"FBC" (space) message & send to 7575

زندہ چیزوں میں مائع کا کردار

خدا نے انسان کو تخلیق کیا‘ سب مخلوقات کو تخلیق کیا۔ خدا کے ناموں میں سے ایک نام ''مصور‘‘ بھی ہے ۔تو خدا کیسا مصور ہے ؟ وہ صورتیں تخلیق کرتاہے‘حالانکہ ان صورتوں کی تخلیق میں استعمال ہونے والا میٹیریل گوشت ‘ جلد اور ہڈیاں وہی ہیں لیکن پھر بھی ہر صورت دوسری سے کتنی مختلف ہے ۔ 
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت 
ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں
بدزیب عمارت کی تخلیق میں بھی اتنا ہی میٹیریل لگتا ہے لیکن جس انداز میں جسم کا ایک ایک مسل‘ جلد ‘ بال اور دانتوں کی ساخت ڈیزائن کی گئی ہے ‘ وہ قابلِ دید ہے ۔ کسی کے سامنے کے دو دانت منہ سے باہر ہوں تو اس کی صورت ہی بدل جاتی ہے ۔ اسی طرح بالوں میں انتہا درجے کی خوبصورتی ہے ۔ جلد میں انتہائی خوبصورتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ خدا ہی واحد مصور ہے ۔ اسی نے رنگ پیدا کیے ورنہ دنیا بلیک اینڈ وائٹ بھی ہو سکتی تھی۔ زندہ چیزوں پہ ‘ تتلی اور کیڑوں کے پروں پہ‘ پھولوں اور پتوں پہ اس نے ڈیزائن تخلیق کیے ۔ اسی نے اتنے بڑے سورج اور اتنے چھوٹے سے چاند کو زمین سے اتنے فاصلے پہ رکھا کہ وہ دونوں ایک جتنے دکھائی دیتے ہیں ۔ اسی نے ڈوبتے ہوئے سورج سے شفق کو سرخی عطا کی۔ اسی نے پانی کا سائیکل تخلیق کیا ۔ جب یہ پانی آسمان سے بارش بن کے برستا ہے تو شاعروں اور مصوروں کے تخیل کو جلا بخشتا ہے۔اور مور کے رنگوں کو کون بھول سکتا ہے ؟ اسی نے رنگ بدلتا ہوا گرگٹ پیدا کیا ۔ اسی نے جلتا بجھتا جگنو تخلیق کیا ۔ 
انسان کینوس پہ جو کچھ تخلیق کرتاہے ‘ وہ ایک مستعار لی گئی صلاحیت ہے ۔آپ خدا کا تخلیقی کمال دیکھیے ‘ شیر خوار بچّے ‘ جو کہ مکمل طور پر اپنے ماں باپ کے رحم و کرم پہ منحصر ہوتے ہیں ‘ ان کے اندر انتہائی حد تک خوبصورتی پیدا کی۔ ان کی جلدکہیں زیادہ نرم اور خوبصورت ہے ۔ ان کی مسکراہٹ بڑوں کی نسبت کہیں زیادہ دلکش ہے ۔اور تو اور‘ شیر خوار بچوں کے منہ سے ایک خاص خوشبو آتی ہے‘ جو دنیا کی کسی اور چیز سے نہیں آتی۔ بچہ اگر معصوم نظر آنے کی بجائے خرانٹ دکھائی دیتا ‘ اگر اس کی جلد زیادہ خوبصورت نہ ہوتی ۔ اگر لمس کے احساس سے ماں کے دل میں اس کے لیے محبت نہ پیدا کر دی جاتی تو جاندار جو کہ انتہا درجے کے خود غرض ہوتے ہیں ‘ بھلا اپنے بچّوں کو اسی طرح سے پالتے ؟ خدا نے رنگ تخلیق کیے ۔ قوسِ قزاح کی صورت میں انہیں نمائش کے لیے ٹانک دیا۔ خدا نے مخلوقات کو نر اور مادہ کی دو جنسوں میں پیدا کیا ۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہم جنس پرستوں نے قوسِ قزح کے رنگوں کو اپنے ''حقوق ‘‘ کی علامت بنا لیا؛ حالانکہ تخلیق کرنے والے نے تو انہیں دو جنسوں میں پیدا کیا تھا۔ 
خدا نے زندگی کو تخلیق کیا تو اس تخلیق میں مادے کو ٹھوس اور مائع حالت میں استعمال کرنا انتہائی اہم ہے ۔ جب انسان نے گاڑی اور مختلف مشینیں بنائیں تو انجن کے مختلف حصوں میں فرکشن /رگڑ کم کرنے کے لیے انجن آئل استعمال کیا۔ اسی طرح ہمارے جسموں میں خدا نے مائع حالت میں مادے کو استعمال کیا ہے ۔ ہر جگہ پانی استعمال ہوا ہے ۔ آپ خون کو دیکھ لیں۔یہ تقریبا پانی ہے ۔ سیب اور گوشت سمیت ‘ آپ جتنی بھی چیزیں کھاتے ہیں ‘ ان کے اندرایک خاص تناسب میں پانی رکھا گیا ہے ۔ تربوز اور سٹرابیری 92فیصد تک پانی ہیں ‘جبکہ گوشت 75فیصد پانی پہ مشتمل ہوتاہے ۔ اگر کھانے پینے کی چیزوں میں پانی نہ ہوتا تو جاندار کسی چیز کو اتنی آسانی سے کھا نہ پاتے بلکہ یہ گلے میں پھنس جاتی۔ دوسری طرف آپ دیکھیں تو جانداروں کے جسم میں ہر جگہ liquidہی liquidاستعمال ہوئے ہیں ۔منہ میں لعاب اگر نہ ہوتا تو بھی کھانا اتنا آسان نہ ہوتا۔ خوراک جب گلے سے خوراک کی نالی میں داخل ہوتی ہے تووہ بھی خشک نہیں بلکہ گیلی ہوتی ہے ۔ اس طرح خوراک کو آگے معدے تک سفر کرنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ خیر ‘ اس میں کششِ ثقل اور خوراک کی نالی کے مسلز کی طاقت زیادہ اہم ہوتی ہے ۔ معدے میں خوراک کو ہضم کرنے لیے خصوصی تیزاب اللہ نے تخلیق کیے ہیں ‘ جو کہ مائع شکل ہی میں ہوتے ہیں ‘ جبکہ خون کو جسم میں اوپر کے اعضا تک چڑھانے کے لیے کششِ ثقل کے خلاف قوت کی ضرور ت تھی ‘ جو کہ دل جیسے پمپ کی صورت میں مہیا کی گئی ۔ 
خون جو کہ پورے جسم میں ایک خاص رفتار کے ساتھ دوڑتا پھرتا ہے ‘ وہ مائع کی شکل میں ہوتا ہے ۔ یہ معدے سے خوراک اور پھیپھڑوں سے آکسیجن حاصل کرتا اور پھر پورے جسم کے ایک ایک خلیے کو سپلائی کرتا ہے ۔ اس خون کی کمی یا اس کی رفتار کم یا زیادہ ہونے پر انسان بیمار ہو جاتا ہے ۔ یہی صورتِ حال آنتوں میں ہے ۔ ان میں بھی خاص liquidsہوتے ہیں ‘ جو کہ فاضل مادوں کو آسانی سے جسم سے خارج کرتے ہیں ۔
اسی طرح آپ اللہ کا کمال دیکھیے کہ جسم کو توانائی فراہم کرنے والی اہم ترین چیز ‘ آکسیجن گیس کی شکل میں کرّہ ٔارض کی فضا میں قید کر دی ۔ یہ سانس کے ساتھ پھیپھڑوں سے خون جیسے مائع میں شامل ہوتی ہے ۔ دماغ کو اگر چند سیکنڈ کے لیے بھی خون سے گلوکوز اور آکسیجن کی فراہمی معطل ہوتو اسے کومہ ‘ فالج اور حتیٰ کہ موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اور تو اور نسل بڑھانے کے لیے جنسی خلیات مائع شکل میں ٹرانسفر کیے جاتے ہیں ‘ جس کی بنیاد پر زندگی آج تک قائم و دائم ہے ۔ 
اسی طرح سے انسان جب دیکھتا ہے کہ زندہ چیزوں کے اندر اگر یہ مائع (Liquids)نہ ہوتے تو زندگی تو ختم ہو جاتی ۔ اس ساری کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک سیارے پر زندہ چیزوں کو پیدا کرنا اور انہیں زندگی گزارنے کے قابل بنانا اتنا پیچیدہ کام ہے ‘ جو کہ بہت گہری پیمائشوں کا متقاضی ہے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ جلد میں پسینے کا جو نظام ہے ۔ آپ کا جسم گرم ہو تو جلد کے مسام پانی خارج کرتے ہیں تاکہ جسم کا درجہ ٔ حرارت کم ہو ۔ اسی طرح سے جسم میں درجۂ حرارت کوایک خاص درجے پر قائم رکھنا‘ اور اگر آپ اپنے جسم سے باہر کے مائع دیکھیں تو سمندروں کو بہتا ہوا رکھنا ۔ چاند کی کششِ ثقل سے لہروں کا اٹھنا ۔ پانی کا بخارات بن کے اٹھنا اور بارش کی صورت نازل ہونااور پھر زمین کے نیچے اس کا storeہونا ۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں کہ جاندار جن کے بغیر کبھی زندہ نہ رہ سکتے لیکن ہم روزمرہ زندگی میں ان کے بارے میں سوچتے تک نہیں ۔ آپ صرف منہ سے لعاب ختم کر دیں ۔ پھر دیکھیں کیسے گلا خشک ہوتا ہے اور کیسے انسان تکلیف کا شکار ہوتا ہے ۔ اسی طرح آپ کچھ دیر ناک کی بجائے منہ سے سانس لے کر دیکھیں ؛حالانکہ راستہ موجود ہے ۔ پھر بھی منہ سانس لینے کے لیے ڈیزائن نہیں ہوا بلکہ ناک ہی اس کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ 
پھر آنکھ سے ٹپکنے والے پانی کا قطرہ دیکھیے‘ جس پہ لاکھوں اشعار لکھے گئے ‘ جبکہ کسی ایک شاعر نے بھی ناک سے ٹپکنے والے مائع پر اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ یہاں پہنچ کے کالم ہوا ختم ‘ لہٰذا مجھے دیجیے اجازت۔ ''میرے جسم کی کیلشیم‘‘ کے عنوان سے جلد ایک کالم لکھنے کاارادہ ہے‘ جو انشاء اللہ آپ کو پسند آئے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں