"FBC" (space) message & send to 7575

درندہ

ایک ٹین ایجر مجھ سے ملنے آیا۔ وہ بے انتہا ذہین دکھائی دیتاہے ۔ اس نے مجھے کچھ عجیب باتیں بتائیں ۔ وہ کہتاہے کہ مجھے پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے ۔ میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے لگتا ہوں‘ imaginationمیں چلا جاتا ہوں ۔ایک دفعہ نجانے کیوں میں ایک فرضی situationسوچنے لگا۔ ایک کرکٹ سٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے ۔ ورلڈ کپ منعقد ہو رہا ہے ۔ پاکستان کی ٹیم انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ یکے بعد دیگرے بلے باز پولین کو لوٹتے چلے جاتے ہیں ‘ پھر مجھے بھیجا جاتا ہے ۔ اتنی خطرناک صورتِ حال میں ایک نئے ‘ کم عمر کھلاڑی کو دیکھ کر تماشائی اور زیادہ مایوس ہو جاتے ہیں ۔ مخالف ٹیم کا خطرناک ترین بائولر گیند کراتا ہے ۔ پہلی ہی بال پہ میں چھکا جڑ دیتا ہوں ۔اس کے بعد میں ہر گیند پر چھکا لگاتا ہوں ۔ جب بھی کوئی گیند مجھے کھیلنے کو ملتی ہے تو اس پر چھکا لگتاہے ۔ جب بھی میرے ساتھی کو گیند ملتی ہے ‘ وہ آئوٹ ہو جاتاہے ۔ جب 9آئوٹ ہو جاتے ہیں تو پھر میں آخری چھکا لگا کر میچ جتوا دیتا ہوں ۔ 
پھر اس نے معصومیت سے میری طرف دیکھا اور یہ کہا کہ جناب مجھے تو بلّا بھی ٹھیک طرح سے پکڑنا نہیں آتا ۔میں جاگتی آنکھوں سے ایسا خواب کیوں دیکھنے لگتا ہوں ؟ مزید بر أں یہ کہ یہ واحد imagination نہیں ہے ۔ اس طرح کی بہت سی situations میرا دماغ خودبخود ہی سوچنا شروع کر دیتاہے ۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک شادی ہو رہی ہے ۔ اچانک ایک انجان مشکوک آدمی تیزی سے سٹیج کی طرف بڑھتا ہے ۔ ابھی وہ سٹیج سے دُور ہوتاہے کہ میں پاس کھڑے محافظ کی بندوق چھین کر اس پہ فائر کر دیتا ہوں ۔ ایک دھماکہ ہوتا ہے اور یہ انجان شخص‘ جو کہ ایک خودکش بمبار ہوتاہے ‘ ہلاک ہو جاتاہے ‘ پھر میں ا س کے پاس جاتا ہوں ۔ اس کا سر جو کہ دھڑ سے الگ ہو چکا ہے ‘ اسے اپنے ایک ہاتھ میں اٹھاتا ہوں ۔ یہ منظر کیمروں میں ریکارڈ ہو جاتاہے ۔ بعد میں ٹی وی پر بتایا جاتاہے کہ ایک بہادر نوجوان نے ایک خودکش بمبار کے سینے میں گولی مار کے اسے ہلاک کر دیا ۔اس واقعے کے بعد دہشت گردوں نے قتل کا بدلہ لینے کی دھمکی دی ہے ‘ پھر مجھے ٹی وی سکرین پر دکھایا جاتاہے ۔ میں کہتا ہوں کہ دہشت گرد اگر بدلہ لے سکتے ہیں تو لے لیں اور مسکرا دیتا ہوں ۔ ملک ‘بلکہ دنیا بھر میں میری دلیری کا چرچا ہو جاتاہے ۔ میں جرأت کی علامت بن جاتا ہوں ۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میں نے کبھی بندوق کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ‘پھر میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں ؟ 
تیسری situation: پاکستان اور بھارت میں جنگ شروع ہو گئی ہے ۔میں ایک لڑاکا طیارہ اڑاتا ہوں ۔ بھارت کے اندر جاتا ہوں ۔ آٹھ منٹ میں ان کے گیارہ جہاز تباہ کر دیتا ہوں ۔ دو طیاروں کو اپنے پیچھے لگا کرپاکستان لے آتا ہوں اور انہیں بھی تباہ کر دیتا ہوں ۔ یہ ایک ورلڈ ریکارڈ ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لڑاکا طیارہ تو دور کی بات‘ میں آج تک کبھی مسافر طیارے میں بھی نہیں بیٹھا ‘ اڑانا تو بہت دُور کی بات !
چوتھیsituation : ایک جگہ لوگ کھڑے ہیں ۔ ایک طرف سے اچانک ایک بہت بڑا جنگلی کتا بھاگتا ہوا آتا ہے اور ایک چھوٹے سے بچّے پر جھپٹتا ہے ۔ عین اس وقت پر میں اس کتے کے سر میں گولی مار کے اسے ہلاک کر دیتا ہوں۔ 
پانچویں: میں ایک شیر کے گلے میں زنجیر باندھ کر گلیوں بازاروں میں نکل جاتا ہوں ۔ یہ شیر ایک کتے کی طرح میرے پائوں چاٹتا ہے ۔ 
آپ کو معلوم ہے کہ اس لڑکے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ یہ کوئی انوکھی صورتِ حال نہیں‘ بلکہ ہر شخص کے ساتھ ایسا ہوتاہے ۔ ایک دشمن ہے ‘ جو ہمارے دماغ کے اندر زندگی گزارتا ہے ۔ یہ نفس ہے ‘ جسے خدا نے اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے ۔ یہ بیٹھ کر ایسی situations سوچتاہے ‘ جس میں ہم غالب (Dominant)ہوتے ہیں ۔ ان خیالات سے یہ ہمیں لذت فراہم کرتاہے ۔ فرضی ناظرین میں یہ جنس ِ مخالف کو شامل کر کے جبلتوں کا تعامل بڑھا دیتاہے ۔ یہ انتہائی دردناک situationsتخلیق کرتاہے تو اس میں خودترحمی کی جبلت بھی شامل ہو جاتی ہے ۔ گو کہ بہت سے لوگوں میں teen ageکے بعد آہستہ آہستہ ایسی imagination بظاہر ختم ہو جاتی ہے‘ لیکن درحقیقت یہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتی‘ بلکہ بچگانہ imaginationآہستہ آہستہ میچور ہوتی چلی جاتی ہے ۔ 
ان میں سے ہر صورتِ حال میں آپ دیکھیں ۔ آپ کوبے انتہا Dominanceنظر آئے گی ۔ا س سے معلوم ہوتاہے کہ نفس کو غلبے کا کس قدر شوق ہے ۔ اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ ایک پڑھے لکھے‘سمجھدار بندے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ‘ جیسا کہ وہ تصور کر رہا ہے‘ لیکن پھر بھی وہ اس imaginationمیں خوش‘ بلکہ مدہوش ہے ۔ اس سے زیادہ کیا کسی کو پاگل بنایا جا سکتاہے ۔ یہ دشمن ‘جو ہمارے دماغ کے اندر رہتاہے اور ساری زندگی ہمیں دھوکہ دیتا رہتاہے ۔ ایک عام شخص سے لے کر بہت بڑے جنرل‘ سرجن ‘ سیاستدان اور صحافی تک ‘ یہ ہر شخص کو کنٹرول کرتاہے ۔ مزید برأں یہ کہ 99فیصد انسانوں کو پتا ہی نہیں کہ کیسے وہ اس کے اشاروں پر ساری زندگی ناچتے رہتے ہیں ۔ جب یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ phenomenonہے کیا تو اس سے بچنے کی بھلا وہ کیا تدبیر کرے گا ؟دنیا کے طاقتور ترین لوگ اندر سے کس قدر کمزور ہیں ‘ کسی کو اس کا اندازہ ہی نہیں ۔ 
یہ دشمن ایک معذور شخص کو مائیک ٹائیسن کو گرا دینے کا تصور دکھا سکتاہے ۔ ایک عام لکھنے والے کو اپنے اندر غالب اور شیکسپیئر کی شبیہ دکھاتا رہے گا ۔بالنگ کرانے والے کانگڑی سے لڑکے کے دماغ میں شعیب اختر کی شبیہ دکھاتا رہے گا اور وہ یہ سمجھے گا کہ دیکھنے والوں کو میں شعیب اختر لگ رہا ہوں ۔نفس انسان کو کس قدر مدہوش کر ڈالتاہے ‘ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب یہ موٹر سائیکل کا اگلا پہیہ اٹھا کر چلاتا ہے تو اپنے آپ کو خطروں کا کھلاڑی سمجھتا ہے ۔ اس دوران وہ اس طرح سے تین چار جبلتوں کے تعامل میں جکڑا جاتاہے کہ اسے لوگوں کی ملامت کاذرا برابر احساس بھی نہیں ہوتا۔ کیا اسے اتنی عقل نہیں ہے کہ پیچھے سے آنے والے اس پہ لعنت بھیج رہے ہوں گے ؟ پھر بھی اسے اس بات کی کوئی پروا کیوں نہیں ؟ اس لیے کہ وہ آزاد نہیں ہے ۔اس وقت وہ انسان کے اس ازلی دشمن کا غلام ہے اور جیسے یہ دشمن چاہے گا‘ اسے سرِ بازار نچوا دے گا ۔ 
جو اصل صوفی ہیں ‘ وہ خدا کی دی ہوئی عقل کی مدد سے نفس کی بھرپور مرمت کرتے رہتے ہیں ۔ ساری زندگی اس کی سازشوں پہ نظر رکھتے اور ان کی سرکوبی کرتے رہتے ہیں ۔وہ اسے بالکل پالتو بنا لیتے ہیں ‘ جب کہ جو نقلی صوفی ہوتے ہیں ‘ وہ بھی عام انسانوں کی طرح اس نفس کے آگے دم ہلاتے رہتے ہیں اور آخر کار ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں ۔کیوں کہ خدا کسی کو اپنی دوستی کی آڑ لے کر مخلوق کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔
ایسے واقعات بھی موجود ہیں کہ اصلی صوفی جب یہ دیکھتے ہیں کہ نفس نے ان کے گرد تقدیس کا بہت بڑا ہالہ کھینچ دیا ہے‘ تو وہ نفس کو سرِ بازار رسوا کر کے اسے واپس اس کی اوقات میں لے جاتے ہیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں