"FBC" (space) message & send to 7575

بدلتے ہوئے standards

دنیا والوں کے معیارات (Standards)بدلتے رہتے ہیں ۔ روشن خیالی کی علامتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ صرف چند صدیاں پہلے تک ‘ یعنی انسانی تاریخ کے پچاس ہزار سالوں میں سے آخری چند صدیاں نکال کر ‘ ہمیشہ سے غلاموں کی خرید و فروخت ایک عام رواج تھا۔ اس زمانے میں اگر کوئی یہ کہتا کہ انسانوں کو غلام نہیں بنانا چاہیے تو لوگ اس پر ہنستے ۔ جب اسلام آیا تو غلاموں کے حقوق بڑھاتے بڑھاتے ‘ انہیں گھر کا فرد بنا دیا گیا۔ جو خود کھائو‘ وہ ان کو کھلائو۔ جو خود پہنو‘ ان کو پہنائو۔ غلام کو آزاد کرنا ایک اجرِ عظیم قرار دیا گیا ۔ اس سے قبل غلام کو ہمیشہ سے جانور کا درجہ دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں معاشرے کے لیے غلاموں کو حقوق دینا ایک انتہائی ناقابلِ یقین اور ناگوار شے تھی ۔ آج دنیا بھر میں غلامی ختم ہو چکی ہے ۔ آج جن لوگوں نے اسلام پر طنز کرنا ہوتا ہے ‘ وہ کہتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کو یکسر ختم کیوں نہیں کیا ؟ جب کہ اس زمانے میں لوگوں کا اعتراض یہ تھا کہ یہ کیسے احکامات نازل کیے جا رہے ہیں کہ جو خود کھائو‘ وہ انہیں کھلائو؟ کیا وہ ہم جیسے ہیں کہ ہم انہیں اپنے جیسا کھانا کھلائیں اور اپنے جیسا لباس پہنائیں۔اس زمانے میں لباس تو خصوصی طور پر کسی بھی شخص کے معاشرتی درجے کا اشتہار ہوتا تھا۔ امرا کے لباس زمین پہ گھسٹ رہے ہوتے اور غربا نے ایک چھوٹا سا لنگوٹ پہنا ہوتا۔ امرا کے اسی تکبر کو ختم کرنے کے لیے پائنچے ٹخنوںسے اوپر کرنے کا حکم دیا گیا۔ 
ایک زمانہ تھا ہمارے آج کے روشن خیال مغرب میں عمارتوں پر اشتہار لگا دیا جاتا کہ کتوں اور کالوں کا داخلہ منع ہے ۔ کالوں نے اپنے حقوق کی جنگ لڑی۔ پھر ایک زمانہ آیا کہ ہالی ووڈ کی فلموں میں کم از کم ایک کالے کو شامل نہ کیا جانا انتہا پسندی سمجھی جانے لگی۔ ظاہر ہے کہ کالوں کی اپنے حقوق کے لیے تحریک بہت قابلِ تعریف بات تھی ۔ یہ بہت بڑی جرأت کا اظہار تھا‘ لیکن پھر مغرب میں ہم جنس پرستی کا زمانہ آیا۔ہم جنس پرستوں نے اپنے حقوق کی تحریک چلائی ۔ مغرب پہ چرچ نے ظالمانہ حکومت کی تھی ۔ ان کی الہامی کتابیں تبدیل کر دی گئی تھیں اور یہ غلطیوں سے بھرپور تھیں ۔ اب مغرب میں خدا پرست ہونا ‘ خدا کے وجود پرواقعی یقین رکھنا اور مذہبی نظر آنا شرمندگی کی بات سمجھی جانے لگی۔ انسانی آزادیوں کا دور شروع ہوا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اگر ایک مرد اور ایک عورت بغیر شادی اکھٹے رہنا چاہیں ‘ اولاد پیدا کرنا چاہیں تو یہ ان کا حق ہے ۔ اگر دو مرد یا دو عورتیں آپس میں شادی کرنا چاہیں تو یہ بھی ان کا حق ہے ۔ اب ہالی ووڈ کی فلموں میں ہم جنس پرست جوڑا شامل کرنا روشن خیالی کی علامت سمجھی جانے لگی ۔ نوبت یہاں تک آئی کہ اگر کوئی شخص کہے کہ ہم جنس پرستی بری بات ہے تو لوگ اس پہ قہقہے لگاتے ہیں ۔اسے انتہا پسند قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح کوئی شخص اگر کہے کہ خدا واقعی existکرتا ہے تو اس کا بھی مذاق اڑایا جاتاہے ۔ 
لیکن خدا کے standardsتبدیل نہیں ہوئے اور نہ کبھی ہو سکتے ہیں ۔پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک ‘ انسان کو اس نے عقل دی اور اس سے حساب بھی لے گا۔ وہ کہتاہے کہ تم ہڈیوں کی بات کرتے ہو‘ میں تمہارے فنگر پرنٹس دوبارہ پیدا کروں گا ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ زمین پہ زندگی اپنے آپ وجود میں آئی ہے ‘ وہ اس بات کا جواب نہیں دے سکتے کہ پانچ ارب مخلوقات میں سے ایک کو عقل کیوں ملی اور باقیوں میں سے کسی اور کو کیوں نہ مل سکی ؟
قادیانیت والی بات بھی standardsکا مسئلہ ہے ۔ ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ یہ بات اپنی جگہ لیکن ایک سوال بھی ہے کہ کیا کوئی اسرائیل جا کر یہودیت میں اضافے اور ترامیم پیش کرنے اور ایک نیا پیغمبر پیش کرنے کا اعلان کر سکتاہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے حقوق مانگ سکتاہے اور ریاستی عہدے مانگ سکتا ہے ؟ کیا قادیانیت ایک مذہب تھا یا پھر دنیا کی سب سے سازشی قوم انگریز کی طرف سے مسلمانوں کے کس بل نکالنے کی ایک کوشش ؟ کوئی بھارت جا کر ہندومت میں اضافوں اور ترامیم کی کوشش کرے ۔ یا صرف اتناہی اعلان کر دے کہ گائے دوسرے جانوروں کی طرح ایک جانور سے زیادہ کچھ نہیں ۔ پھر دیکھیں ‘ کیا ہوتاہے اس کے ساتھ ۔آج روشن خیالی اور انسانی حقوق کا دور ہے ۔ ایک کتے کو سوئی چبھونا بھی ظلم سمجھا جاتاہے ۔ روشن خیالی کے اسی دور میں فلسطین جا کر دیکھیے کہ جیتے جاگتے انسانوں کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے ۔
standardsبدلنے سے یاد آیا کہ شوبز میں داڑھی رکھنا پسماندگی کی علامت سمجھی جاتی تھی ۔ پھر ایک وقت آیا ‘ جب داڑھی فیشن میں آئی اور حتیٰ کہ کندھے پر رکھنے والے ڈبیوں والے رومال بھی ۔ یا للعجب دیکھتے ہی دیکھتے سب ستاروں نے لمبی داڑھیاں رکھیں اور مدرسوں والے رومال کندھوں پر رکھے ۔ 
بات یہ ہے کہ انسانوں کے standards بدلتے رہتے ہیں ۔ خدا کے نہیں بدلتے ۔ مسلمانوں سے البتہ دنیا کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے مذہب کے ساتھ جو بھی کھلواڑ ہوتا رہے ‘ آپ نے اگر چوں چراں کی تو پھر آپ انتہا پسند قرار پائیں گے ۔ برطانیہ ‘ امریکہ اور یورپ میں hate speechکتنا بڑا جرم ہے لیکن سرکارِ دو عالم ؐ کے خاکے بنانا اور ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو تشدد پہ اکسانا آزادی ء اظہار کہلاتا ہے ۔ یہ موقف غلط ہے کہ مغرب اس بات کو نہیں سمجھتا کہ مسلمانوں کی اپنے پیغمبرﷺ کے ساتھ کیسی وابستگی ہے ۔ خان صاحب غلط سمجھتے ہیں کہ ہم مغرب کو سمجھائیں گے اور وہ ہماری بات سمجھ جائے گا ۔ سچ یہ ہے کہ مغرب کو اچھی طرح پتہ ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ان کے پیغمبر ؐ کے خاکے بنانا کس قدر اذیت ناک ہو سکتاہے ۔یہودیوں سے زیادہ مسلمانوں کو کون سمجھتا ہے ۔ 2005ء میں ‘ میں گریجویشن کر رہا تھا‘ جب پہلی بار گستاخانہ خاکے بنائے گئے ۔ ملک ملک احتجاج ہوا۔ پوری دنیا ہل کے رہ گئی تھی ۔ پھر بھی آج اگر وہ اسے دہرا رہے ہیں تو اس لیے کہ مسلمانوں کی ٹکا کے بے عزتی کرنا چاہتے ہیں ۔ نبیﷺ کی شان میں توکبھی کوئی کمی ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک یتیم کے طور پر حضرت محمدﷺنے ہوش سنبھالا۔ باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی اور دنیا سے پردہ فرمانے سے قبل کرّہ ء ارض کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔آج زوال کے دور میں بھی دنیا میں ڈیڑھ ارب افراد مسلمان ہیں ۔ سرکارؐ کی شان میں کوئی کمی ہو ہی نہیں سکتی‘ لیکن مغرب یہ بتانا چاہتا ہے کہ مسلمانوں کی اسے ایک ٹکے کے برابر بھی پرواہ نہیں ۔ وہ مسلمانوں کی بے عزتی کر سکتاہے اور مسلمان اس کا کچھ نہیں کر سکتے ۔ یہ مغرب کی خام خیالی ہے ۔ میرے حساب سے توبہت کچھ ہونے والا ہے ۔ اس لیے کہ جس نے دنیا بنائی ہے ‘ نہ ہی تو وہ اسے بنانے کے بعد لا تعلق ہو گیا ہے اور نہ ہی اس نے اس دنیا کو شیطان کے حوالے کر دیا ہے ۔ کیا ہونے والا ہے ‘ اس پہ ایک کالم اور ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں