"FBC" (space) message & send to 7575

خدا دنیا کو کیسے Govern کر رہا ہے ؟

ہود علیہ السلام اپنی قوم کو ایمان لانے کا حکم دے رہے تھے ۔اپنے خدائوں کو جھوٹا کہنے پر وہ لوگ غضبناک ہوئے ۔ شدید تلخی ہوئی ۔اس موقع پر ہود علیہ السلام نے وہ بات کہی‘ جو ایک پیغمبر ہی کہہ سکتے تھے۔ کہا (بے شک)تم سب مل کر میرا برا چاہو اور پھر مجھے کوئی مہلت نہ دو ۔(جو بگاڑ سکتے ہو ‘ بگاڑ لو)۔ یوں ہود علیہ السلام نے انہیں ایک کھلا چیلنج دیتے ہوئے اللہ پہ توکل کا مظاہرہ کیا ‘ پھر ایک بہت بڑے راز کی بات کہہ دی :''(زمین پر) کوئی چلنے والا (کوئی جاندار ) ایسا نہیں ‘ جسے اس (خدا ) نے اس کے ماتھے سے پکڑ نہ رکھا ہو ‘‘۔ 
اس ایک آیت میں علم و حکمت کے دریا بند ہیں ۔ ہم جیسے عام لوگ صرف ایک ذرا سا اندازہ ہی کر سکتے ہیں ‘لیکن ہم باریکیاں نہیں سمجھ سکتے ۔ ہود علیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ تمام مخلوقات کو ان کے forebrainسے خدا نے پکڑا ہوا ہے اور یوں خدا اس دنیا کو Govern کر رہا ہے ‘ جبکہ انسان کو دو میں سے ایک ‘ 0اور 1میں سے ایک کو چننے کا ذرا سا اختیاردیا گیا ہے ۔ 
ایک جگہ قرآن کہتا ہے کہ'' پھر اس پر (نفس پر) نازل کیا‘ الہام کیا اس کا گناہ(کی خواہش ) اور اس کی نیکی‘‘۔ اس پہ استاد کا لیکچر Does a man think?موجود ہے ‘ جس کے بعد کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں بچتا۔ 
یہ بات تو ٹھیک کہ نفس پر نیکی اور برائی الہام ہو رہی ہوتی ہے ۔ شیطان برائی کی طرف توجہ دلاتا ہے ۔ نفس کشش محسوس کرتا ہے‘ لیکن ماتھے سے پکڑنے کا مطلب یہ لگتا ہے کہ خیالات کا پورا سلسلہ ہی کنٹرولڈ ہے ۔ یہ ہوتا کیسے ہے ؟ جس طرح ریموٹ سے ٹی وی ۔یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کا ایک مزاج ہے ۔ اس کے خلاف جانا اس کے لیے انتہائی مشکل ہوتاہے ‘لیکن یہی آزمائش ہے ۔یوں خدا نے مختلف انسانوں میں مختلف رجحانات پیدا کیے ۔ یوں دنیا گل و گلزار بھی ہے اور آتش زار بھی ۔ 
ایک خاص قسم کے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں ‘ جن کو میں initiativeوالے decision makersکہتا ہوں ۔ ان میں بہت جلدی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ کنفیوژن نہیں ہوتی ۔ یہ کوئی بھی فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ الگ بات کہ وہ فیصلہ غلط نکلے ۔ یہ کوئی بھی نیا کام کرنے میں دیر نہیں لگاتے ۔ اب ایسا مزاج رکھنے والے کی قسمت کہ اسے کوئی اچھا منیجر ملتا ہے یا نہیں ۔ یہی لوگ کاروبار کرتے ہیں ۔ان میں رسک لینے کی صلاحیت ہوتی ہے اور یہ نتائج کو برداشت بھی کرتے ہیں ۔ دوسرے لوگ سوچتے ضرور ہیں‘ لیکن شروع نہیں کر سکتے بلکہ خوف زدہ ہو کر پلٹ جاتے ہیں ۔ initiativeوالے decision makers یا تو خالی ہاتھ ہوتے ہیں یا پھر عروج پر ۔ 
یہ initiativeوالے decision makersہی ہیں ‘ جن کے ذریعے اللہ حالات کو shapeکرتا ہے ۔ ان کے مسائل یہ ہیں کہ اپنے مزاج کی وجہ سے یہ برائی کی طرف بھی جلدی بڑھ جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ یہ لڑائی کے دوران ہمیشہ باقی رہنے والا نقصان کر جاتے ہیں ‘ جبکہ باقی لوگ چیخ چلا کر ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ۔
خوش قسمتی یا بد قسمتی سے یہ کالم نگار بھی انہی میں شامل ہے ۔ طبلِ جنگ اکثر یہی لوگ بجاتے ہیں ۔ 
اسی طرح ایک شخص ہوتاہے ‘جو کم پر راضی رہتا ہے ۔ جو شدید محنتی ہوتا ہے ۔ جو سوچنے میں وقت ''ضائع‘‘ نہیں کرتا۔ جو کوئی نیا رسک لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ شخص مزدور ہوتاہے ۔اگر یہ کسی سیٹھ کے ہاں پیدا ہو بھی جائے تو دوسروں کے سر پہ ہی عیش کر سکتاہے ۔ 
اب آپ باقیdimension دیکھیں ۔ خوف ‘ غصہ‘ایثار ‘ان میں سے ایک ایک جذبہ ایسا ہے ‘ جو انسان پر غلبہ پاجائے تو اس کی پوری زندگی بدل جاتی ہے ۔ اسی طرح بڑا استاد کسی کو مل جائے اور وہ علم حاصل کر سکے۔ یہیں سے اللہ مقدر کو کنٹرول کرتاہے ۔ اسے پتا ہے کہ کس دماغ میں کتنا خوف ہے ‘ کتنا initiativeہے ‘ کتنی جرأت ہے ‘کتنا ایثار ہے ‘ کتنی خودغرضی ہے ۔ تو وہ فیصلہ کیا کرے گا ؟ہم لوگ بھی جب کسی شخص کو اچھی طرح جانتے ہیں تو ہمیں بخوبی معلوم ہوتاہے کہ ایک خاص صورتِ حال میں وہ کیا فیصلہ کرے گا۔ اوپر سے خیالات کا نزول بھی خدا کی طرف سے ہو ررہا ہوتاہے ۔ نفس اپنے انٹینے سے انہیں کیچ کر رہا ہوتاہے ۔ شیطان تو صرف اس طرف دھیان دلاتا ہے ۔ 
سیاستدانوں میں دیکھیں تو عمران خان میں initiativeاور risk لینے کی جرأت موجودہے ۔ اکتوبر2011ء میں جب اس کے پلّے کچھ بھی نہیں تھا‘ تو اس نے مینارِ پاکستان پہ جلسہ کر ڈالا ۔ نواز شریف اتنی پرانی سیاسی قوت ہونے کے باوجود یہ رسک نہیں لے سکے ۔ 
اسی طرح اللہ دنیا کو کنٹرول کرتاہے ۔ مزید یہ کہ ضدی اور جنگجو لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف لا کھڑا کرتاہے ۔قرآن کہتاہے کہ اللہ بعض کے ذریعے بعض کو دفع (تباہ ) نہ کر دیتا تو دنیا فساد سے بھر جاتی ۔
لیکن انسان کو جو صلہ دیا گیا ہے ‘ وہ خوف پر قابو پا کر مشکل فیصلہ کرنے پر دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ حضرت بلالؓ اپنے ہاتھ سے کوڑا گرا دیتے ہیں ۔ جب ایک انسان مصلحت فراموش کر کے میدان میں اتر جاتاہے اور ا س کا موقف درست ہوتاہے ‘عقل سے کام لیتا ہے ‘تو وہ قائد اعظم کی طرح ایک نیا ملک تخلیق کر سکتاہے ۔ 
اور جب انسان خواہش پہ قابو پا لیتاہے تو اس کی عقل میں نور پیدا ہو جاتا ہے ۔ ورنہ انسان ہر لمحہ وقتی تعصبات اور خواہشات کی زد میں ہی رہتا ہے ۔ ایک شخص ہوتاہے ‘ایجاد کرنے والا۔مزدور طبقہ ہمیشہ اس کا مذاق اڑاتا ہے ۔باقی پھر کبھی!
اب آجائیے تحریکِ انصاف سوشل میڈیا ونگ کی طرف۔اس میں دو طرح کے لوگ ہیں ۔ ایک تو وہ جنہوں نے شریفوں اور زرداریوں کے ہاتھوں ملک کو تباہ ہوتے دیکھا اور عمران خان سے امیدیں وابستہ کیں ۔ یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ کہیں چند سالوں میں کوئی تبدیلی آنے سے پہلے ہی کپتان کا تخت گرانہ دیا جائے ۔اس لیے یہ بہت زیادہ متحرک ہیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں ‘ جو ایک مافیا کی طرح کام کررہے ہیں ۔ جن کی ننھی منّی سی عقل نے انہیں کپتان کا نادان دوست بنا دیا ہے‘ جو عمران خان پر ذرا سی بھی تنقید کرے‘ یہ اس کی شکل سے ملتی جلتی خواتین کی نازیبا لباس میں تصاویر لگا کر انہیں اس کے اہلِ خانہ قرار دے دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑا نیکی کا کام کر رہے ہیں ۔ ایک ایک بندہ درجنوں اور سینکڑوں فیک آئی ڈیز لیے بیٹھا ہے اور یہ آئی ڈیز کبھی آف لائن نہیں ہوتیں۔ جو خاتون اینکرز کے گلے ناپتے پھرتے ہیں ۔ان میں کوڈا سرِ فہرست ہے ؛حالانکہ کوڈے جیسے کرداروں کی لامحدود وقت تک ٹکا کے بے عزتی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ اس کی وال پر اتنی غلاظت موجود ہے کہ جس کی بنیاد پر سو سال تک اس کی تاریخی چھترول ہو سکتی ہے اور مجھے شک پڑتا ہے کہ میرے ہی ہاتھ سے کارِ خیر انجام پانا ہے۔بس بندہ آئی ٹی کو سمجھتا ہو اورذرا وقت نکال سکے اور یہ خود تحریکِ انصاف کے بھی مفاد میں ہے‘ ورنہ تو انہوں نے تحریکِ انصاف کا حال ایم کیو ایم والا ہی کرنا ہے ۔
ایک دفعہ یہ اپنے دل کی حسرتیں پوری کر لیں ‘ پھر یہ خادم بتائے گا کہ آگے کیا ہونا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں