"FBC" (space) message & send to 7575

انسان کی اصل اوقات

انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے ۔ اس کے جسم میں ہزاروں کلومیٹر طویل پائپ لائنز خون کی شریانوں کی صورت میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ چربی جم جانے یا کسی بھی وجہ سے ان پائپ لائنز میں تنگی آجائے ‘تو بلڈ پریشر بڑھ جاتاہے ۔ آدمی کو چکر آنے لگتے ہیں ۔ سر گھومنا شروع ہو جاتاہے ۔ ایسی حالت میں کام کرنا ناممکن ہو جاتاہے ۔ فوری طور پر اگر علاج شروع نہ کیا جائے‘ تو ان شریانوں میں سے کوئی بھی پھٹ سکتی ہے ‘ اگر وہ دماغ والی شریانوں میں سے ہو تو فالج‘ کومے یا موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جسم میں ایک دوسری قسم کی پائپ لائنز دوسری بھی ہوتی ہیں ۔ انہیں Nervesکہتے ہیں ۔ ان نروز کی مدد سے جسم اور دماغ کے درمیان ہر قسم کی پیغام رسانی ہوتی ہے ۔ انہی سے درد کااحساس دماغ تک جاتاہے ۔ انہی سے وہ احکامات جسم تک جاتے ہیں ‘ جن کی بنیاد پر ہم بولتے‘ لکھتے‘ چلتے پھرتے ‘ کھانا کھاتے اور ہر قسم کی حرکات کرتے ہیں ۔ اگر ان nervesمیں خرابی پیدا ہوجائے‘ اگر ان میں سے کوئی Damageہو جائے ‘تو انسان انتہائی تکلیف محسوس کرتاہے۔ یہی صورتِ حال Musclesکی ہے ‘ اگر ان مسلز میں سے کوئی سکڑ جائے ‘ اسے spasmہو جائے ‘تو وہ مسل دکھتا رہتاہے ۔ پھر ہڈیاں ہیں ‘ جن لوگوں کے ہڈیوں کے جوڑ میں خرابی پیدا ہو جائے‘ جوڑوں کا درد پیدا ہوجائے تو اٹھتے بیٹھتے انسان تکلیف محسوس کرتاہے ۔
جدید طرزِ زندگی میں موٹاپا اب عام ہے ۔ اس کے نتیجے میں جلد ہی انسان ذیابیطس کا شکار ہو جاتاہے ۔ ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس ایسی بیماریاں ہیں ‘ جو قبر تک انسان کے ساتھ جاتی ہیں۔گو کہ اب ایک ایسی دوا ایجاد ہونے کی خبر آئی ہے ‘ جس سے ذیابیطس اور موٹاپا ختم ہو سکے گا۔ فی الحال تو یہ موٹاپا بیماریوں کی جڑ بنا ہوا ہے ۔ نصرت فتح علی خان جیسا گلوکار اس کی وجہ سے صرف 49سال کی عمر میں فوت ہو گیا ۔ 
جلد اگر خراب ہو تو وہ انسان کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر سکتی ہے ۔ اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں ‘ جنہیں جلد کی کوئی بیماری ہو ۔ اس لیے کہ جلد کو خاص طور پر تکلیف محسوس کرنے کے لیے بنایا گیا ہے‘ تاکہ دماغ فوراً تکلیف والی چیز سے دور ہٹ جائے ۔ یہ جلد گل سڑ جاتی ہے ۔ اس میں زخم ہو جاتے ہیں ۔ ان زخموں سے پانی رسنے لگتاہے ۔ زندگی اذیت ناک ہو جاتی ہے ۔ 
خوراک کی نالی جس جگہ معدے میں کھلتی ہے ۔ وہاں ایک ڈھکن لگا ہوتاہے ۔ یہ ڈھکن خراب ہو جائے‘ تو معدے کا تیزاب غذا کو اوپر خوراک کی نالی میں دھکیل دیتاہے ۔ کھانا واپس منہ تک آتاہے ۔ ٹانسلز خراب ہو جاتے ہیں اور دکھتے رہتے ہیں۔ معدے میں تو خیر اللہ نے ایک خصوصی حفاظتی تہہ لگائی ہے ‘ جو کہ معدے کے تیزاب سے خلیات کو نقصان نہیں ہونے دیتی ۔ خوراک کی نالی میں ایسی کوئی تہہ نہیں ہے ؛لہٰذا اس نالی کے خلیات کوتیزاب کی وجہ سے نقصان پہنچتاہے ۔ چند سالوں میں انسان کو السر ہو جاتاہے ۔ نیز کھانا جب خوراک کی نالی میں آتا ہے ‘تو دماغ الجھن اور تکلیف محسوس کرتاہے اور اس راستے کو کلئیر کرنے کے لیے بار بار عضلات کو سکڑنے کا حکم دیتاہے ۔ کبھی ایسا بھی ہو سکتاہے کہ ڈکار کے ساتھ کھانا اچھل کر منہ سے باہر گر پڑے ۔ لوگوں کے درمیان انسان کو شرمندگی اٹھانا پڑے۔نیند الگ خراب ہوتی ہے ۔بار بار آنکھ کھلنے کی وجہ سے تھکن دور نہیں ہوتی۔ انسان سونے کے لیے نظامِ انہضام کی طرف سے اجازت ملنے کا محتاج ہو جاتاہے ۔ 
یہی حال گردوں کا ہے ۔ جب گردے کام کرنا چھوڑ جائیں تو انسان ڈائلسز پہ منحصر ہو جاتاہے ۔ جب اس کے جسم کا خون مشینوں کی مدد سے صاف کیا جاتاہے‘ تو وہ انتہائی حد تک کمزور ی محسوس کرتاہے ۔ وہ ایک چلتی پھرتی لاش بن جاتاہے ۔
میں بیماری کا شکار بہت سارے لوگوں سے ملا ہوں ۔ صحت مندی کے لیے انسان کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے ۔ اس پہ مسکنت طاری ہوتی ہے ۔ وہ خدا کو یاد کرتاہے ۔ اگر ان سب چیزوں میں سے کچھ بھی نہ ہو ۔ انسان بھرپور صحت مند زندگی گزارے تو بھی وقت کے ساتھ ساتھ وہ بوڑھا ہو تا چلا جاتاہے ۔ اس کی کمر جھک جاتی ہے ۔ یادداشت کمزور ہو جاتی ہے ۔ اعضا میں طاقت باقی نہیں رہتی۔ ذرا سا فاصلہ طے کرنے میں اسے گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ وہ ڈرائیونگ کے قابل نہیں رہتا ۔باکسر محمد علی کا ایک گھونسا کسی بھی انسان کو زمین چٹا سکتا تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا‘ جب وہ صحیح طور پر بات بھی نہیں کر سکتا تھا۔ پانی کا گلاس اٹھانا بھی ایک مشکل کام بن چکا تھا ۔ 
دوسری طرف آپ صحت مند انسانوں کو دیکھیں ۔ بالخصوص ان کو‘ جو آپس میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں ۔ آپ کو ایسی تن فن ‘ ایسا دبدبہ اور حریف کو نیست و نابود کرنے کے ایسے دعوے نظر آئیں گے کہ انسان خدا ئی کا دعویٰ کرتا محسوس ہوتاہے ۔جو لوگ اپنے اپنے شعبے میں کمال تک پہنچتے ہیں ‘ ان میں دوسروں پہ حملہ آور ہونے کا جذبہ زیادہ پایا جاتاہے اور وہ دوسروں کی نسبت زیادہ ڈینگیں مارتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ دوسروں پہ حملہ آور اس انسان کی اصل اوقات کیا ہے ‘ وہ میں آپ کو بتا چکا۔ ہزاروں کلومیٹر طویل پائپ لائنز میں سے صرف ایک کے پھٹنے کی دیر ہے ‘ انسان اپنے تمام تر دعووں سمیت بستر کا ہو کر رہ جاتاہے ۔ دل کو تو آپ چھوڑ ہی دیں ‘ خوراک کی نالی کے مسلز خراب ہو جائیں ‘ ان میں طاقت باقی نہ رہے ‘ انسان عبرت کا نمونہ بن جاتا ہے ۔ 
کسی بھی انسان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔ آپ اپنی فیلڈ کے کتنے ہی بڑے شہسوار ہیں ‘ آپ آرمی چیف ہیں ‘ وزیر اعظم ‘ چیف جسٹس ‘ نامور معالج‘ عالمی شہرت یافتہ وکیل ‘ایک دبنگ سرکاری افسر ‘ انتہائی مشہور کھلاڑی ‘ وقت تو کم ہے ۔ بیشتر صورتوں میں انسان کااپنے شعبے میں عروج بیس سے تیس سال تک محدود ہوتاہے ۔ اس کے بعد دنیا آگے بڑھ جاتی ہے ۔ انسان لنگڑاتا ہوا پیچھے رہ جاتاہے ۔ 
انسان مجبور پیدا کیا گیا ہے ۔ وہ معاشی حالات کے ہاتھوں مجبور ہے ۔ وہ اپنے والدین کا انتخاب خود نہیں کرتا۔ وہ ان والدین کے ہاتھوں مجبور ہے ۔ وہ اپنی اولاد کا انتخاب خود نہیں کرتا۔اس اولاد میں سے ایک قابل اور ایک نکما یا بیمار رہ جائے‘ تو اس کا دل کمزور اولاد کے حق میں روتا رہتاہے ۔ وہ اپنی اولاد کے ہاتھوں مجبور ہے ۔ وہ اپنی صحت پر قادر نہیں ۔ وہ بیماریوں کے ہاتھوں مجبور ہے ۔ وہ اپنا بڑھاپا روک نہیں سکتا۔ وہ اس بڑھاپے کے ہاتھوں مجبور ہے ۔ وہ اپنی موت کو روک نہیں سکتا ۔ وہ اس موت کے ہاتھوں مجبور ہے ۔ اسی طرح انسان حالات کے ہاتھوں مجبور ہے۔ 2013ء میں کروڑوں پاکستانی یہ چاہتے تھے کہ عمران خان حکومت میں آئے‘ لیکن اقتدار نواز شریف کو مل گیا۔ آپ حالات کے خلاف کیا کر سکتے ہیں ؟یہ حالات اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ دو عالمی طاقتیں امریکہ اور سویت یونین افغانستان میں اپنا تمام تر زور لگانے کے باوجود ناکام رہیں ۔ 
اس بات سے قطع نظر کہ آپ کس عہدے پر فائز ہیں ‘ ایک مجبور شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ کمزور اور مجبور پیدا کیا گیا ہے ۔ اپنی اصل اوقات انسان کو یادد رکھنی چاہیے !

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں