"FBC" (space) message & send to 7575

کیا کس بل ہمیشہ کے لیے نکل چکا ہے؟

دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمان اس وقت جس صورتِ حال سے گزر رہے ہیں ‘ اسے دیکھتے ہوئے بظاہر ایسا لگتاہے کہ مسلمانوں کا کس بل ہمیشہ کے لیے نکل چکا ہے ۔ تعلیم کے میدان میں ہماری حالتِ زار یہ ہے کہ دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی کسی مسلمان ملک میں واقع نہیں ۔ دنیا میں اس وقت جس قدر تحقیق (ریسرچ) ہو رہی ہے ‘جو ریسرچ پیپرز شائع ہو رہے ہیں ‘ ان میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ عسکری طور پر صورتِ حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ فلسطین سے لے کر کشمیر اور برما تک ‘ عیسائی ‘ یہودی اور بت پرست مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں ۔تعداد میں ڈیڑھ ارب ہونے کے باوجود ‘ مسلمان بری طرح پٹ رہے ہیں ۔ شام اور لیبیاسے لے کر عراق اور افغانستان تک ‘ جہاں مرضی دیکھ لیجیے ۔ مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں اور فرقہ پرستی شدید ہے ۔
یہ وہ صورتِ حال ہے ‘ جس میں بعض مفکرینِ کرام کا ارشاد یہ ہے کہ مسلمان کبھی اوپر اٹھ نہیں سکتے ۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ ہمیں مسلم امّہ کا تصور ہی اپنے ذہنوں سے نکال دینا چاہئیے ۔ ہمیں فقط اپنے اپنے وطن کی فکر کرنی چاہئیے ۔دوسری طرف سرکارِ دو عالمؐ کا ارشاد مبارک ہے : مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ‘اس کا ایک عضو بیمار ہو توپورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتاہے ۔ اب بتائیں ماڈرن بقراطوں کی مانیں یا اس مبارک ترین ہستی ؐ کی ‘ جس نے کبھی کوئی غلط بات مذاق میں بھی نہیں کی ۔ 
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان کبھی سدھر نہیں سکتے ‘ وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا‘ جب مغرب اس قدر شدید زوال کا شکار تھاکہ جس کا تصور بھی آج مشکل ہے ۔ چرچ کی حکومت میں ‘ مائیگرین کے شکار مریضوں کا علاج کرنے کے لیے ان کے سروں میں کیل ٹھونک دیے جاتے تھے کہ شیطانی بدروحوں کو بھگایا جا سکے ۔یہ زیادہ پرانی بات نہیں ‘ صرف چار صدیاں قبل اطالوی ماہرِ فلکیات گیلیلیو گیلیلی نے جب یہ راز فاش کیا کہ کرہ ٔ ارض کائنات کا محور و مرکز نہیں تو چرچ کی طرف سے اسے تاحیات نظر بندکردیا گیا۔
ان دانشوروں سے گزارش یہ ہے کہ آپ مسلمان ہوتے ہوئے خود کو ایک امت نہ مانیے ۔ مغرب تو آپ کو ایک ہی امت مانتاہے ۔یہودی‘ ہندو بت پرست اور عیسائی ‘ آپ کو ایک امت سمجھتے ہیں ۔ ان سب کے لیے ایٹمی پاکستان اور شاہین تھری میزائل ایک جیسا دردِ سر ہے ۔ یہ سب پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیتے ہیں ۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے مل کر مشرقِ وسطیٰ میں تمام مسلمان ممالک اجاڑ کے رکھ دیے ہیں ۔ عراق جیسی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھنے والی افواج تباہ ہو چکی ہیں ۔ افغانستان میں تو امریکہ اور یورپ کے مشترکہ فوجی اتحاد نیٹونے مل کر جنگ لڑی ۔ اس کے باوجود بھی آپ کا خیال اگر یہ ہے کہ ہم مسلمان ایک امت نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے مقابل عیسائی اور یہودی امتیں خم ٹھونک کر کھڑی ہیں ۔ نہ ہی عیسائی اور یہودی مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ اگر صلیبی جنگیں بھی آپ کو یہ بات نہیں سمجھا سکتیں ۔ اگر اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف امریکہ کی طرف سے ویٹو ہونے والی قرار دادیں بھی آپ کو یہ بات نہیں سمجھا سکتیں۔ اگر مدینہ منورہ میں رسالت مآب ؐ کی آمد سے لے کر آج کے اسرائیل میں براجمان یہودیوں تک کا ڈیڑھ ہزار سالہ روّیہ آپ کو یہ نہیں بتا پا رہا کہ آپ ایک امت ہیں اور دو دو سری امتوں عیسائیوں اور یہودیوں (جمع ہندو بت پرستوں )کی طرف سے کرّہ ء ارض کے مسلمانوں کو ایک اجتماعی پھینٹی سے گزارا جا رہا ہے ۔اگر آپ اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا مقصد بھی نہیں سمجھ پا رہے ۔اگر آپ کا اصرا ریہی ہے کہ ہمیں صرف اپنے ملک اور اپنے وطن کے بارے میں سوچنا چاہیے ‘تو پھر آپ کی ذہنی حالت پر افسوس ہی کیا جا سکتاہے ۔ 
لیکن سوال یہ ہے کہ جو مسلمان ممالک اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہو پا رہے ‘ وہ ایک دوسرے کی کیا مدد کر سکتے ہیں ؟ میں بتاتا ہوں ۔ قرآن کہتاہے کہ کتنے ہی چھوٹے گروہوں نے کتنی ہی بڑی افواج کو پچھاڑ کے رکھ دیا‘ اللہ کے حکم سے سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انتہائی اعصاب شکن طویل جنگ کے باوجود پاکستانی فوج نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ اس کی جنگی صلاحیتوں میں انتہائی اضافہ ہوا ہے ۔ اسی طرح 2015ء میں جب بار بار فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر ترکی نے روسی طیارہ گرا دیا تو پوری دنیا ایک سکتے اور شاک میں آگئی تھی ۔ یہ دونوں افواج ایسی ہیں ‘ جن میں دم خم ہے ۔ باقی رہی معاشی ابتری تو اس پہ قابو پایا جا سکتاہے ۔ پچھلی دو دہائیوں کی ترک معیشت اٹھا کر پڑھ لیں ‘ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ معیشت کیسے اپنے پائوں پہ کھڑی ہوتی ہے اور پھر دوبارہ مشکلات کا شکار ہوتی ہے ۔ پھر یہ کہ جنگ تو بھوکے ننگے ہی لڑتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں انتہائی قیمتی گاڑیوں میں سوار ‘ انتہائی قیمتی آلات گلے میں لٹکائے ‘ڈائپر باندھے ہوئے امریکی اور نیٹو فوجی جنگ ہار چکے ہیں ۔ اس سے پہلے ویت نام میں بھی یہی ہوا تھا۔ 
مسلمانوں میں ماہرین (Experts)کی کمی نہیں ۔ جنرلوں سے لے کر ڈاکٹروں اور ماہرینِ معیشت سے لے کر معدنی ذخائر ڈھونڈنے والوں تک ‘ ہر شعبے کے ماہرین موجود ہیں ۔ بیرونِ ملک سے کتنے ہی لوگ سر پہ بال لگوانے پاکستان آتے ہیں ۔ پاکستانی ڈاکٹر ز اور سرجنز صلاحیت میں برطانیہ والوں سے کہیں بہتر ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ بہترین دماغ مسلمانوں میں موجود ہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں زوال سے نکلنے کی ایک شدید خواہش بھی پائی جاتی ہے ۔ خوشحال مسلمان اپنی جیب سے پیسے دینے کو بھی تیار ہیں ۔ ہاں کمی ہے تو لیڈرشپ کی لیکن ہمیں کیا معلوم کہ امام مہدی ؑ کاوقت بہت قریب ہو۔ شاید بہت جلد ہی مسلمان امام مہدی ؑ کو پکار نا شروع کردیں گے۔ ایک ایسا مسلمان دماغ اور منصوبہ ساز‘ جسے اقتدار کا قطعاً کوئی شوق نہیں ہوگا لیکن جسے مسلمان پہچان لیں گے کہ یہی ہمارا نجات دہندہ ہے ۔ وہ اس پر دبائو ڈالیں گے ۔ اسے قیادت سنبھالنے پر مجبور کریں گے ۔ ایسا ہی ہونا ہے ۔ یہ تقدیر ہے ۔ آپ چاہے لاکھ چیختے رہے کہ کہیں کسی امہ کا نام و نشان تک نہیں ہے ‘ خدا‘ جس نے اس سیارے پر زندگی پیدا کی ۔مخلوقات میں سے ایک کو شعور دیا‘ اسے خود پر ایمان لانے کا حکم دیا ‘ یہ اس کا پلان ہے ۔ یہی خدا کا پلان ہے ‘ جسے کائنات کے سب سے سچّے شخص ؐ کی طرف نے بیان کر دیا ہے ۔ خدا کا پلان ہی حتمی ہوتاہے ‘ وہی سب سے بہتر plannerہے ۔
مسلمانوں کا کس بل اور دم خم ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہوا۔یہ بات ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں نشاطِ ثانیہ آ کر رہنی ہے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں