"FBC" (space) message & send to 7575

اپنے غلط ہونے کا امکان

ناصر افتخار صاحب کے ساتھ تبادلہ ٔ خیال ایک انتہائی سرشار کر دینے والا تجربہ ہے ۔ ان چند دنوں میں ‘ذہن میں جنم لینے والے کچھ خیالات آپ کی نذر کرتا ہوں ‘ جن کا تعلق مختلف موضوعات سے ہے ۔ اور آخر میں ایک اختلافی نوٹ بھی ۔ ہمارے استاد کی تعلیم یہ ہے کہ اپنی آنکھ ہمیشہ کھلی رکھیں۔ کسی کا علم و فضل دیکھ کر آپ اس کے سامنے سربسجود بہرحال نہیں ہو سکتے ۔استادکا کہنا ہے کہ عقیدت اور جہالت کا آغاز ایک ساتھ ہوتاہے ۔ 
اللہ خالق ہے ‘ مصور ہے ۔ تووہ کیسا تخلیق کرنے والا ہے ؟ آپ دنیا کو دیکھ کر اس کا ذرا سا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔لوگوں کے چہرے دیکھ لیں ۔ انسان کا حلیہ دیکھ لیں ۔ ٹانگیں لمبی‘ کانوں کا سائز‘ آنکھیں ‘ بھنویں ‘ سر پہ بال ۔ اب ان میں سے کوئی ایک چیز اٹھا کر دوسری جگہ رکھیں اور پھر دیکھیں کیسی شدید بد صورتی تخلیق ہوتی ہے ‘ مثلاً :آنکھیں دو کی جگہ ایک یا تین کردیں ۔ بھنویں صاف کردیں ‘ دانت ختم کر دیں ۔ایک دفعہ میں نے ایک لڑکا دیکھا‘ جس کے دو دانت ایب نارمل ہونے کی وجہ سے اس کے ہونٹوں کے نیچے لگے ہوئے تھے۔اس وقت میری جو کیفیت ہوئی تھی‘ وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔
اب یہ دیکھیں کہ اللہ نے جانداروں کو نر اور مادہ کی شکل میں پیدا کر کے کس طرح انہیں ایک دوسرے میں متوجہ کر رکھا ہے ۔ آپ کوئی ایسا جاندار لے لیں ‘ جو انسانوں کو اچھا نہیں لگتا‘ مثلاًلگڑ بھگڑیا کاکروچ ‘ پھر یہ دیکھیں کہ ان میں بھی نر اور مادہ کی تقسیم اور ایک دوسرے میں دلچسپی اسی طرح ہے ؛حالانکہ ہمیں تو انہیں دیکھ کر ہی گھن آتی ہے ۔ 
آپ یہ دیکھیں کہ خدا نے آنکھ سے ٹپکنے والے پانی کے قطرے کو کس قدر خوبصورتی کی علامت بنایا ۔ انسان نے اس پر شاعری کی ۔؎
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں 
لوگ ایک دوسرے کے آنسو پونچھ دیتے ہیں ۔ نا ک کوئی نہیں پونچھتا ‘ سوائے ماں کے ۔ کیا کبھی کسی نے ناک سے بہنے والے پانی پر شاعری کی؟ جو آنکھ کی نسبت گاڑھا ہوتاہے اور جس سے ہمیں گھن آتی ہے ‘جس وقت بندہ رو رہا ہوتا ہے ‘ تب آنکھوں کے ساتھ ناک بھی بہہ رہی ہوتی ہے‘ لیکن اسے ہم مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے آنکھ پہ توجہ رکھتے ہیں ۔ پیشاب بھی تو مائع کا قطرہ ہی ہے نا ‘ جو کہ وہی جسم خارج کر رہا ہے ‘ جس کی آنکھ سے بہنے والے آنسو کی قدر کی جاتی ہے‘ اسی طرح جسم سے خارج ہونے والے فاضل مادوں میں خدا نے بدبو پیدا کی‘ تاکہ انسان صفائی کا خیال رکھے ‘ اسی طرح پسینے پہ کسی نے شاعری نہیں کی؛ حالانکہ وہ بھی اسی جسم سے نکلتا ہے ۔ اس لیے کہ پسینے میں بدبوہوتی ہے ۔
پھر سونگھنے کی حس ہے ‘ جس سے ہمیں کسی شے کو چکھے بغیر ہی اس کی اچھائی یا برائی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے ‘پھربال ہیں ‘ جو سر پہ خوبصورتی پیدا کرتے ہیں ۔ یہی بڑے بڑے بال کانوں سے نکل رہے ہوں یاماتھے پر تو بد صورتی پیدا کرتے ہیں ۔
پھر آپ دیکھیں خدا کا حیرت انگیز آرٹ کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بال سفید ہونے لگتے ہیں ۔ بالوں کی سفیدی خوابوں کی تعبیر کے علم میں بزرگی اور عزت کی علامت ۔ فرض کریں کہ جب ہم پیدا ہوتے تو سارے بال سفید ہوتے ۔ بڑھاپے میں سیاہ ہونے لگتے تو کتنا عجیب لگتا ۔سفید بالوں سے سب سے پہلے بڑھاپا اور سنجیدگی ذہن میں آتی ہے ‘ اسی طرح سے آپ یہ دیکھیں کہ رات کو سیاہ بنایا۔ خدا کہتاہے کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ خدا کو ہم ہمیشہ قدامت میں دیکھتے ہیں ۔ کبھی اسے جدید نہیں سمجھتے ورنہ رات اور دن کا دارومدار زمین کی اس کے محور کے گرد گردش ہے‘ لیکن خدا ساتھ یہ بھی کہہ رہا ہے کہ نشانی صرف عقل والوں کے لیے ہے ‘جسے عقل نہیں ‘ اس کے لیے ساری نشانیاں بند ہیں ۔ 
ناصر صاحب سے میں نے آئی ٹی کی کچھ چیزیں سیکھنا تھیں۔ اس لیے بادل نخواستہ ان کی کتاب کھولنے کی زحمت کی ‘لیکن پھر میں ششدر رہ گیا ۔میں صفحہ 202پہ stuckہو گیا ہوں ۔ خیر‘جب یہ کتاب مارکیٹ میں آئے گی ‘تو میں کالم میں اطلاع دے دوں گا ۔ 
ناصر صاحب نے ایک اہم نکتہ بیان کیا ۔ انسان زمین کی کششِ ثقل سے باہر نکلتا ہے ‘تو خلاء میں بے وزن ہو کر تیرنے لگتاہے‘لیکن چاند اس سے زیادہ دورہے‘ وہ بے وزن نہیں ہوتا‘بلکہ زمین کی کشش کے زیر اثر اس کے گرد گھومتا رہتاہے اور زمین سورج کے گرد ۔ اس کششِ ثقل نے اجرامِ فلکی کو ایک دوسرے سے باندھ تو رکھا ہے‘ لیکن یہ ایک دوسرے کے اوپر نہیں جا گرتے ۔یہ بڑے عجیب حساب کتاب ہیں ۔ 
ناصر صاحب کہنے لگے کہ زمین پر رہنے والوں کو کچھ پتا نہیں ۔ چاند پہ اس وقت باقاعدہ ٹریفک موجود ہے (مراد یہ کہ انسان بڑی تعدادمیں وہاں زندگی گزار رہے ہیں ) مطلب یہ ہے کہ ناسا اور دوسرے خلائی تحقیقاتی اداروں نے عوام الناس کو بے وقوف بنا رکھا ہے ؛ اگر یہ بات نہیں‘ تو انٹرنیشنل سپیس سنٹر میں اتنے ممالک کس چیز میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں ۔ میری گزارش یہ تھی کہ دنیا کے ذہین ترین انسانوں کی اجتماعی دانش کو مستقل طور پر پاگل بنائے رکھنا ممکن نہیں ۔ 
آج جدید کیمروں ‘ دوربینوں اور انٹر نیٹ کے دور میں تو اب اس طرح کی کوئی چیز خفیہ رہ ہی نہیں سکتی؛حتیٰ کہ جن سیاستدانوں نے بیرونِ ملک جائیدادیں بنائیں ‘ ان کا کچا چٹھا بھی پنامہ لیکس کی صورت میں نکل آتا ہے ۔ اسی طرح سفارتخانوں اور سفارتی عملوں کی اپنی حکومتوں سے بات چیت وکی لیکس کی صورت میں نکل آتی ہے اور تو اور امریکہ جیسی عالمی طاقت کا ادارہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی عالمی رہنمائوں کی جو جاسوسی کر رہا تھا‘ اس کا بھانڈہ ایڈورڈ سنوڈن نے پھوڑ دیا ۔ اسے بیرونِ ملک پناہ بھی دی گئی اور امریکی ناراضی کو ٹکے کی اہمیت نہ دیتے ہوئے ڈنکے کی چوٹ پر دی گئی ۔ سنوڈن نے جو دستاویزات پیش کیں‘ وہ گارڈین اور واشنگٹن پوسٹ جیسے اخبارات میں چھپیں اوراس پر امریکی حکومت کو اپنا آفیشل ردّعمل دینا پڑا ۔ میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کرہ ٔ ارض اس وقت مکمل طور پر سیٹیلائٹس کے زیر نگرانی ہے ۔ اسی طرح دنیا کی بڑی یونیورسٹیز میں بڑی دوربینیں نصب ہیں ۔ یہ یونیورسٹیز حکومتوں کے زیر اثر نہیں ہیں ۔ ان میں بے پناہ تجسس ہے ‘زمین کے علاوہ کسی سیارے پر زندگی ڈھونڈنے کا ۔ وہ پھر سارا بھانڈا آفیشلی پھوڑ کیوں نہیں دیتیں۔
آج تو کسی بندے کا ڈیٹا محفوظ نہیں رہا۔ آپ ایک دفعہ گوگل میپ استعمال کر کے دیکھ لیں‘ پھر جہاں جہاں آپ جائیں گے ‘ اس کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے گاا ور آپ سے پوچھا جائے گا کہ آج آپ فلاں ریسٹورنٹ گئے تھے‘ کیسا تھا؛ وہ ؟ 
میری عقل اس بات کو تسلیم تو نہیں کرتی‘ لیکن ایک فیصد امکان ہمیشہ کھلا رکھا جاتاہے ‘ اپنے غلط ہونے کا۔ ہو سکتاہے کہ ناصر صاحب ہی درست ہوں ۔ہم دونوں‘ جس بڑے استاد کے معمولی شاگرد ہیں ‘ انہوں نے اختلاف کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں