اُس نے کہا '' یار میں نے تجھے بتا تو دیا That was a bad day۔ اب اس سے آگے اورکچھ نہ پوچھ ۔‘‘
میں بھلا کیسے چپ رہتا ۔ پوچھتا رہا اپنے کالج کے اس دوست سے کہ سترہ سال پہلے اُس روز کیا ہوا تھا۔ چلو باقی باتیں چھوڑو‘ امینہ سلطان کہاں گئی؟
وہ ہنس پڑا ۔اُس نے کہا ''مٹی سے مٹی کی محبت میں کبھی کسی کو کچھ ملا ہے؟‘‘
میرا اصرار بڑھتا گیا۔ آخر وہ بتانے لگا ۔ ''اُس روز ‘ اس نے یہ کہا ''اچانک کچھ نہیں ہوا‘ بلکہ کئی مہینوں میں بتدریج اس حادثے کی پرورش ہورہی تھی۔کالج کے ان دنوں میں ‘ میرا جگر کام کرنا چھوڑ رہا تھا‘ صحت گر رہی تھی ۔ یکے بعد دیگرے ناکامیوں پہ ناکامیاں میری منتظر تھیں ۔ امینہ سلطان ایک ناکام لڑکے کو اپنے منگیتر کے طورپر قبول نہ کر سکی؛حالانکہ یہ زوال تو عارضی تھا۔ تجھے پتا تو ہے کہ کیسا مزاج تھا امینہ کا۔ اگر اسے کسی چیز نے مجھ سے منسلک کر رکھا تھا تو وہ میرا غیر معمولی ذہن تھا ۔ ذہن بیچارہ کیا کرے‘ جب جسم ساتھ ہی نہ دے ۔ تو اس نے مجھے چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس علیحدگی کو وہ celebrateکرنا چاہتی تھی ۔ وہ چاہتی تھی کہ دنیا کے سامنے میں ایک تماشہ بنوں ۔ اس کے غیر معمولی حسن پہ قربان ہو جائوں ۔ اس نے مجھے پروانے کی طرح راکھ کر دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
ان دنوں اس کا روّیہ خاصا بدلا بدلا سا محسوس ہو رہا تھا‘ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اُس کا منصوبہ کیا ہے‘ اُس روز‘ جس کا تو مجھ سے پوچھ رہا ہے ‘ اس نے مجھے ایک ہوٹل میں مدعو کر رکھا تھا ۔''ایک تقریب ہے‘‘ اس نے کہا تھا۔بعد میں پتا چلا یہ میری روسیاہی کی تقریب تھی ۔ جب میں وہاں داخل ہوا تو وہاں ہمارے کئی کلاس فیلوز پہلے سے موجود تھے۔ امینہ سٹیج پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ براجمان تھی ۔میرے داخل ہوتے ہی مرکزی دروازہ بند کر دیا گیا۔ باہر سے باقاعدہ قفل لگنے کی آواز آئی۔ میں بخوبی سمجھ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔یہ مجھے تڑپا تڑپا کے میرا رقصِ بسمل دیکھنے کی تقریب تھی ۔
میں نے بغور ہال کا جائزہ لیااور میرے غیر معمولی ذہن نے چند لمحات میں سارا کھیل سمجھ لیا۔ دائیں کونے میں جو لڑکا دلہے کی طرح بنا سنورا بیٹھا تھا‘ وہ تھا اس کا نیا محبوب۔ اس نئے محبوب نے آج اس تقریب میں اسے اپنا دل دینا تھا۔ سب مسکراتے ہوئے میری طرف ہی دیکھ رہے تھے ۔ ‘‘
اُس نے کہا '' اس وقت میرے پلّے کچھ بھی نہیں تھا۔ ہاں خدا کی یاد تھی ۔اتنا بہرحال مجھے معلوم تھا کہ یہ وقت گزر جائے گااور پھر اس کی یاد ہی باقی رہ جائے گی۔بہرحال آج کی اس تقریب میں میری حالت وہی تھی‘ جو باکسر محمد علی کی اپنی آخری لڑائی میں ہونا تھی۔ مار کھائے بغیر چارہ کوئی نہیں تھا۔
تقریب دو گھنٹے تک جاری رہی ۔ کھانے اور مشروبات کے دور چلتے رہے ۔وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراتے رہے اور میری طرف دیکھ کر بھی ۔ میں چپاتی سالن میں اچھی طرح بھگو کر آہستہ آہستہ نگلتا رہا۔ گلا اس بری طرح خشک تھا کہ اس کے باوجود ہر لقمے کے ساتھ مجھے پانی کا ایک گھونٹ لینا پڑا۔ آنسو آنکھوں کی بجائے حلق میں گر رہے تھے ۔بہرحال میں یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ کسی صورت تماشہ نہ بنوں گا ۔میں نے دیکھا کہ بالآخر میری خاموشی اب امینہ کے اعصاب پہ گراں ثابت ہو رہی تھی ۔
میوزک بجتا رہا۔ آخر وہ سٹیج پر آیا۔ امینہ کے قدموں میں بیٹھ کر اس نے ہیرا جڑی انگوٹھی اسے پیش کی۔دونوں نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا ۔ میں اسی طرح خاموش رہا۔
اس طویل خاموشی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب لوگوں کی مسکراتی ہوئی نظروں کا ہدف میں نہیں‘ بلکہ خود امینہ تھی ۔وہ خاصی جز بز ہو رہی تھی ۔
تقریب اپنے اختتام کی طرف بڑھی ۔ تماشہ دیکھنے کے شوقین مایوس تھے اور سب سے بڑھ کر امینہ کا اپنا منہ لٹکا ہوا تھا ۔ آخر انہوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں سٹیج پر آکر کچھ کہوں ۔ ‘‘
اس نے کہا ''یہ اکسا نے کی آخری کوشش تھی ۔ اگر میں چاہتا تو سٹیج پر آکر با آوازِ بلند اس لڑکے کا شکریہ ادا کرتا۔اس موقعے پر سب کو نئے جوڑے پر ہنسانا میرے لیے کچھ بھی مشکل نہیں تھا۔ میں چاہتا تو دل بھر کے اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکتا تھا‘ لیکن اس وقت مجھے خود سے زیادہ ترس امینہ پہ آرہا تھا۔مجھے معلوم تھا کہ امینہ اپنی یہ بے عزتی کبھی برداشت نہیں کر پائے گی ۔میں نے صبر سے کام لیا۔ اُس سدا کی بے وقوف نے ایک ایسا لڑکا منتخب کیا تھا ‘ جو نمائش کے علاوہ اور کسی کام کا نہیں تھا۔وہ ردی سے بھرا ہو اایک خوبصورت بریف کیس تھا ۔ تقریب کے دوران ہی میں اس کی آنکھوں کے زاویے بخوبی نوٹ کر چکا تھا۔ وہ عورتوں کا شکار ی تھا۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ امینہ کے ساتھ وفا نہیں کرے گا ۔‘‘
اُس نے کہا '' اُ س روز میں واپس آیا ‘ اپنا بوریا بستر باندھااور اپنے چچا کے پاس ایک دوسرے شہر چلا گیا۔ وقت گزرتا گیا ۔ اُس کی شادی ہو گئی ‘ میری بھی شادی ہو گئی ۔ آخر سترہ سال بعد میرا اُس سے آمنا سامنا ہوا۔ میں اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ بازار سے گزر رہا تھا۔ اچانک امینہ میرے سامنے آئی۔ اس کی گود میں ایک خوبصورت بچی تھی ۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتی رہی۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا '' یہ ہے امینہ ‘ جس نے مجھے مسترد کیا تھا۔ ‘‘میری بیوی امینہ کے سامنے جھکی اور اس نے مجھے مسترد کرنے پر امینہ کا شکریہ ادا کیا ۔ میں ہنس پڑا ۔وہ خاموش ہی رہی ‘ پھر اس نے کہا : وہ سامنے گاڑی میں میرا شوہر بیٹھا ہے۔ میں نے اسے دیکھا ‘ یہ وہ لڑکا نہیں تھا ۔یہ تو کوئی شریف اور سمجھدار بندہ تھا‘‘۔
اس نے کہا ''امینہ کی آنکھ میں پچھتا وا تھا ۔ میں نے اس سے کہا کہ خوش قسمتی سے اسے ایک اچھا شوہر ملا ہے ۔اس نے شک بھری نظر سے میری طرف دیکھا کہ شاید میں طنز کر رہا ہوں ۔ پھر مجھے سنجیدہ دیکھ کر اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ مجھے تو معلوم تھا کہ اُس کا دل چڑیا جتنا ہے ۔‘‘
اُس نے کہا '' اگر تو میں اپنے آپ کو اُس دن کی اذیت ناک قید کے حوالے کر دیتا ‘ تو زندگی رک جاتی ۔ایک ایسی آگ بھڑک اٹھتی ‘جومجھے اور میری ہونے والی بیوی ‘ امینہ اور اس کے ہونے والے شوہر کی زندگیاں جلا کر بھسم کر دیتی‘ لیکن میں بھلا اُ س دن کا قیدی کیوں بنتا؟ دماغ کی ایک عارضی کیمسٹری کو زندگی بھر کا جہنم کیوں بننے دیتا۔ میں اس دن سے آگے گزرچکا ہوں۔ میری زندگی میں آج بہت سی چیزیں امینہ سے زیادہ دلکش ہیں اور سچ بتائوں تو ان سترہ برسوں کے بعد وہ خاصی بھدّی سی دکھائی دے رہی تھی‘ لیکن یہ بات میں نے اسے بتائی نہیں ۔ ‘‘
اُ س نے کہا '' وہ دن گزر چکا ہے ۔ اُس کے بارے میں اب مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ that was a bad day!۔ اب بات کا بتنگڑ نہ بنا۔ اب اس بات کو جانے دے ‘ میرے یار ۔ دیکھ زندگی کتنی خوبصورت ہے ‘‘۔
وہ موبائل نکال کر اپنے بیٹے کی تصویریں دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا‘ اس کے ماتھے پہ عقل کا نور چمک رہا تھا ۔