"FBC" (space) message & send to 7575

’’باندر دے ہتھ بندوق‘‘

محترم خالد مسعود کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا کو لوگوں نے علم حاصل کرنے کا شارٹ کٹ سمجھ لیا ہے؛حالانکہ یہ' باندر دے ہتھ بندوق ‘والا معاملہ ہے ۔ ایسے لوگ اظہارِ خیال کے لیے آزاد ہیں‘ جو کچھ بھی نہیں جانتے ۔ افواہ ‘خواہش‘ بلکہ اپنے تعصب کو خبر بنا کر آگے پھیلاتے ہیں ۔ گرافک ڈیزائنرز کسی بھی ٹی وی چینل کے ایک سکرین شاٹ میں اپنی مرضی کا متن ڈال کر ان کے حوالے کردیتے ہیں اور یہ پاگلوں کی طرح اسے پھیلاتے رہتے ہیں ۔ پہلے ایسا ہوتا تھا کہ بہت سمجھ بوجھ رکھنے والے وہ لوگ ‘ جنہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ‘جنہیں خدا نے دیکھنے والی آنکھ دی ہوتی ‘ وہ کسی معاملے پر اپنی سوچی سمجھی رائے (well considered opinion)دیتے۔ اس well considered opinionکی بنیاد پر رائے عامہ تشکیل پاتی ۔ سوشل میڈیا کی صورت میں آج ہر بندہ رائے عامہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہا ہے ‘ جو ذہنی صلاحیت نہیں رکھتا وہ بھی۔ صحافت کے ایک عبقری نے کہا تھا ''کاغذ اور قلم ہر ایک کی دسترس میں ہیں۔سو‘ جس کا دل چاہے ‘ان معصوموں سے کھلواڑ کرتا پھرے ‘‘ ۔ سو یہ بے رحم لوگ آج معصوم کی بورڈ (Key Board)کے ساتھ کھلواڑ کرتے پھر رہے ہیں ۔
انسان کس طرح اپنے تعصبات میں اندھا ہو جاتا ہے ‘ کس طرح اپنے آپ کو بھی دھوکہ دینے لگتا ہے ‘ اس کا مظہر اسرائیلی طیارے کی پاکستان میں مبینہ آمد تھی ۔یہ خبر تو جھوٹی تھی‘ لیکن اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد تماشا دیکھنے میں آیا۔ ایسے لوگ بھی اسرائیل سے ''برادرانہ ‘‘تعلقات قائم کے حق میں دلائل پیش کرتے نظر آئے‘ جو نواز شریف کو 'مودی کا یار‘ کہہ کر دھتکارتے تھے ۔ نواز شریف پر تبرہ کرنے والوں میں ‘ میں بھی شامل تھا ۔ اس لیے کہ سجن جندال جیسے بھارتی کاروباریوں سے اس طرح کے ذاتی کاروباری تعلقات قائم کرنا ‘پاکستانی وزیراعظم کو زیب نہیں دیتا‘لیکن یکایک یہ کیسا معجزہ برپا ہوا کہ راتوں رات ہمارے یہ دانشور اسرائیلیوں کی محبت میں تڑپنے لگے۔
ہمارے زمانے میں ایک نیا فیشن سامنے آیا ہے ۔ جتنا آپ مذہب ‘ سیاست ‘ فوج ‘ معاشرے اور قوم کے مروجہ نظریات کے خلاف بولیں گے‘ اتنے ہی بڑے آپ حریت پسند کہلائیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ نئے بیانیوں کے عاشق کھمبیوں کی طرح اُگنے لگے ہیں۔ انہیں زمینی حقائق کا ایک ذرا سا ادراک بھی نہیں ہوتا۔ ایسے ہی ایک بڑے دماغ نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ڈیم بنانا بہت ضروری ہیں ؛چنانچہ دفاعی بجٹ کم سے کم کیا جانا چاہیے ۔ یہ وہی بات تھی کہ پیاس سے مرنے کی بجائے فوراً سینے پر گولی کھا کے مر جائو ۔ جس بڑی فوجی قوت ‘یعنی انڈیا کی طرف سے پاکستان کو چیلنج درپیش ہے ‘ اس کا دفاعی بجٹ 55 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ۔ آدھی پاکستانی فوج ہر وقت مشرقی سرحد پر لگی رہتی ہے ۔ جب کہ افغانستان والی طرف مغرب میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکی افغانستان میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ 
نئے بیانیوں کے یہ عاشق ہر رات پاکستان کے تمام مسائل حل کر کے سوتے ہیں ۔ اسرائیل اور بھارت میں موجود انتہا پسندی ان کے نزدیک کوئی فیکٹر ہی نہیں ۔ بھارت نے پہلے دن سے پاکستان کا قیام تسلیم نہیں کیا۔ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگایا ۔ مسلمان تو کجا دلت اقلیت کا گلا دبایا ۔ پاکستان اگر بھارت کے سامنے جھکے گا‘ تو وہ اسے بھائی چارے نہیں ‘بلکہ کمزوری کے طور پر لے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستانی فوج ملک کا دفاع نہ کر رہی ہوتی‘ تو اس وقت بر صغیر کے مسلمان گائو ماتا کی ٹانگوں میں سر دیے بیٹھے ہوتے ۔ 
اسی طرح یہ ہمارے رات کے شاہین ایک ہی شب میں اسرائیل سے تعلقات تو قائم کر لیتے ہیں‘ لیکن انہیں معلوم نہیں کہ طویل کشیدگی کی وجہ یہودیوں کی انتہا پسندی ہے ۔ انہوں نے اپنی قوم سے باہر آخری پیغمبرکا مبعوث ہونا تسلیم نہیں کیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب سرکارؐ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت سے لے کر آج تک یہودی مسلمانوں کے خلاف سازشوں پہ سازشیں کرتے رہے ۔ چودہ صدیوں میں مسلمانوں سے ان کی نفرت میں بھرپور اضافہ ہوا ہے ۔انہیں جب بھی موقع ملا‘ انہوں نے مسلمانوں کا قتل ِ عام کیا۔ 
آج اگر بھارت اور اسرائیل کے خلاف مسلمانوں میں نفرت پائی جاتی ہے‘ تو اس کا سبب فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہے ۔چلئے‘ آ پ انہیں مسلمان نہ سمجھیں ‘ انسان سمجھ لیں ۔ انسان نہیں سمجھنا ‘ جاندار سمجھ لیں‘ جنہیں جلد کٹنے پر درد محسوس ہوتاہے ۔ان کے لیے لڑیے مت‘ لیکن ان سے مظلوم تو قرار دے دیجیے ۔ اس میں آپ کا کیا جاتا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں ایک فیصلہ کن جنگ ہو کر رہنی ہے ۔ آپ جنگ کی خواہش اور آغاز نہ کریں ۔ پاکستان کے حالات ایسے نہیں کہ وہ کسی عالمی جنگ کی سربراہی کا سوچ بھی سکے ‘لیکن کیا ہم اپنے دشمن کو پہچاننا بھی چھوڑ دیں ؟ کیایہودی مدینہ کو بھول چکے ہیں ؟ 
آپ یہودیوں کی وضع قطع دیکھیں ۔ سر سے لٹکتی ہوئی لمبی لمبی پونیاں ‘ ٹوپیاں اور دیوار سے سر لگا کر فریاد کرنا۔ داعش جنگجوئوں سے زیادہ متعصب اور انتہا پسند قوم‘ جو آج بھی فلسطین میں مسلمانوں کا قتل ِ عام کر رہی ہے ۔ 
نئے بیانیوں کے عاشق‘ ذرا یہ تو فرمائیں کہ آپ بھارت اور اسرائیل سے محبت کی پینگیں بڑھانے کا تو سوچ رہے ہیں ۔ دوسری طرف کی صورتِ حال کیا ہے ؟ وہ آپ کو مارنے کو پھر رہے ہیں ۔ آپ یکطرفہ محبت کی آگ میں سلگ رہے ہیں ۔ہمارے یہ نادان عاشق یہ بھی فرمائیں کہ جب پاکستان نے بھارت کے ساتھ امن کی بھاشا شروع کی تو اس کا انجام کیا ہواتھا؟ کیا گجرات میں مسلمانوں کا قتل ِعام کرنے والا ‘ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے والا نریندر مودی‘ ایک عشرے تک جس کے امریکہ داخلے پہ پابندی عائد رہی‘ بھارت کا وزیر اعظم نہیں بنا ؟
بالکل یہ باندر دے ہتھ بندوق والا معاملہ ہے ۔ مزید برأں یہ کہ یہ حریت پسند گاہے اپنے آپ کو تاریخ کی عظیم ہستیوں سے مماثل قرار دیتے رہتے ہیں ۔ ایک ہر وقت لڑائی جھگڑے کی زد میں رہتا تھا۔ ایک دن کہنے لگا کہ اگر لوگ مجھے برا بھلا کہتے ہیں تو کیا ہوا‘ آخر امام مالک ؒ کو بھی تو کوڑوں سے پیٹا گیا تھا۔ بندہ پوچھے کہ کہاں امام مالکؒ ‘ کہاں اونٹ پٹانگ چیزیں شیئر کرنے والے آپ۔ اب اسرائیلی جہاز والے تنازعے میں ایک کی چھترول شروع ہوئی تو فرمایا کہ معاشرے کے رائٹ ونگ نے سقراط کو بھی زہر پلا دیا تھا ۔ہمارے ان سقراط صاحب کے پاس کچھ لوگوں کے خلاف کسی بڑے مالیاتی سکینڈل سے متعلق کچھ سکرین شاٹس بھی موجود ہیں ‘ جن میں یہ خاکسار بھی شامل ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک دفعہ وہ اپنے دل کی حسرت پوری کر لیں ۔
یہ لوگ دن رات ‘چوبیس گھنٹے آن لائن رہتے ہیں ۔ آپ صبح ‘ دوپہر ‘ شام ‘ رات ‘ کسی بھی وقت فیس بک کھول کر دیکھ لیں ۔ یہ اپنے مورچے پر موجود ہوں گے ۔ دنیا کی کسی چیز پر کوئی تبصرہ کر کے دیکھ لیں ۔ چند منٹ کے اندر ان کا کمنٹ موصول ہو جائے گا ۔اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ ان کے پاس کتنا وقت ہے ۔ یہ فیس بک کے addictہو چکے ہیں ۔ڈکار بھی لیں تو اسے فیس بک پر اپ لوڈ کرنا نہیں بھولتے‘ فیس بک سے باہر ان کی حالت وہی ہوتی ہے‘ جو مچھلی کی پانی سے باہر ہوتی ہے ۔اگر ہم کچھ کام کاج کرنا چاہتے ہیں‘ تو سوشل میڈیا کی addictionسے باہر نکلنا ہوگا ؛البتہ سوشل میڈیا کو جاننا‘ اس پہ نظر رکھنا ضروری ہے ۔ اس لیے کہ حدیث کے مطابق :دانا وہ ہے‘ جو اپنے زمانے سے واقف ہو ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں