'' انسان پر زمانے میں ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا ‘ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے ہی نہ تھا ۔بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا ملے ہوئے نطفے سے‘ تاکہ اسے آزمائیں تو ہم نے اسے سنتا اور دیکھتا کر دیا(سننے اور دیکھنے کی صلاحیت عطا کر دی)‘‘ سورہ دہر 1,2۔
قرآن کہتاہے کہ آدم کو ہم نے مٹی سے پیدا کیا ۔ ساتھ ہی یہ بھی فرماتاہے کہ ہر زندہ شے کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ یہ سب وہ آیات ہیں ‘ جنہیں آپ ملا کر پڑھیں‘ تو ساری بات آپ پہ کھل جائے گی ۔ مسلمانوں نے یہ سمجھا کہ اگر زمین پر زندگی کے ارتقا کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر آدمؑ اور حواؑوالی داستان غلط ثابت ہو جائے گی ۔ اس لیے ہارون یحییٰ جیسے مسلمان سکالرز کی پوری زندگی نظریہ ارتقا کو غلط ثابت کرنے ‘بلکہ اس کا مذاق اڑانے کی ناکام کوشش میں گزری ۔ ہارون یحییٰ اور دوسرے مسلمان سکالرز کا موقف یہ تھا کہ خدا نے کن کہا‘ ساتھ ہی زندہ چیزیں ایک سیکنڈ میں پیدا ہو گئیں ۔ جب کہ ایسی کوئی چیز رونما نہیںہوئی ‘ جس میں پہلے ایک زندہ خلیہ پیدا ہوا ہو۔ پھر وہ دو میں تقسیم ہوا ہو۔ اس کے بعد ابتدائی زمین کے ہنگامہ خیز ماحول میں ایک ڈیڑھ ارب سال میں خلیات کا یہ مجموعہ پیچیدہ زندہ جانداروں میں ڈھل گیا ہو۔ اس کے بعد ان خلیات سے زمین پر رینگنے والے جاندار (ریپٹائلز) میملز‘ پرائمیٹس اور پرندے وجود میں آئے ہوں ۔آپ کائنا ت کو دیکھیں ۔ یہاں ہر چیز ایک طویل عمل (Process)سے گزرتی ہے ۔ کوئی ستارہ یا سورج ایک دن میں پیدا نہیں ہوتا ‘بلکہ کروڑوں سالوں میں اتنی ہائیڈروجن گیس اکھٹی ہوتی ہے ‘ جس سے سورج جنم لے سکے ۔ آج بھی اس کائنات میں بے شمار سورج پیدا ئش کے طویل عمل سے گزر رہے ہیں ۔ اللہ خود کہتاہے کہ میں نے چھ دن میں یہ دنیا بنائی (ایک سیکنڈ میں نہیں )۔
آج انسان اس قابل ہو چکا ہے کہ ماضی میں پیش آنے والے سب بڑے واقعات و حادثات تک پہنچ سکے ۔ وہ چٹانوںمیں موجود ایک جاندار کی باقیات (فاسلز) کے مطالعے سے ‘ اس کے ڈی این اے کے مطالعے سے نہ صرف اس فاسل کی عمر بتا سکتاہے ‘بلکہ اس جاندار کا کچا چٹھا کھول کر بیان کر سکتاہے ۔ یہ باتیں کوئی ہوا میں نہیں کی جاتیں ‘بلکہ ایک ایک جین کا نام بتایا جاتاہے ۔جین BRCA 2اور اس جیسے ایک ایک جین کا نام بتانا پڑتاہے ۔ ساری دنیا میں رہنے والے ‘مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اور لادین /ملحد سائنسدان ایسی کسی بھی تحقیق کا کچا چٹھا کھول کر اس کا جائزہ لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر نی اینڈرتھل مین (Homo Neanderthal)کے جینز کی تفصیلات میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف ایوو لوشنری اینتھروپالوجی نے شائع کی ہیں ۔ مخالف ممالک کے سائنسدانوں اور مخالف سائنسی اداروں کے لیے یہ ایک بھرپور opportunityہوتی ہے کہ اس تحقیق کو کمزور اور ناقص ثابت کر کے جرمنی والوں کو بے عزت کیا جا سکے ؛ اگر ایک سانسدان چین میں یا روس میں بیٹھا ہے ‘ وہ بھلا کیوں امریکہ والوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے گا ۔ اس کے ساتھ یہ بھی جان لیجیے کہ ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا کہ پوری دنیا کی سائنسی کمیونٹی ‘ لاکھوں سائنسدان جو کہ مختلف مذاہب ‘ مختلف ملکوں اور مختلف نظریات کے حامل ہیں ‘ وہ سب مل کر دنیا کو بے وقوف بنانے کا ارادہ کر لیں اور کہیں سے بھی آزادسائنسدان اس کے خلاف شور نہ مچائیں ۔
اگر تو ہم اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کرۂ خاک پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔ کیسے تین سے چار ارب سال میں وہ اس موجودہ شکل میں ہمارے سامنے آئی تو فاسلز اور ڈی این اے کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک بھینس میں بھی پھیپھڑے‘ دل ‘ گردے‘ خون ‘ امیون سسٹم ‘ جلد ‘ مرکزی اعصابی سسٹم اور دوسرے اعضا ہو بہو انہی اصولوں پہ کام کرتے ہیں ‘ جیسا کہ انسانوں میں ۔ چمپینزی اور بندروں کے تو بہت سے تاثرات ہی انسانوں جیسے ہوتے ہیں ‘بلکہ کبھی بندر کا تماشہ دیکھیں تو وہ سائیکل چلا کر دکھا دے گا ۔سسرال جا کرظالم ساس کے ہاتھوں خوار ہونے کی ایکٹنگ کرے گا ۔ آٹا گوندھ کر دکھائے گااور مورچے میں لیٹ کر فائرنگ کرے گا۔ سائیکل چلا کر دکھا دے گا۔جہاں تک تو sensesسے کام لے کر ان پر reactionدینے کا تعلق ہے ‘ بلی سے لے کر بندر تک ‘ سارے انسان جیسے ہی ہیں ۔ ہاں ! جہاں یہ سب مار کھا جاتے ہیں ‘ وہ یہ ہے کہ وہ تجزیہ(Analysis) نہیں کر سکتے اور منصوبہ بندی (Planning)نہیں کر سکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے ان پر کاٹھی ڈالی ہوئی ہے ۔ بلی اور بندر تو دور کی بات ہومو نی اینڈرتھل بھی اس کے قابل نہیں تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کسی نے نہ تو لباس پہنا اور نہ ہی اپنے مردوں کو دفنایا ۔ کسی نے گاڑی اور انجن تو کیا‘پہیہ بھی ایجاد نہیں کیا ۔ ان میں سے کسی پر شریعت نازل ہی نہیں ہوئی ۔ ان کو دوسروں کے سامنے رفع حاجت کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی کھلے عام اختلاط کرتے ہوئے ۔
یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ ہے کہ کرہ ٔ ارض پہ ارتقا واقعتاً وقوع پذیر ہوتا رہا‘ لیکن خدا کی مرضی اور اس کی نگرانی میں ؛ اگر تو یہ سب کچھ اپنے آپ ہو رہا ہوتا ‘تو لازماً انسان کے علاوہ باقی پانچ ارب قسم کی مخلوقات میں سے کسی نہ کسی کو تھوڑی بہت planning اور analysis آجانا چاہیے تھا۔ ان میں سے ایک نہ ایک لازماً انسان کے استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتا ۔
ارتقا آج بھی جاری ہے ۔ ایک عام شخص پانی میں چار پانچ منٹ سے زیادہ اپنا سانس نہیں روک سکتا‘ جبکہ انڈونیشیا میں پانی کے اندر غوطے لگا کر مچھلیاں پکڑنے والے Bajauقبیلے کے لوگ 13منٹ تک اپنے سانس روک سکتے ہیں ۔ ماہرین نے جب الٹرا سائونڈ اور دوسرے سائنسی آلات کی مدد سے ان کے جسموں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ Bajauقبیلے کے لوگوں میں تلّی کا سائز پچاس فیصد تک بڑھ چکا ہے ۔ تلّی جسم میں مختلف قسم کے supportingکردار ادا کرتی ہے ۔ یہ تحقیق جرنل Cellمیں شائع ہوئی ‘ جبکہ تمام سائنسی ویب سائٹس نے اس پر تبصرے شائع کیے ۔ ابھی یہ تحقیق نتیجہ خیز نہیں ہے ‘لیکن Bajauلوگوں کا 13منٹ تک پانی میں سانس روکے رکھنا ایک حقیقت ہے ۔
مذکورہ تحقیق کے ثبوت محقق Melissa Llardoنے جرنل Cellکو پیش کیے ۔ Melissa Llardoکوپن ہیگن یونیورسٹی میں Center for Geogeneticsمیں کام کرتی ہیں ۔ جتنے بھی میرے دوست اس تحقیق کو غلط ثابت کرنا چاہیں ‘ انہیں دعوتِ عام ہے کہ جرنل Cellمیں اپنا ایک آرٹیکل publishکروا کے دکھا دیں ۔یونیورسٹیوں میں جن لوگوں نے ریسرچ کی ہوئی ہے ‘ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کے بڑے سائنسی جرنل میں اپنا آرٹیکل چھپوانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتاہے ؛ اگر کبھی کوئی بونگی شائع ہو جائے‘ تو مخالف ممالک کے سائنسی ادارے اس کی دھجیاں اڑا کے رکھ دیتے ہیں ۔
ہم مسلمانوں کو پڑھنے لکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ جو قومیں پڑھ لکھ گئیں ‘ جنہوں نے محنت کی‘ وہ آج ہم پہ غالب ہیں ۔مجھے یقین ہے کہ ایک دن ہم ان کے مقابلے میں ضرور اتریں گے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو ریسرچز مغرب کر چکا ہے اور جن جن میدانوں میں اپنے جھنڈے گاڑ چکا ہے ‘ ان کا بغور مطالعہ کیا جائے ۔