے بھاگ کر وہ کہاں جا سکتی ہے ۔ اس کی طرف سے بدتمیزی اور ہر بری حرکت پر اسے تکلیف تو اٹھانا پڑے گی ۔ اسی طرح کوئی اپنی اولاد اور اپنے والدین ، شریکِ حیات، قریب اور دور کے رشتے داروں سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ نفس اس طرح سے بنا ہے کہ اسے غلط بات اور کم عقلی کی بات پر ایک دم غصہ آتا ہے ۔ اگر انسان اپنے غصے کا اظہار کر دے تو سامنے موجود شخص کا دل ٹوٹ جاتا ہے ۔ اس کی آنکھوں میں نمی آجاتی ہے ۔ جب غصہ ٹھنڈا ہوتاہے تو پھر انسان کو افسوس ہوتاہے ۔ موقعے پر صبر کرنا انتہائی مشکل ہے ۔ یہ ایسے ہے ، جیسے اگر آگ پر تیل گرے تو بہرحال اسے بھڑکنا ہی ہے ۔ اسی طرح نفسِ انسانی کے سامنے جب کم عقلی کی یا کوئی غلط بات کی جاتی ہے تو بہرحال اسے غصہ آنا ہی ہے ۔ اگر چند لمحات کے لیے بندہ صبر کر لے تو یہ غصہ ٹھنڈا ہوجاتاہے ۔ انسان کے دماغ میں تسکین بھی پیدا ہوتی ہے کہ عقل سے کام لینے کی وجہ سے میں ایک ہنگامے سے بچ گیا ۔
اس سارے معاملے میں مرکز تو انسان کا خاندان ہی ہے۔ باہر کے لوگوں سے بھی بات چیت اور لین دین میں ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن انہیں تو انسان اپنی زندگی سے نکال سکتاہے ۔ اب اولاد، ماں باپ ، بہن بھائیوں اور رشتے داروں سے تو نجات ممکن نہیں ۔ یہاں پہنچ کر اس بات پر یقین آنے لگتاہے کہ انسان خواہ کتنا ہی دولت مند اور عقل مند کیوں نہ ہو، وہ اس نیلے سیارے پر اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ کبھی بھی نہیں بنا سکتا۔ 
اس statementکا آخری لفظ انتہائی گہری سمجھ بوجھ اور برداشت کا تقاضا کرتا ہے ۔اب تمہیں بتا دیا نہ کہ یہ آزمائش ہے تو اب کیا تم صبر کرو گے ؟ ا تصبرون۔؟ یہ کالم تو ایک ہی آیت کی نذر ہوا ۔باقی انشاء اللہ پھر کبھی ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں