"FBC" (space) message & send to 7575

سچائی کی تلاش

لوگ کہتے ہیں کہ ا س دنیا میں سچائی تک پہنچنا بہت مشکل ہے ۔ عوام تک جو چیز پہنچائی جاتی ہے ‘ وہ ایک دھوکہ زدہ میٹریل ہوتاہے ‘ مثلاً :یہ کہ نائن الیون کو امریکا میں درحقیقت کیا ہوا تھا۔ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ سچائی چھپائی نہیں جا سکتی ۔ ہر چیز کے ماہر ہوتے ہیں ‘ جنہیں دھوکہ دینا ممکن نہیں ہوتا‘ جس وقت eventsہو رہے ہوتے ہیں ‘ اس وقت انسان اتنی لمبی منصوبہ بندی نہیں کر سکتا کہ مستقل طور پر اس چیز کو چھپا سکے ‘ پھر ٹیکنالوجی ہے ‘ جس کی وجہ سے بہت سی چیزیں ریکارڈ پر آجاتی ہیں۔ وکی لیکس‘ پنامہ لیکس‘ ایڈورڈ سنوڈن کے انکشافات ‘ جنہوں نے عالمی سیاست کو ایک بار ہلا کے رکھ دیا تھا ۔بڑی طاقتیں تو ان چیزوں کو چھپانا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ ہر واقعہ اپنے پیچھے بہت سارے evidenceچھوڑ جاتا ہے ۔ 
سب ماہرین کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ آپ ایک کمپنی کی گاڑی لیں ۔ اس میں کسی دوسری گاڑی کے پرزے کسی نہ کسی طرح گھسیڑ دیں ۔ اس پر دوسری کمپنی کا لوگو لگا دیں۔ اب آپ کا کیا خیال ہے کہ جو گاڑیوں کا ماہر ہے ‘ اسے آپ دھوکہ دے سکتے ہیں؟ وہ تو ایک نظر میں پہچان لے گا۔
آپ کسی عام سے شاعر کا دیوان کمپوز کرائیں ۔ اس پر مرزاغالبؔ کاٹائٹل لگا دیں ۔بہت اچھی پرنٹنگ کرائیں ۔اب آپ کا کیاخیال ہے کہ جن لوگوں نے غالبؔ کو پڑھ رکھا ہے ‘ آپ انہیں دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ جو غالبؔ کو جانتاہے ‘ وہ تو یہ دیوان اٹھا کر آپ کے منہ پر دے مارے گا ۔شاعری پڑھنے والوں کو نہیں پتا کہ پروین شاکر کا شعر کون سا ہے اور علامہ اقبالؔ کا کون سا؟اسی طرح نائن الیون کی منصوبہ بندی کس نے کی تھی‘ اس کے بارے میں بہت سی تھیوریز ہو سکتی ہیں‘ لیکن اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ اس روز دو جہاز عمارتوں سے ٹکرائے تھے۔ آپ یقین کریں کہ دنیا میں آج ایسے لوگ بھی موجود ہیں ‘ جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی طیارہ کسی عمارت سے نہیں ٹکرایا۔ 
لوگ کہتے ہیں کہ عالمی طاقتیں دنیا کو بے وقوف بناتی ہیں ۔ چاند پہ کبھی کوئی نہیں اترا وغیرہ وغیرہ۔ امریکا کا خلائی تحقیق کا بجٹ باقی ساری بڑی قوتوں کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اگر امریکا آج یہ اعلان کرے کہ سورج میں فیوژن کا عمل نہیں ہو رہا ‘بلکہ لکڑیاں جل رہی ہیں تو کیا ساری دنیا کے سائنسدان اسے تسلیم کر لیں گے ؟ یا آغا وقار کی طرح کا کوئی نابغہ آکر پانی سے گاڑی چلانا شروع کر دے تو ؟ ''انجینئر ‘‘ صاحب کا کہنا یہ تھا کہ گاڑی کی بیٹری کرنٹ دے کر پانی سے ہائیڈروجن کوالگ کر رہی ہے ۔ اس ہائیڈروجن سے گاڑی چل رہی ہے ۔ گاڑی چلنے کی وجہ سے بیٹری چارج ہو رہی ہے اور یہ چارج شدہ بیٹری پانی سے ہائیڈروجن الگ کر رہی ہے ۔ اس پر ڈاکٹر عطاء الرحمن اور ڈاکٹر ثمر مند مبارک نے کہا کہ سب لوگ اتار لو جوتے اور شروع ہو جائو۔ ڈاکٹر ثمر مند مبارک نے بتایا کہ یہ پانی میں ایک کیمیکل ڈال کر ہائیڈروجن الگ کر رہا ہے اور اس کیمیکل کی لاگت کافی زیادہ ہے ۔اس کے بعد انجینئر صاحب اٹھے‘ اپنے اوزار بوری میں ڈالے‘ اور رفو چکر ہو گئے ۔ 
سچ ڈھونڈنا مشکل نہیں ۔ اس کے باوجود شاید ایک فیصد لوگ بھی اس تک پہنچ نہیں پاتے ۔ وجہ ؟ ہر شخص کے ذہن میں کچھ تعصبات ہیں ۔ جیسے ایک بچّے کو اس کے والدین کم عمری میں یہ سمجھا دیتے ہیں کہ فلاں فرقے والے برے ہیں یا فلاں سیاستدان برا ہے ‘ جو بات کم عمری میں ذہن میں بیٹھ جائے‘ اکثر وہ ساری زندگی انسان کے لاشعور پر اپنا قبضہ جمائے رکھتی ہے ۔ اکثر اوقات انبیا کرام کو ان کی قوم والوں نے یہی کہا کہ بھلا ہم اپنے آبائو اجداد کی پیروی نہ کریں اور آپ کی پیروی کریں ؟ خدا اس پہ تبصرہ کرتا ہے اور اگرچہ ان کے آبائو اجداد گمراہ ہی ہوں ...!
ہر فرقے والا اپنے فرقے کو ساری زندگی سچ سمجھتا رہتا ہے ۔ اسے دوسرے فرقے والے گمراہ نظر آتے ہیں ؛حالانکہ خدا تو یہ کہتا ہے کہ جس نے بھی اپنے دین میں ایک الگ گروہ بنا لیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تواس کا پیغمبر سے کوئی رشتہ ہی باتی نہ رہا‘ یعنی کہ کسی بھی فرقے میں شامل ہونا اور اس کا عَلَم بند کرنا سرے سے ہی غلط ہے ۔ آپ خود کو مسلمان کہیں جو کہ اللہ نے آپ کا نام رکھا ہے ۔ سارے فرقوں والے اپنے اپنے فرقے کو سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔اسی کوشش میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں ۔ سیکولر حضرات سرے سے مذہب کو ہی غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بظاہر جو لوگ مذہبی تھے ‘ انہوں نے انتہائی خوفناک قسم کے نمونے ان کے سامنے پیش کیے ۔ دو بڑے فرقے تھے ۔ ایک نے مزاروں کو بم سے اڑانا شروع کر دیا ؛حتیٰ کہ فوج نے اس کے پچیس تیس ہزار جنگجوئوں کو قتل کر کے فساد ختم کیا۔ دوسرے جن سے ایسی توقع نہیں تھی‘ انہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے مسلح افواج اور عدالتوں کے بارے میں ایسے ایسے ارشاد جاری کیے کہ جس سے ریاست دنگا فساد کی طرف بڑھ سکتی تھی۔ ان کا لیڈر غالباً آج بھی نظر بند ہے ‘ جو کہتاہے کہ جو ملک قرض کی رقم واپس مانگے ‘ اس پر غوری میزائل دے مارو۔ پچھلے مظاہرے کے دوران اچانک اگر مولانا سمیع الحق کا قتل نہ ہو جاتا تو اس کی چھترول کے امکانات کافی روشن تھے ۔ 
جب انسان تعصب کے زیر اثر ہو تو پھر عقل کا سارا زور اس بات کو سچ ثابت کرنے میں صرف ہو جاتا ہے ۔عقل دلائل تراشنے لگتی ہے ۔ ایسی ایسی دلیل انسان پیش کرتاہے ‘جسے کسی طرح بھی غلط ثابت نہیں کیا جا سکتا ۔ اس دوران انسان کی عقل اپنے آپ کو بھی دھوکہ دینے لگتی ہے ۔ وہ خود کو بھی یقین دلاتی ہے کہ وہ سچ سوچ رہی ہے ۔ اس کوشش میں سچائی کا قتل ِ عام ہو جاتا ہے ۔ 
یہ کیا ماجرا ہے کہ آپ کو خیالات کا ایک سیٹ دے دیا جاتاہے اور کہا جاتاہے کہ تم رائٹسٹ یا لیفٹسٹ ہو اور باقی زندگی اسی کو سچ ماننا ہے ۔ ہر گروہ یہی تو کرتا ہے ‘ خواہ وہ سیکولر ہوں یا طالبان ۔آپ ساری زندگی اسی کو سچ ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ کیا انسان کے اندر کوئی خواہش نہیں ہونی چاہیے‘ اصل سچ تک پہنچنے کی۔ مغرب والے میری نظر میں گمراہ ہیں ۔ انہوں نے ہم جنس پرستی کے قوانین بنائے۔ شادیوں کو مشکل کر دیا ۔ بیوی کے حقوق اتنے زیادہ کر دئیے کہ مردوں نے ان سے شادی کر نی چھوڑ دی ۔ بغیر شادی کے اکھٹا رہنے کو جائز کر دیا۔ یہ سب کچھ کر دیا‘ لیکن اس کے باوجود ریسرچ کرتے ہوئے وہ مکمل ایمانداری سے کام لیتے ہیں ۔ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ سے کسی بھی میٹریل کی عمر کا اندازہ لگانا ‘ جینز کامکمل سائنسی مطالعہ ‘ زمین کے مدار میں اڑتی ہوئی کیپلر اور اب جیمز ویب دوربین۔ ریسرچ کے دوران جھوٹ بولنے پر تو وہ ایک دوسرے کے پرخچے اڑا دیتے ہیں ۔ ہمارے پاس بجٹ نہیں ہے کہ ریسرچ کر سکیں ‘لیکن کیا ہم ایک نظر کھلے دماغ کے ساتھ ان کی تحقیق کا مطالعہ بھی نہیں کر سکتے ؟ اگر نہیں کر سکتے تو پھر ہم سچ تک پہنچنا چاہتے ہی نہیں ! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں