زندگی میں بہت سے قابلِ رحم لوگ دیکھے ہیں‘ لیکن ان لوگوں سے زیادہ نہیں جو پاکستان جیسے ملک میں پیدا ہوئے لیکن اُن کا کہنا یہ ہے کہ انسانی آزادیاں مقدم ہیں اور مذہب نہیں ‘اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے ‘ سب کچھ اپنے آپ وجود میں آیا ہے ۔ وہ مسلمان ماں باپ کے گھروں میں پیدا ہوئے ‘ مسلمانوں جیسے نام رکھے گئے ‘ پیدائش کے وقت ان کے کان میں اذان دی گئی ۔ زندگی میں ایسے حادثات اور ایسی محرومیاں انہیں پیش آئیں کہ وہ کھلی ہوئی سب آیات‘ سب نشانیاں دیکھنے کے باوجود اپنے صدمات کی وجہ سے خدا کے منکر ہی نہیں بلکہ مخالف ہوگئے۔ ایک آیت اور حدیث نقل کرنا ان کے نزدیک انتہا پسندی ہے ‘ کم عقلی ہے ۔ رسولِ اکرمؐ کی بعثت وہ واقعہ تھا‘ جس نے دنیا ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ آپؐ پیدائشی یتیم تھے۔بچپن ہی میں والدہ فوت ہو گئیں ۔ آپؐ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ آپ ؐ پر وحی آئی۔ آپؐ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے معلم ثابت ہوئے۔ جب آپ ؐ نے 63برس کی عمر میں دنیا سے پردہ فرمایا تو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے بدل چکی تھی ۔ یہ آپؐ کا معجزہ تھا کہ بکریاں چرانے والوں نے اپنے دور کی عالمی طاقتوں کو روند کے رکھ دیا ۔ انسانی تاریخ کی ایک عظیم سلطنت تو وجود میں آئی ہی‘ لیکن جب یہ سلطنت زوال پذیر ہوئی‘ شکست و ریخت کا شکار ہوئی‘مسلمان عالمگیر تنزلی کا شکار ہوئے ‘ جب سرکارؐ کو پردہ فرمائے چودہ صدیاں گزر چکیں تو اس کے بعد بھی دنیا کے ایک تہائی لوگ مسلمان ہیں ۔ وہ بغیر کسی جبر کے ‘ بغیر آپؐ کو دیکھے ہوئے ‘آپ ؐ پر درود وسلام بھیجتے ہیں ۔جب تک انسان اس کرّے پر آباد ہے ‘ آپؐ پر سلام بھیجا جاتا رہے گا۔ جبکہ تاریخ میں جتنے بھی بڑے فاتحین گزرے ہیں ‘ جنہوں نے عظیم الشان سلطنتیں تشکیل دیں ‘ موت کے بعد وہ سب بھلا دیے گئے۔ مسلمانوں نے طویل عرصے تک عروج دیکھا ۔دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا۔ پھر زوال آگیا لیکن آج بھی پونے دو ارب افراد مسلمان ہیں۔ کرّہ ٔ ارض پہ دائمی طور پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے افراد کی جب بھی ایمانداری سے فہرست بنائی جائے گی ‘سرکارؐ ہی سرِ فہرست ہوں گے ۔
مکہ سے جن حالات میں حضور پاک ؐ نے ہجرت فرمائی ‘حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ غاروں میں چھپتے ہوئے مدینہ پہنچے ۔ اس کے بعد ایک عشرہ بھی نہ گزرا تھا‘ جب ایک فاتح کی حیثیت سے آپؐ واپس مکہ میں داخل ہوئے ۔ کہاں چند برس قبل مکہ والے بدر کے میدان میں مسلمانوں کا نام و نشان مٹانے کے ارادے سے نکلے تھے ۔ اس قدر بڑی فتح اور وہ بھی بغیر جنگ کے لیکن اس کا راستہ بدر سے گزر کر آیا۔ غزوہ ء بدر میں کم سازو سامان کے ساتھ ایک چھوٹے سے لشکر کے ساتھ آپ نے دشمن کو شکستِ فاش سے دوچار کیا ۔ انسانی تاریخ کا عظیم ترین سپہ سالار ‘ جس نے کتنی ہی جنگیں اور کتنے ہی بڑے معرکے تلوار کے بغیر ہی جیت لیے ۔ مذہب بیزار لوگوں کے نزدیک اس ہستی ؐ کے اقوال (احادیث) نقل کرنا بے عقلی ہے ۔ دوسری طرف جنہیں عقل وشعور کا مینارہ سمجھتے ہیں ‘ ان کی حالت دیکھیے۔ چھ سات سو ارب ڈالر سالانہ فوجی بجٹ ہے امریکہ کا ۔ ایک ہزار ارب ڈالر افغانستان میں ضائع ہوئے اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔یہ دنیا کی واحد عالمی طاقت کا حال ہے ۔ ویت نام کی جنگ دیکھ لیں ۔وہ سپاہی جو رات کو گشت کرنے کے لیے بکتر بند گاڑی میں باہر نکلے تو ڈائپر باندھا ہوتا ہے کہ پیشاب کے لیے گاڑی سے باہر نہ نکلنا پڑے۔ ڈائپر باندھ کر بھی کبھی کسی نے جنگ جیتی ہے ؟ سپاہی کا سب سے اہم اثاثہ تواس کی عزت ہوتی ہے ۔
زندگی میں بڑے بڑے مجبور لوگ دیکھے لیکن ان جیسے نہیں ‘جو مسلمانوں میں پیدا ہوئے مگر مغرب اور امریکہ جن کے لیے مینارہ ٔ نور تھا ‘ اسلام والے کم عقل اور کم علم۔ مغرب کے جن لوگوں کی طرح وہ زندگیاں گزارنا چاہتے ہیں ‘ انہیں تو ہم جنس پرستی سمیت ہر انسانی آزادی کم از کم اس دنیا میں میسر ہے ‘انہیں تو وہ بھی نہیں۔ چند برس قبل پیرس میں ایک ہم جنس پرستی والے کلب پر حملہ ہوا اور دادِ عیش دینے والے کئی درجن لوگ قتل ہوئے۔ ہمارے ایک پاکستانی سیکولر نے فرمایا: ہلاک ہونے والوں میں دو پاکستانی ہم جنس پرست بھی شامل تھے۔ وہ دن دور نہیں ‘ جب پاکستان میں بھی لوگ اپنی (جنسی) انسانی آزادیوں کے لیے باہر نکلیں گے ۔ وہ دن کبھی بھی نہیں آسکتا۔
جب کبھی پاکستان میں ہم جنس پرستوں نے باہر نکلنے کی کوشش تو لٹھ بردار مولوی عبد الجبار انہیں گھر تک چھوڑ کر آئے گا۔ ان بیچاروں پر ترس آتا ہے ۔ مغرب میں ہوتے تو چا ر دن اپنی حسرتیں پوری کر لیتے ۔ وہ بیچارے‘ جن کے نزدیک موت کے بعد دوبارہ کوئی زندگی نہیں ہے ۔ ان میں زیادہ تر لوگ وہ ہیں ‘ جن کے ساتھ زندگی میں کوئی حادثہ پیش آیا۔ شدید ترین احساس کمتری ‘ والدین کی علیحدگی ‘ بد صورتی۔ کبھی وہ اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ قابلِ رحم مخلوق۔ جس کے نزدیک روحانی مضبوطی کوئی چیز نہیں ہے۔ جو نماز نہیں پڑھ سکتے ‘ بھٹک جائیں تو خدا کو پکار نہیں سکتے۔ جو کہتے ہیں کہ انسان کا روحانی وجود نہیں ہے ‘ دجال نہیں ہے ‘ حدیث نہیں ہے ‘ قیامت نہیں آنی۔ جن کا کہنا یہ ہے کہ کرّہ ٔ ارض پہ زندگی گزارنے والا ایک جاندار‘ انسان اپنے آپ عقلمند ہو کر تین بڑے مذاہب میں بٹ گیا ہے۔ پھر آپ شادی کیوں کرتے ہیں؟ لباس کیوں پہنتے ہیں؟ ان کا کہنا یہ ہے کہ مردوں کی مردوں سے شادی جائز ہے۔ پیداپاکستان میں ہوئے‘ نام مسلمانوں والے ‘خواہشات یورپ والوں جیسی اور ہر لمحہ جوتے پڑنے کا خطرہ اپنی جگہ۔ مہذب نظر آنے کی خواہش اپنی جگہ لیکن ساری تہذیب تو مذہب سے آتی ہے۔ سارے اخلاقی اصول۔ ورنہ اگر یہ زندگی ہی سب کچھ ہے تو کیوں نہ انسان ہر فائدہ اٹھائے‘ دوسروں کا استحصال کرے اور نیچے پڑا ہوا نوٹوں سے بھرا بٹوا واپس نہ کرے۔ پھر آپ اپنی اولاد کو کیا سکھائیں گے کہ جھوٹ ضرورت پڑنے پر بول دیا کرو یا یہ کہیں گے کہ جھوٹ گناہ ہے؟ جب کہ حقیقت یہی ہے کہ ایک جاندار نے اچانک مذہب اختیار کیا اور تین مذاہب میں وہ بٹی ہوئی ہے۔ ان کے علاوہ بت پرست ہیں یا خدا کو نہ ماننے والے۔ اس کے علاوہ تو کوئی قابلِ ذکر کیٹیگری انسانوں کی نہیں۔ مذہب‘ قرآن اور حدیث کی بات کرنے والے ان لوگوں کے نزدیک Lunaticہیں۔ جب کہ مردوں کی مردوں سے شادی کرنے والے تہذیب یافتہ ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں دنیا کے سب سے طاقتور ملک کی طاقتور عوام نے ایک مسخرہ ‘مہم جو اور ذہنی عدم استحکام کا شکار صدر منتخب کیا۔ جو ٹی وی پر اپنی بیٹی کے جسمانی خدو خال کی تعریف بار بار کرتا ہے اور کہتاہے کہ میرے اور میری بیٹی کے درمیان قدرِ مشترک ہے۔ وہ ان کے خیال میں Lunatic نہیں ہے بلکہ وہ تو عقل و شعور کا باوا آدم ہے۔ اس قدر شدید احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگ ‘ کہ جو دنیا میں ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ ہمیشہ جو خوف زدہ کیڑوں کی سی زندگی گزارتے رہے ہیں۔ عقل و شعور کا مینارہ ان کے نزدیک یا تو امریکہ ہے یا پھر سوویت یونین تھا ۔ یا مستقبل میں اگر چین عالمی طاقت بن گیا تو وہ ہو گا لیکن مسلمان کبھی نہیں ہو سکتا ۔