کرئہ ارض پہ زندگی گزارنے والے ایک جاندار کی حیثیت سے انسان کی بہت سی خصوصیات دوسرے جانداروں سے مشابہت رکھتی ہیں ۔ آپ انسانی نسوں میں دوڑنے والے خون کو دیکھیے ، اس خون کو پمپ کرنے والے دل کو دیکھیے ، پھیپھڑوں اور جلد کو دیکھیے، دماغ سے مختلف اعضا کو جاری ہونے والے احکامات کو دیکھیے، یہ ہو بہو ایک جیسے اصولوں پہ کام کرتے ہیں ۔ انسان کو جو چیز دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ، وہ دماغ کا اوپر والا حصہ اور اس حصے پر تہہ در تہہ چڑھا ہوا چھلکا سیریبرل کارٹیکس ہے۔ یہاں وہ کچھ سوچا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ہم آسمان میں اڑتے، پانی کے نیچے تیرتے اور دوسرے سیاروں پر جا اترتے ہیں ۔ دماغ کے اسی حصے اور اسی چھلکے میں کائنات کی فصیح ترین زبان بھی موجود ہے ۔ یہ زبان تحریری شکل اختیار کر چکی ہے ۔شعر کی صورت میں انسان زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں اور فلسفوں کو چند الفاظ میں بیان کر دیتا ہے ۔ شاعری انسانی فصاحت و بلاغت کی انتہا ہے ۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر نا حق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟
شاعری میں موجود انسانی فصاحت اور بلاغت اپنی جگہ اور یہ حقیقت اپنی جگہ کہ انسان کچھ بھی کہنے کے لیے آزاد ہے ۔ ضروری نہیں کہ وہ جو کہہ رہا ہو ، وہ درست بھی ہو۔ آپ اسی شعر پر غور کر لیجیے ۔ اگر تو فرشتوں نے ریکارڈ میں کچھ گڑ بڑ کرنی ہے تو پھر تو انصاف اور حساب کس چیز کا ۔ سب سے بڑا منصف خدا خود ہے اور اگر اس کے مقرر کر دہ فرشتے ریکارڈ میں تبدیلی کرنا شروع کر دیں تو پھر پیچھے رہ کیا گیالیکن شاعری میں ایسے تصورات پر داد دی جاتی ہے ۔شاعری میں بیان کر دہ فلسفہ درست ہو سکتا ہے اور غلط بھی ۔ بہرحال انسان کو اپنی زبان دانی پر بہت فخرہے ۔ عربوں میں یہ فخر بدرجہ ء اتم موجود تھا اور ایران والے تو آج بھی سینہ پھلائے پھرتے ہیں ۔
لیکن پھر وہ ہستی بھی کلام کرتی ہے ، جس نے انسان کا دماغ بنایا اور اسے یہ اعلیٰ ترین زبان دی ۔ اس کلام کے مختلف حصے ہیں ۔ کچھ میں احکامات ہیں ۔ جیسے یہ کہ نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو ، یہ کام کرو اور اُس کام سے بچو ۔ دنیا میں ہر شخص کا ایک لہجہ ہوتاہے ۔ یہ لہجہ انسان کی حیثیت ، اس کے علم اور اس کے اختیارات کے مطابق ہوتا ہے ۔ جتنے بڑے مرتبے پر کوئی شخص فائز ہوتاہے ، اتنا ہی اس کا لہجہ موثر ہوتاہے ۔ ایک نشئی اگر یہ کہے کہ کل میں روس پر حملہ کر دوں گا تو کون اس بات کو اہمیت دے گا لیکن اگر یہی بات ترکی کا صدر کہے، جس کے حکم پر 2015ء میں ایک روسی جنگی طیارہ گرا دیا گیا تھاتوہر طرف زلزلے برپا ہو جائیں۔
تو ہر شخص کا ایک لہجہ ہوتاہے ۔ خدا کا بھی ایک لہجہ ہے اور خدا جب خدائی لہجے میں بات کرتا ہے تو زمین و آسمان میں سناٹا چھا جاتاہے ۔ انسان کو تو لمبی لمبی ڈینگیں چھوڑنے کی آزادی ہے ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر کے الفاظ میں ، انسان تو ہزاروں غلطیاں کر کے بھی انسان رہ سکتاہے لیکن خدا ایک بھی غلطی نہیں کر سکتا یا یہ کہ غلطی کرنے والا (غلط statementدینے والا )کبھی بھی خدا نہیں ہو سکتا ۔ آپ اوپر بیان کردہ شعر ہی کو دیکھ لیں ۔ لاکھوں لوگوں نے شاعر کے تخیل کی داد دی لیکن factuallyاس شعر میں بیان کردہ نظریہ سرے سے ہی غلط ہے ۔ اگر انسان کو انسان کے اعمال لکھنے پر تعینات کیا جاتا تو حسد ، بغض اور کینے سے لبریز لوگ ایک دوسرے کے کھاتے میں کیا کچھ ڈالتے ۔ انسان میں نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی پائی جاتی ہے بلکہ اکثر وہ دوسروں کو خود پہ قیاس کرتاہے ۔ انسانوں میں اپنی ذات اور اپنی اولاد ، اپنے قبیلے اور اپنے ملک کی محبت انصاف کہاں کرنے دیتی ہے ۔ انسان کا ذہن بدلتا رہتاہے ۔ایک دوسرے پر جان چھڑکنے والے بہن بھائی بعد میں اپنی اپنی اولادوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے جھگڑنے لگتے ہیں ۔
خیر، اصل بات بیچ میں رہ گئی ۔ خدا جب خدائی لہجے میں کلام کرتاہے تو وہ کیسا سماں ہوتاہے ۔ چند الفاظ میں ایک بہت بڑی حقیقت ، زمین و آسمان پر حکومت (Rule)کرنے والا ایک اصول ۔ انسان گم صم رہ جاتاہے ۔انسان کے برعکس یہاں صرف فصاحت و بلاغت کی انتہا ہی نہیں ہوتی بلکہ نفسِ مضمون ایک ہزار فیصد درست ۔ یہ وہ بات ہوتی ہے ، جو کہ زمین پر بیٹھا ہوا کوئی شخص نہیں کر سکتا ۔ یہ بات آسمان سے ہی آسکتی ہے ۔ جو چند الفاظ کل بیان کیے ۔ خدا کہتا ہے : ہم نے تم میں سے بعض لوگوں کو بعض کے لیے آزمائش بنایاتو کیا تم صبر کر سکو گے ؟ یہ ہے خدائی لہجہ ۔یہ علم و حکمت کی باتیں ہیں ۔ خدا بار بار کھل کر یہ کہتاہے کہ ان باتوں میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔پھر وہ فرماتا ہے کہ سب کچھ ہم نے کھول کھول کر بیان کر دیا ہے ۔ یہ ہے پوری نسلِ انسانی پر ruleکرنے والی statement۔ کیسے ماں باپ،اولاد، بیوی بچے، رشتے دار اور دوسرے انسان ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا باعث بنتے ہیں ۔ انسان ہی تو انسان کی سب سے بڑی آزمائش ہے ۔ انسان لاکھوں سال مزید بھی جیتا رہے اور اس کی فصاحت ترقی کرتی رہے ، پھر بھی ایسی statement کبھی کوئی انسا ن نہیں دے سکے گا۔
اب یہ پڑھیے : اوراگر اللہ بعض انسانوں کو بعض کے ہاتھوں تباہ نہ کر دیتا تو زمین فساد سے بھر جاتی ۔ لوگوں ، قبیلوں اور ریاستوں کے بارے میں اس سے بڑی statementاور کوئی نہیں ہو سکتی ۔عالمی طاقتیں عالمی طاقتوں کے ہاتھوں تباہ کی جاتی ہیں ۔ سیاستدان سیاستدانوں کے ہاتھوں تباہ کیے جاتے ہیں ۔ عمران خان کے بارے میں اب کوئی شک شبہ ہی نہیں کہ انہیں خالصتاً نون لیگ کی تباہی کے لیے پیدا کیا گیا ۔ انسان انسان ہی کے ہاتھوں تباہ کیا جاتاہے ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین پر ہمیشہ باقی رہنے والی کسی جابر اور ظالم کی حکومت ہوتی لیکن ہمیشہ ہر فرعون کو موسیٰ ؑ سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ایک ماسٹر پلان کے مطابق ہمیشہ خدا مداخلت کرتا ہے اور زمین پر جاری زندگی کی اس داستان کا رخ بدل دیتاہے ۔ اور اگر خد ا مسلسل مداخلت نہ کرتا رہتا اور انسان انسان کے رحم و کرم پرہوتا تو بڑی تباہی ہوتی ۔
یہ statements آسمان سے آتی ہیں ۔ ان میں خدائی لہجہ سنائی دیتا ہے ۔ ایسے میں سب مخلوقات کی سٹی گم ہو جاتی ہے ۔ مزید سنیے : زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو۔۔۔کرّہ ء ارض کی ساڑھے چار ارب سالہ تاریخ میں پانچ ارب مخلوقات نے یہاں زندگی گزاری ہے ۔ 87لاکھ آج بھی زندہ ہیں ۔ ان میں سے ایک انسان ہے ، جس کی عمر قریب 3لاکھ سال ہے ۔ کبھی کسی مخلوق کو یہ دعویٰ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ کیسے کیسے فرعون تاریخ کے قبرستان میں دفن ہیں ۔ کبھی کسی کو یہ کہنے کی جرات نہیں ہوئی کہ زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ، جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ وہ (ہر جاندار ) کہاں سے گزرے گا اور کہاں سونپا جائے گا ۔ہر مخلوق کس وقت کس جگہ پر ہوگی، یہ بھی طے شدہ ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ تقریباً سب چیزیں پہلے سے طے شدہ ہیں ۔ انسان کے ہاتھ میں صرف اور صرف مختلف situationsمیں اپنا reactionدینے کا اختیار ہے اور کچھ بھی نہیں ۔
(جاری )