"FBC" (space) message & send to 7575

مظلوم

یہ رات دو بجے کا وقت تھا۔ ہم ایک تقریب میں شرکت کے بعد گھر واپس جا رہے تھے ۔ جب سنسان سڑک پر گاڑی کی روشنی میں کوئی چیز آہستگی سے حرکت کرتی نظر آئی۔ یہ ایک گدھا گاڑی تھی ۔ اس پر پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک شخص بیٹھا تھا ۔ گدھا گاڑی پر کچھ ٹوٹا پھوٹا سامان پڑا تھا ۔ رحم کی ایک لہر میرے دل میں اٹھی ۔ مجھے غربت کے مارے اس شخص پر شدید تر س آیا۔ کس قدر بے سروسامانی کے عالم میں وہ زندگی گزار رہا تھا ۔ 
گزرتے گزرتے اچانک میری نظر گدھے پر پڑی ۔ میرے دل میں اٹھنے والی ہمدردی کا رخ گدھے کی طرف مڑ گیا۔ وہ بھی ایک جاندار تھا، جسے میرے ایک ہم نسل نے پکڑ کر جوت رکھا تھا۔اپنے اور اپنے سامان کا وزن اس پر لاد دیا تھا۔ اس جانور نے وزن بھی اٹھا رکھا تھا اوروہ دوڑ بھی لگا رہا تھا ۔اس گدھا گاڑی پر بیٹھا انسان غربت زدہ ہونے کے باوجود موبائل فون ، بجلی سے چلنے والا پنکھا اور مصنوعی روشنی استعمال کرتاہوگا ۔ ضرورت پڑنے پر کسی ڈرائیور ہوٹل سے وہ برف والا ٹھنڈا پانی بھی پی سکتاہے ۔ روٹیاں تو یہ غریب ہم سے زیادہ ہی کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ بیس تیس روپے خرچ کر کے بس پر بھی سواری کر لیتا ہوگا ۔ جب کہ انجن اور بجلی کی ایجاد سے پہلے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی یہ سہولیات میسر نہ تھیں۔ ظہیر الدین بابر کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ وہ ٹی بی سے مرا تھا۔ اس لیے کہ اپنی خودنوشت میں وہ بار بار وہ لعابِ دہن میں خون کا ذکر کرتا تھا۔ اس وقت یہ لا علاج مرض تھا۔ جب کہ میرے گھر میں کام کرنے والی خاتون کا بیٹا جو کہ ٹی بی کاشکار تھا، مری کے قریب ایک فلاحی ہسپتال میں وہ مفت میں علاج کراتا رہا ۔وہ زندگی اور موت کی کشمکش سے گزرنے کے بعد آخر صحت یاب ہوگیا تھا۔اسی طرح غریب سے غریب انسان بھی دو وقت کا اناج رکھ کر بیٹھا ہوتاہے ۔ جب کہ جانور تو خوراک ذخیرہ نہیں کر سکتے ۔ 
یہاں تک پہنچ کر میں سوچنے لگا کہ ہمدردی کا اصل مستحق تو گدھا ہے ، نہ کہ اس پر سواری کرتا ہوا انسان ۔یہ گدھا کس قدر نامساعد حالات میں زندگی گزار رہا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ وزن اٹھانا اور دوڑ لگانا تو صحت کے لیے اچھا ہوتاہے ۔ہم لوگ جو پیٹ نکال کر بیٹھ جاتے ہیں ، کچھ عرصے بعد ہم شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض بن جاتے ہیں ۔ رگوں میں چربی جم جاتی ہے اور دل بیمار ہوجاتاہے ۔ ڈاکٹر کہتاہے کہ آپ کے لیے جسمانی کام کرنا ازحد ضروری ہے ۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی مجبوری نہ ہونے کی وجہ سے ہم سستی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔کچن اور فریج میں خوراک کی بہتات ہونے کی وجہ سے ہم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ کھاتے رہتے ہیں ۔ یہ وہ حالات ہیں ، جن میں ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کی اکثریت موٹاپے کا شکار ہے ماسوائے کم عمر لوگوں کے ، جو ابھی قد بڑھنے کی عمر سے گزر رہے ہیں ۔ 
یہاں پہنچ کر خیال آیا کہ ہمدردی کا اصل مستحق گدھا بھی نہیں ہے بلکہ میں خود ہوں ۔ جب میں کوئی جسمانی کام نہیں کرتا، جب میری سانسیں اور دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوتی تو زندگی صحت مند کیسے ہو سکتی ہے ؟ جب کہ بھرپور جسمانی کام کرنے کے بعد ایک جاندار کو جو راحت نصیب ہو سکتی ہے ، وہ بستر پر پڑے شخص کو کسی صورت میسر نہیں آسکتی ۔جنگلات میں سب جانوروں کے لیے سب سے بڑا خطرہ کسی درندے کا شکار بننا اور سب سے بڑی حسرت اپنا پیٹ بھرنا ہوتی ہے ۔ ذرا سی آنکھ چوکی اور کوئی درندہ آپ کو چیر پھاڑ دے گا۔ اسی طرح خوراک کی دستیابی سب سے بڑا مسئلہ ہوتاہے ۔ ان بیچارے جانوروں کے پاس خوراک ذخیرہ کرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔ خوراک کے ساتھ ساتھ پانی میسر نہیں آتا بلکہ دور دراز کا سفر طے کر کے دن میں ایک یا دوبار مشکل سے پانی میسر آتاہے ۔وہ بھی اس صورت میں کہ اس پانی میں کوئی مگر مچھ نہ تشریف فرما ہو ۔ جب کہ اس گدھا گاڑی میں جتے ہوئے گدھے کو خوراک اور زندگی کی حفاظت ، نہ صرف یہ دونوں چیزیں میسر تھیں بلکہ وہ بھرپور جسمانی ورزش بھی کر رہا تھا۔ وہی ورزش جس کے لیے ہم کروڑوں روپے لگا کر جم بناتے ہیں اور پھر اپنی مصروف زندگیوں میں سے بمشکل کچھ وقت نکال کر وہاں ورزش کرنے جاتے ہیں ۔ ہماری تو یہ خواہش ہو تی ہے کہ کسی طرح یہ روز کا معمول بن جائے اور زیادہ سے زیادہ وزن اٹھا کر زیادہ سے زیادہ ورزش میں کر سکوں ۔یوں میری اضافی چربی ختم ہو ، جسم خوبصورت اورطاقتور ہو جائے ۔ جب کہ اس گدھے کو یہ سب چیزیں مفت میں میسر آرہی تھیں ۔دوسری طر ف اشرف المخلوقات میں سے بہت سے روزانہ کی بنیاد پر چالیس پچاس کلو اضافی وزن والی چربی اٹھانے پر مجبور ہیں ۔ جب کہ دبلے پتلے لوگ تو نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں ۔ 
اس کے بعد مجھے یاد آیا کہ اس گدھے کو نہ تو آنے والے کل کی فکر ہے اور نہ محبوب کی وفائی کا غم ۔اسے اپنی اولاد کے مستقبل کی بھی فکر نہیں ۔ اسے تو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ اس کا ایک لختِ جگر اسی شہر میں ایک اور گدھا گاڑی کے آگے جتا ہوا ہے ۔اسے یومِ حساب کو اپنے اعمال کے پیش ہونے کا خطرہ نہیں ۔ اسے ماں باپ، بہن بھائیوں ،ساس سسر، بیوی بچوں ، بہو، داماد اور دیگر سب رشتوں سے کوئی تکلیف نہیں ۔ اگر کسی سے تکلیف پہنچی بھی تو اسی وقت دولتی مار کے حساب برابر کر دیا ہوگا۔ایسا ہر حساب کتاب ہمیشہ ان دولتیوں میں برابر ہو جاتاہے ۔ اس گدھے کو تو عقل ہی نہیں ہے ۔اسے تو یہ دکھ بھی نہیں کہ دوسرے گدھے اس کے نظریات کو درست نہیں مانتے جب کہ ہم انسانوں کو ایک دوسرے پر اپنے نظریات مسلط کرنے کا ازحد شوق ہوتاہے ۔اس ضمن میں ایک دوسرے پر طنز کیے جاتے ہیں ۔ ایک دولت مند شخص کو بھی ایک غریب بندہ اس کے سیاسی یا مذہبی نظریات پر طنز کر کے آزردہ کر دیتاہے ۔اس گدھے کو اگر عقل ہوتی تو رفع حاجت کر کے وہ اس کے اوپر کیوں بیٹھتا ۔ اگر اسے عقل ہوتی تو وہ انسان کی طرف سے اپنے ساتھ ہونے والے استحصال کے خلاف تحریک نہ چلاتا؟ انسان تو اپنا استحصال کرنے والوں کا قبر تک پیچھا کرتا ہے ۔ بیوی شوہر کو نہیں معاف کرتی ،جو اس کے بچوں کا باپ ہوتاہے ۔ کسی اور کو انسان نے کیا معاف کرنا ۔ 
میرا دل تو کیا کہ روک کر میں اس گدھے کو بتائوں کہ وہ کس قدر خوش قسمت ہے لیکن پھر مجھے ایک خیال آیا اور میں شرمندہ ہو کر رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ میرے پاس ایک عظیم الشان نعمت ہے ، جواس گدھے کے پاس نہیں ۔میں شعور کی نظر سے اس کائنات کو دیکھ رہا ہوں اور وہ گدھا نہیں دیکھ رہا۔ انسان اور اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے میں بہت سی باتیں جانتا ہوں ، جو وہ نہیں جانتا۔ میں خدا کے بارے میں سوچ سکتا ہوں ۔ ایک چھوٹا سا اندازہ لگانے کی کوشش کر سکتا ہوں کہ وہ ذاتِ قدیم کس قدر خوبصورت ہوگی ۔جہاں تک حساب کتاب کا تعلق ہے توہمیں معلوم ہے کہ اعلیٰ ظرف لوگ کس طرح حساب لیتے ہیں ۔ 
یہاں پہنچ کر مجھے تسلی ہوئی کہ وہ گدھا نہیں بلکہ میں اصل خوش نصیب ہوں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں