کبھی آپ اپنے اپنے تعصبات سے باہر نکل کر سیاستدانوں کا جائزہ لیں ‘ آپ حیران رہ جائیں گے۔ گو کہ یہ آسان نہیں کہ بندہ اپنے لیڈر کی عقیدت سے باہر نکل سکے ۔
شیخ رشید صاحب کا کہنا یہ ہے کہ بلاول میں مینو فیکچرنگ فالٹ ہے ۔ بلاول میں فالٹ ہے یا نہیں ‘ اس کا تو مجھے نہیں پتہ‘ لیکن جو بندہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شادی نہ کرے ‘وہ دوسروں کے فالٹس نکال رہا ہو‘ یہ اپنی جگہ ایک مقامِ حیرت ہے ۔آپ ان صاحب کی سیاست پر غور کریں ۔ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو یہ ان کی بغل میں گھسے ہوتے تھے ۔ جنرل مشرف آیا‘ انہوں نے کہا کہ میں راولپنڈی کی دو سیٹیں جیت کر نواز شریف کے قدموں میں رکھ دوں گا۔ مشرف کے قدموں میں رکھ دیں ۔ جنرل مشرف گیا ‘ یہ دور بیٹھ کر ترسی ہوئی نظروں سے نواز شریف کی طرف دیکھتے رہے کہ وہ انہیں پارٹی میں واپس قبول کر لیں ۔ نواز شریف نے قبول نہیں کیا اور عمران خان کا عروج آیا تو تحریکِ انصاف کی مقبولیت کے بل پر انہیں ایک نئی سیاسی زندگی نصیب ہوئی۔خان صاحب کا اقتدار ختم ہوا‘شیخ رشید ان کا نام لینا گوارا نہیں کرے گا۔
رہا بلاول تو اس کا جرم صرف اتنا ہے کہ اس کے والد صاحب بری طرح کرپٹ ہیں ۔ اس وقت بھی نیب اور ایف آئی اے سپریم کورٹ کے حکم پر جن جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کی تحقیقات کر رہی ہیں ‘ ان میں زرداری صاحب کا بچنا تقریباً ناممکن ہے‘ لیکن بلاول خود تو کرپٹ نہیں ہے ۔ بلاول کی شخصیت میں ماں کا رنگ نمایاں ہے ‘ قدرے نسوانیت ہے ۔ بے نظیر بھٹو جب زرد کپڑے پہن کر قومی اسمبلی تشریف لائیں ‘تو نواز شریف کو ہنسانے کے لیے شیخ صاحب نے ان کے بارے میں زہر آلود الفا ظ کہے ۔ کل نواز شریف شیخ رشید کے آقا تھے۔ آج شیخ صاحب اپنے اس آقا کی بے عزتی کر رہے ہیں ۔ کل وزیر اعظم عمران خان پہ برا وقت آگیا تو شیخ صاحب کیا کریں گے ؟ یہ عبرت کا مقام ہے کہ جس شخص کو نواز شریف نے اپنے حریفوں کی بے عزتی کے لیے پال پوس کر بڑا کیا تھا‘ اب وہ انہی کی تذلیل پہ متعین ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ شیخ رشید اور ان جیسی دوسری مخلوق جودشمنوں کے خلاف loose talkکرتی ہے ‘ ان کی اپنی تذلیل کرنا کتنا مشکل کام ہے ؟ کچھ بھی نہیں۔ تھوڑا سا وقت چاہیے اور بس ۔جو بندہ بھی گندی زبان استعمال کرتا ہے ‘ اس کی بے عزتی کرنا کوئی مشکل کام نہیں ۔
نوجوانوں کی اکثریت وزیر اعظم عمران خان کو پسند کرتی تھی۔عمران خان کی سیاسی دشمنی نوازشریف سے تھی ۔ شیخ صاحب نے نوازشریف کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو لوگوں نے شیخ صاحب کو دوبارہ قبول کر لیا۔ جو بندہ بڑھاپے کی عمر میں بلاول جیسے نوجوان کے لیے اس طرح کے الفاظ استعمال کر رہا ہو‘ آپ خود اندازہ لگائیں کہ اس میں کتنی عقل ہے اور کتنی شرم۔ خیر شیخ صاحب سے تو آپ کیا توقع رکھیں گے ۔ قصوروار تو وزیر اعظم صاحب ہیں ‘ جنہوں نے اپنے دشمنوں کی تذلیل کے لیے انہیں کھلا چھوڑ رکھا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کی خاموش تائید شیخ رشید کو حاصل ہے ۔ اصل میں شریف خاندان کے ایما پر لوگوں نے عمران خان پر اتنا گند اچھا لا کہ انہوں نے شیخ صاحب جیسوں کو بدلا لینے کے لیے دشمنوں پر چھوڑ دیا۔ورنہ تو ایک پرانے جلسے کی ویڈیو آج بھی انٹر نیٹ پر موجود ہے ‘ جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ شیخ رشید کو میں اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں ۔ اس وقت شیخ صاحب جنرل مشرف کے ساتھ فٹ تھے۔آج وہ کبھی بھول کر بھی جنرل مشرف کا نام نہیں لیتے۔ شیخ صاحب عمران خان کے ساتھ بھی فٹ ہو گئے ۔خدا نہ کرے‘ لیکن اگر کبھی پاکستان پہ اتنا برا وقت آیا کہ مولانا فضل الرحمن ‘وزیر اعظم بن گئے تو شیخ صاحب ان کے ساتھ بھی ٹانکا جوڑ لیں گے ۔
اب آپ پاکستانی قوم کے بارے میں ذرا سوچیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ کل یہ شخص نواز شریف کے جوتے اٹھایا کرتا تھا۔ آج ہم اسی کے منہ سے نواز شریف کے خلاف کلمات سن کر تالیاں بجا رہے ہیں ۔ یہ ہے‘ ہماری عقل؟
پاکستانی سیاست کی ایک عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے لیڈر جرأت مندی کے ساتھ چار دن جیل میں بھی نہیں گزار سکتے ۔ جنرل مشرف گرفتار ہوئے‘ دنیا بھر کی بیماریاں انہیں لاحق ہو گئیں۔ بندہ پوچھے کہ اگر آپ اتنے بیمار تھے تو پاکستان الیکشن لڑنے کیوں تشریف لائے ؟ جنرل مشرف نے پاکستان کے لیے اتنا کام کیا کہ زرداری اورنواز شریف کی دونوں حکومتیں اس کا عشرِ عشیر بھی نہ کر سکیں ۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ سے پاکستان کو بہت زیادہ امداد ملی‘ انہیں تو معیشت کا کچھ علم ہی نہیں ۔ امریکہ نے مشرف‘ زرداری اور نواز شریف ‘ تینوں کے ادوار میں ملا کر پاکستان کو لگ بھگ پچیس ارب ڈالر دیئے ہیں ‘ جن میں انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے ہماری سکیورٹی فورسز کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
اب نواز شریف گرفتار ہیں تودل اور گردے میں خرابیاں نکل رہی ہیں ۔ اس سے پہلے آپ وزیر اعظم تھے‘ آپ نے کبھی نہیں کہا کہ میری صحت اجازت نہیں دیتی اور میں سیاست سے سبکدوش ہو رہا ہوں ۔ سپریم کورٹ نے چلتا کیا ‘ پھر بھی پارٹی کی قیادت عملاً سنبھالے رکھی۔ آخر جیل جانا پڑااور انتہائی آرام دہ جیل تو بس ہوگئی ۔ کل یہ شخص چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے دن رات تگ و دو کر رہا تھا۔ آج گرفتار ہوا اور ایک انتہائی آرام دہ جیل میں وقت گزارنا پڑا تو بس ہو گئی ؟ ؟؟شہباز شریف بھی بیمار ہیں ۔ ابھی کل وہ روزانہ سونے سے پہلے دو پل تعمیر کیا کرتے تھے ؟؟؟
تکلیف برداشت کرنا پاکستانی لیڈروں نے سیکھا ہی نہیں ۔ ایک زمانہ تھا‘ جب عمران خان میں دم خم ہوا کرتا تھا۔2007ء میں جنرل مشرف نے انہیں جیل ڈالا تو تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کر دی ۔ آخر رہا کرنا پڑا ۔ بعد میں آپ کو یاد ہوگا کہ جب اگست 2014ء سے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا تو خان صاحب بار بار کنٹینر سے نکل کر بنی گالہ چلے جاتے تھے ‘ جس طرزِ زندگی کے عمران خان عادی ہو گئے ہیں‘ اس میں تکلیف برداشت کرنا ان کے لیے بھی ممکن نہیں رہا ۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب پرویز خٹک کی قیادت میں 31 اکتوبر 2016ء کو ریلی پختون خوا سے اسلام آباد کی طرف بڑھی اور جسے بھرپور آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑا‘ اس روز عمران خان صاحب اپنے گھر سے باہر ہی نہیں نکلے تھے ۔
وزیر اعظم عمران خان بھی اصل میں اس طرح سے برسر اقتدار نہیں آئے ‘ جس طرح اکتوبر2011ء کے تاریخی جلسے کے بعد عوامی مقبولیت کی عظیم الشان لہر کے بل پر وہ آرہے تھے ۔ وہ تو پنامہ لیکس کے بعد حالات نواز شریف کے لیے ناسازگار ہو گئے ۔ بدلے ہوئے حالات میں فوج نے یہ فیصلہ کیا کہ نواز شریف صاحب سے جان چھڑائی جائے ‘ جن کے دل میں فوج کے خلاف شدید بغض ہے اور جو بھارت کے سامنے بالکل ہی گھٹنے ٹیک چکے ۔
عمران خان کا کریڈٹ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف زور نہ لگاتی تو پنامہ لیکس دب گئی تھیں‘ نہ تحریکِ انصاف ایجی ٹیشن کرتی ‘ نہ سپریم کورٹ پنامہ کیس ٹیک اپ کرتی ‘ نہ جے آئی ٹی بنتی ۔ خیر یہ ایک لمبی کہانی ہے ۔ بہرحال ہمیں پاکستانی سیاست سے مغلظات کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ شیخ جیسے طنبو رے پاکستانی سیاست کو ہائی جیک نہیں کر سکتے ۔