"FBC" (space) message & send to 7575

یا تو ہر حال میں‘ ورنہ کسی حال میں بھی نہیں

دنیا کی یہ زندگی کس لیے بنائی گئی ہے ؟ اس لیے کہ انسان اپنی عقل سے کام لے کر کائنات میں خدا کی نشانیاں دیکھتے ہوئے اس پر ایمان لائے‘ پھر اس دنیا میں جو حالات‘ جو آزمائشیں اسے درپیش ہوں ‘ ان میں ثابت قدمی سے اپنی زندگی بسر کرے ۔یہ زندگی بنی ہی آزمائش کے لیے ہے ؛حتیٰ کہ پیغمبروں کو آزمایا گیا ۔ جتنا کوئی اللہ کا زیادہ محبوب شخص ہو‘ جتنی اس کی استطاعت زیادہ ہو ‘ اتنی ہی زیادہ آزمائش ۔ رسولِ اکرمﷺ کی مبارک زندگی پر غور کیجیے۔ پیدائش سے پہلے ہی والد فوت ہو چکے تھے۔ والدہ پیدائش کے صرف دو برس بعد فوت ہو گئیں ۔ اندازہ لگائیں کہ اللہ کے آخری پیغمبر اور تخلیق ِ کائنات کا سبب اور آپﷺ کو طائف کی گلیوں میں لڑکوں نے پتھر مارے ‘ اور آوازے کسے ۔ جسم مبارک سے خون بہہ کر جوتوں میں جمع ہو گیا۔انسان جس خاندان اوربرادری میں اٹھتا بیٹھتا ہے ‘ اگر وہ اس کا بائیکاٹ کر دے‘ تو جینا محال ہوجاتا ہے۔ آپ اندازہ اس سے لگائیے کہ پورے معاشرے نے سرکار ﷺ کا بائیکاٹ کیا‘ آپﷺ کے خاندان کا بائیکاٹ کیا ۔ ایک آدھ دن نہیں ‘ تین سال کے لیے آپ کو ایک گھاٹی میں زندگی گزارنا پڑی ۔ اس سے زیادہ خوفناک حالات اور کیا ہو سکتے ہیں ۔ 
وہ تو پیغمبرتھے‘ ان کے بعد صحابہ ‘ پھران سے تربیت پانے والے تابعی‘ تبع تابعی ‘ اللہ کے ولی اور صوفی ۔ ہر ایک کو اس کی استطاعت کے مطابق آزمایاجاتاہے‘ لیکن آخر میں آتے ہیں‘ ہمارے جیسے عام لوگ ۔ ہر شخص کسی نہ کسی ابتلا کا شکار ہے ۔ کسی لڑکی کی عمر گزرتی جا رہی ہے ‘ مناسب رشتہ نہیں آرہا۔ کسی کا لڑکا پڑھائی میں جی نہیں لگاتا۔ کسی کی بیوی بدمزاج ہے۔ کسی کا شوہر کام نہیں کرتا ۔ کسی کی بہو بدتمیز ہے ۔ بہت سارے مرد غمِ روزگار کے مارے ہوئے ہیں ۔کوئی بیمار ہے ۔ ان سب پریشانیوں کے بیچ میں ‘ جب انسان قرآن کھول کر دیکھتا ہے‘ تو اس میں ایک عجیب بات لکھی ہوئی ہے : لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا ۔ اللہ کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ بندہ سوچنے لگ جاتاہے کہ اتنی زیادہ آزمائشوں کے باوجود اللہ کہہ رہا ہے کہ میں (آزمائش کے طور پر )کسی کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ 
میں زندگی میں چار ایسے لوگوں سے ملا ہوں کہ جن سے ملنے کے بعد اس آیت کا مطلب مجھے سمجھ آگیا۔ 42سالہ سعدیہ بٹ ان میں سے ایک ہیں ۔ وہ برطانیہ میں رہتی ہیں ۔ انتہائی نپے تلے الفاظ میں بات کرتی ہیں ۔ خوش و خرم اور پرُجوش ‘ بہت energeticخصوصاً سیاست اور پاکستان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ۔ یہ اس قدر بھرپور زندگی گزار رہی ہیں کہ انہوں نے اپنے گھر میںایک جم بنا رکھا ہے۔ ان کی ایک بیٹی مزنیٰ ذہنی طور پر معذور ہے ۔ یہ آٹسٹک ہے ‘ ایک ذہنی بیماری ‘ جس میں سوچنے میں (Thought Process)میں دقت ہوتی ہے ۔ اسے مرگی کے شدید دورے پڑتے ہیں ۔اس کی بینائی بھی کم ہے ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں بھی وہ ایک شیر خوار بچے کی طرح ہے ‘ جسے ہر وقت اپنی ماں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ کبھی نارمل زندگی نہیں گزار سکے گی ۔ یہ کبھی شادی کے قابل نہیں ہو سکے گی ۔اسے ہمیشہ دوسروں کی مدد کی ضرورت رہے گی ۔ اگر آپ اس سے یہ کہیں کہ مزنیٰ ‘ میں تمہیں ماروں گا ‘تو وہ یہ نہیں سمجھ سکتی کہ آپ مذاق کر رہے ہیں ۔ وہ واقعی ڈر جائے گی ۔ وہ بول کر صرف اپنی بنیادی ضرورتوں کے بارے میں بتا سکتی ہے ۔
سعدیہ بٹ کی دو دوسری بیٹیاں بیمار ہیں ۔ انہیں Papillon - le - feverنامی ایک نادر بیماری ہے ۔ اس میں ان کے جسم سے کھال کے بڑے بڑے ٹکڑے اترتے ہیں ۔ کھال بری طرح زخمی ہو جاتی ہے اور خون رسنے لگتاہے ۔ اس عجیب و غریب بیماری کی وجہ سے دو نوں لڑکیوں کے سارے دانت ٹوٹ چکے ہیں ۔ ان کے منہ میںپانچ پانچ مصنوعی دانت لگائے گئے ہیں۔ ابھی ان کی بڑھنے کی عمر ہے ۔
ایک عام ماں جب یہ دیکھتی ہے کہ میری بیٹی کی عمر گزرتی جا رہی ہے ‘ اس کی شادی نہیں ہو رہی‘ تو وہ کس قدر پریشان ہو جاتی ہے ‘ جبکہ سعدیہ بٹ کو اس طرح کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ میری بیٹیاں بہت بہادر اور ذہین ہیں ۔یہ سب وہ باتیں ہیں ‘ جن کا اتفاقاً ذکر ہوا اور جنہیں میں نے کرید کرید کر معلوم کیا ۔ 
یہی حال جہانگیر صاحب کا ہے ‘ جو کہ اکثر پروفیسر احمد رفیق اختر کے آس پاس دیکھے جاتے ہیں ۔ تین بیٹے ہیں ‘ تینوں ذہنی طور پر معذور ‘ ایک کو شدید مرگی بھی ہے۔ بیٹی ایک ہی تھی ‘ جو کہ بچپن میں فوت ہو گئی ۔ جہانگیر صاحب کو اپنے بیٹوں کو اتنا وقت دینا پڑتاہے کہ وہ کاروبار نہیں کر سکتے ۔ ان بچوں کے پیدا ہونے سے پہلے وہ گاڑیوں کا ایک شو روم چلاتے تھے ۔ یہ تینوں بیٹے کبھی بھی اتنے سمجھدار نہیں ہو سکیں گے کہ شادی یا کاروبار کر سکیں ۔ ہمیشہ یہ اپنے والدین پر منحصر رہیں گے ۔ 
میری دور پار کی ایک رشتے دار‘ شمائلہ۔ اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا۔ یہ گھر کے کام کرتی ۔ اپنے والد سے پیسے لے کر شوہر کودیتی ‘پھر اس کے ہاں ایک ذہنی اور جسمانی طور پر ایب نارمل لڑکا پیدا ہوتاہے ‘ پھر اس کے شوہر کو فالج ہوتاہے اور وہ مر جاتاہے ۔ ہم اس سے ملنے جاتے ہیں ‘ وہ اپنے مرحوم شوہر کی تعریف کرتے ہوئے رو رہی ہوتی ہے ۔ سب حیران کہ وہ تو اکثر اسے مارتا پیٹتا رہتا تھا ۔ 
مشال حسین ملک ‘ جن کی ایک کشمیری حریت لیڈر یٰسین ملک سے شادی ہوتی ہے ۔ ان کے ہاں ایک خوبصورت بیٹی رضیہ سلطانہ پیدا ہوتی ہے ۔ یٰسین ملک پر بھارتی فوج نے اَن گنت بار اس قدر تشدد کیا ہے کہ جوانی میں ہی ان کی صحت تباہ ہو چکی ہے ۔ یٰسین ملک کی زندگی مقبوضہ کشمیر کے خارزار ہی میں گزرنی ہے ۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ اتنے تاریک مستقبل کے ہوتے ہوئے کس بل پر انہوں نے شادی کی اور ایک بیٹی کے باپ بنے ۔ وہ بیٹی ‘ جسے اپنے باپ کا سایۂ شفقت میسر ہی نہیں آتا ۔ 
میرے دوست معاذ کی بہن اسما اصغر ‘ جو 17سال بیمار رہ کر جوانی میں فوت ہوئی ۔اسے گنٹھیا تھا اور ایک حکیم کی دوا کھانے سے اس کے گردے ناکارہ ہو گئے تھے ۔ مرتے دم تک وہ تسبیح پڑھتی رہی ۔ ابھی گردوں کا ڈائلسز بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا اندازہ یہ تھا کہ وہ کافی سال زندہ رہے گی ۔ کئی کئی سال تو لوگ ڈائلسز پہ گزار دیتے ہیں۔ اس نے آیتِ کریمہ چالیس بار روزانہ پڑھنی شروع کی ۔ حدیث یہ کہتی ہے کہ یا تو انسان اسے پڑھتے ہوئے جلدی صحت یاب ہو جائے گا یا پھر وہ اسے پڑھتا پڑھتا جنت میں چلا جائے گا۔ ڈیڑھ دو ماہ میں ہی وہ فوت ہو گئی ۔ 
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ہم ان کی زندگیاں دیکھتے ہیں ‘تو حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ انسان اگر خوش رہنا چاہے‘ تو ہر حال میں خوش رہ سکتاہے ‘ورنہ کسی حال میں بھی نہیں ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں