"FBC" (space) message & send to 7575

افغان جنگ کے تلخ حقائق

افغانستان کی جنگ میں عقل رکھنے والوں کے لیے بہت بڑے اسباق موجود ہیں ‘لیکن صرف عقل والوں کے لیے!
لوگ کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست ہوئی ہے ۔ طالبان جیت گئے ہیں ۔ امریکہ کو تو یقینا شکست ہوئی ہے ‘لیکن طالبان نے کون سی تاریخ ساز فتح حاصل کی ہے ؟ طالبان کا پلڑا یقینا بھاری ہے‘ لیکن طویل جنگ کے باوجود میز پر بیٹھ کر معاہدہ وہی کرتاہے ‘ جو حتمی عسکری فتح حاصل کرنے سے قاصر ہو ‘ورنہ قابو میں آئے ہوئے کمزور دشمن سے سمجھوتا کون کرتاہے ۔
دنیا کی ایک بہت بڑی حقیقت یہ ہے کہ جن چیزوں میں انسان کو کنفیوژن ہوتی ہے ‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ختم ہو تی چلی جاتی ہے ۔ ایک وقت تھا کہ جب امریکہ سے شدید نفرت کی وجہ سے طالبان ‘ ملّا عمر اور اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھا جاتا تھا ۔ آج جب ہم سترہ سالہ افغان جنگ کے نتائج پہ غور کرتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ اس دور میں ہم چیزوں کو کس قدر سادگی سے دیکھتے تھے ۔امریکہ کو تو یقیناشکست ہوئی ہے ۔ بھلا جو دولت مند شخص قیمتی ڈائپر باندھ کر لاکھوں ڈالر کے ٹینک میں بیٹھ کر رات کو گشت کر نے نکلے‘ اس نے کیا جنگ لڑنی ہے ۔امریکیوں کو اپنی جنگی تیاریوں پہ ایک گھمنڈ تھا۔ ان کا سالانہ دفاعی بجٹ 610ارب ڈالر کے قریب ہے۔ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے ‘ جس کے پاس 11 Aircraft Carriersموجود ہیں ۔چین سمیت دنیا کے کسی اور ملک کے پاس تین بھی نہیں ۔ امریکہ کے پاس جنگ لڑنے کے لیے اس قدر ہتھیار‘ مشینری اور گولہ بارود موجود ہے کہ جہاں تک ہماری سوچ بھی کام نہیں کر سکتی ۔ایسی ایسی ٹیکنالوجی ہے ‘ جو انسانی عقل کو مائوف کر کے رکھ دے۔ چین کو مستقبل کی دنیا میں امریکہ کا متبادل سمجھا جاتا ہے ۔ چین کے پاس اس وقت صرف 1 Aircraft carrierہے ۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ 610ارب ڈالر ہے ‘ چین کا صرف 228ارب ۔یہی military mightہے ‘ جس نے امریکہ کو دنیا فتح کرنے کے جنون میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ طاقت کا احساس ایک عام بندے کو نارمل نہیں رہنے دیتا‘ اگر وہ سب کے سامنے کسی کو دو تھپڑ رسید کر دے ۔ کجا یہ کہ اس قدر خوفناک ترین جنگی تیاریوں والی عالمی طاقت نارمل رہ سکے لیکن جنگ سپاہی نے لڑنی ہوتی ہے ۔ جنگ لڑنے کی صلاحیت اس وقت معلوم ہوتی ہے ‘ جب آپ کی فوج دشمن کی زمین پہ اترتی ہے ۔ پھر پتہ چلتاہے کہ آپ کا سپاہی کتنا دلیر ہے ۔ اس میں کتنا دم خم ہے ۔ دم خم امریکیوں میں یامغربی ممالک میں کتنا ہے ‘ یہ ہمیں معلوم ہے ۔ ایک بڑا دھماکہ ہو جائے تو نئے سال کی تقریبات منسوخ ہو جاتی ہیں ۔ ادھر اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل سے لے کر پتہ نہیں ‘کہاں کہاں کس کس طرح کے حملے ہوتے رہے ۔ ملک اسی طرح چلتا رہا ۔ 
انجام یہ ہے کہ امریکی سپاہی نے ہار مان لی ۔اب شکست خوردہ امریکہ معاہدے پر مجبور ہے ۔ طالبان چاہتے ہیں کہ مغربی افواج ملک سے نکل جائیں۔ امریکہ جانتا ہے کہ یک طرفہ طور پر اگر اس نے مغربی افواج واپس بلا لیں تو اس کے پاس کیا رہ جائے گا ۔ 
دوسری طرف طالبان کا حال دیکھیں ۔پونے دو لاکھ افراد قتل ہونے کے بعد امریکہ کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ افغانستان سے القاعدہ یا داعش مغربی ممالک پہ حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال نہیں کر سکیں گی ۔ یہ یقین دہانی آپ سترہ سال پہلے کرا دیتے تو پونے دو لاکھ افراد قتل ہونے سے بچ جاتے ۔ اسامہ بن لادن کو اس وقت ایک قیمتی نگینے کی طرح ملّا عمر نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا۔ اسامہ بن لادن بھی قتل ہوا۔ ملّا عمر بھی اس جنگ کے دوران بیمار ہو کر مر گئے ۔ پورے افغانستان میں قتلِ عام بھی ہوا۔ افغانستان سے القاعدہ کا تقریباً صفایا ہو گیا۔ اس کے زیادہ تر بڑے لیڈر قتل ہو گئے ۔ اس کے بعد اب بیٹھے ہیں امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے ۔ بہت اچھے !امریکہ کہتاہے کہ جنگ بندی کرو۔ طالبان سوچتے ہیں کہ جنگ بندی کر دی تو ہمارے ہاتھ کیا رہ جائے گا؟
افغانستان کا حال دیکھیں تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجی ہوئی ہے ۔ یہ ہے وہ کامیابی جو ملّا عمر نے افغان عوام کو تحفے میں دی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ القاعدہ دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں کے لیے افغانستا ن کو ایک بہت بڑے تربیتی کیمپ کے طور پر استعمال کر رہی تھی ۔کم سن لڑکوں کی ایک فوج تیار کی گئی ‘ جس نے دنیا بھر میں خود کش حملے کیے اور اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
سچ یہ ہے کہ جنرل مشرف نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر بالکل ٹھیک اقدام اٹھایا تھا۔ جنرل مشرف کی جگہ جنرل کیانی‘ جنرل راحیل شریف یا جنرل قمر باجوہ ہوتے تو پھر بھی یہی فیصلہ ہونا تھا۔ غلط ملّا عمر تھے‘ جنہوں نے سویت جنگ ختم ہونے کے بعد بھی القاعدہ کو ملک میں ایک محفوظ جنت فراہم کی۔قبائلی علاقے میں فوج بھجو اکر جنرل مشرف نے بالکل درست فیصلہ کیا تھا ۔اس حوالے سے جماعتِ اسلامی اور عمران خان وغیرہ کا موقف غلط ہی نہیں بچگانہ بھی ہے ۔ قائدِ اعظم نے جن حالات میں قبائلی علاقے میں فوج نہ بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا‘ وہ حالات اور تھے۔ سویت یونین اور امریکہ کے افغانستان پر حملے اور طویل جنگ کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوئے ‘ وہ بالکل مختلف تھے ۔قائدِ اعظم ٹک ٹک دیدم ‘ دم نہ کشیدم کے قائل نہیں تھے۔ مجھے یقین ہے کہ قائدِ اعظم زندہ ہوتے تو شمالی وزیرستان آپریشن 2010ء سے زیادہ لیٹ نہ ہوتا ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اگر اگست 2014ء کی بجائے شمالی وزیرستان آپریشن دو تین سال پہلے اچانک لانچ کیا جاتا تو دہشت گردوں کو کئی گنا زیادہ نقصان کا سامنا ہوتا۔ جماعتِ اسلامی‘ عمران خان اور دیگر جماعتوں کی مزاحمت کی وجہ سے یہ اتنا ملتوی ہوا اور قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
امریکہ اس جنگ میں بالکل ناکام ہوا ہے ۔ عالمی سطح پر اس کی بے عزتی ہوئی ہے۔ طالبان نے بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی۔ افغانستان تباہی و بربادی کا ایک نمونہ ہے ۔امریکہ اور طالبان دونوں قصوروار ہیں۔ 
ہاں ‘ البتہ پاکستان نے سویت جنگ اور پھر امریکی جنگ میں وہی کیا‘ جو اسے کرنا چاہئیے تھا ۔ اگر وہ دو نوں دفعہ امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو وہ کبھی جوہری ہتھیار نہ بنا سکتا ْ بلکہ ان دونوں جنگوں میں اگر پاکستان کے حواس باقی نہ رہتے تو بھارت ہی پاکستان کا صفایا کر دیتا ۔ موجودہ افغان جنگ میں بھی پاکستان کی شکست و ریخت کے کئی ماڈل ڈسکس ہوتے رہے‘ لیکن پاکستانی فوج کی سخت جانی کی وجہ سے ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا ۔ 
بہت سے لوگ جو کہ سویت یونین کی افغان جنگ میں پاکستان کی طرف سے امریکہ کا ساتھ دینے پہ لڈو بانٹا کرتے تھے‘ انہوں نے حالیہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کی سخت مخالفت کی ؛حالانکہ یہ بالکل درست فیصلہ تھا۔ 
مجموعی طور پر آپ دیکھیں تو قرآن یہ کہتاہے کہ اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعے دفع نہ کر دے تو زمین فساد سے بھر جائے۔ یہی افغانستان کی صورتِ حال پہ لاگو ہوتا ہے ۔ القاعدہ کا صفایا اور طالبان کی کمر امریکہ نہ توڑتا تو پاکستا ن سمیت بہت سے ملکوں پہ انہوں نے اپنی ''شریعت ‘‘ کا نفاذ ایک دن کرنا تھا۔ امریکی جنگ سے یہ فائدہ ہوا کہ مناسب وقت پہ فریقین کا ڈنک نکل گیا !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں