لوگ کہتے ہیں کہ مذہب اور سائنس کو الگ رکھو ۔ میں کہتا ہوں کہ مذہب اور سائنس تو الگ ہی ہیں ۔ قرآن فزکس یا کیمسٹری کی کتاب نہیں ؛ البتہ یہ خدا کا کلام ضرور ہے ‘ جو کہ اس نے کرّہ ٔ ارض پہ اپنی واحد عقلمند مخلوق سے کیا ہے ۔ اس میں؛ اگر وہ یہ کہہ دیتا ہے کہ زمین اور آسمان ملے ہوئے تھے اور ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا تو آپ خدا کو یہ statementدینے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ یا وہ کہتاہے کہ سورج اور چاند کو مسخر کر دیا‘ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ کیا آپ خدا سے یہ فرمائش کر سکتے ہیں کہ یا باری تعالیٰ یہ آیت تو فلکیات سے متعلق ہے اور فلکیات مذہب کے دائرہ ٔ کار میں نہیں آتا یا خدا فرماتاہے کہ پانی سے میں نے ہر زندہ شے کو پیدا کیا ۔ اب آپ کہیں کہ بیالوجی کا کیا تعلق خدا سے۔ وہ ہمیں نماز ‘ زکوٰۃ اور حج کا حکم دے سکتاہے ‘لیکن جہاں تک جدید علوم کا تعلق ہے ‘ ان پر ہم خدا سے کچھ نہیں سننا چاہتے ؟
دنیاخدا نے بنائی اور جس procedureسے بنائی‘ اسے ہم تھوڑا تھوڑ ا کر کے جتنا جانتے جا رہے ہو‘ اسے ہم نے سائنسز کا نام دیا ہے ۔ مذہب وہ طرزِ زندگی ہے ‘ جسے اختیار کرنے کا خدا نے ہم سے مطالبہ کیا ہے ۔ مذہب اور سائنس ‘ دونوں کا مآخذ‘ دونوں کا سرچشمہ خدا وند تعالیٰ کی ذات ہے ۔ خدا نے 1400سال پہلے جب اپنی کتاب نازل کی تو اس میں حیاتیات اور فلکیات سمیت کچھ سائنسز پر اچانک کہیں بہت بڑی statementنظر آتی ہے ۔ جن تک زمانہ ٔ آخر کے انسان کے سوا کوئی نہیں پہنچ سکتا تھا۔اب ؛اگر مغرب کی تحقیق کے نتیجے میں یہ سب باتیں ایک ایک کر کے درست ثابت ہونا شروع ہو جاتی ہیں ‘ مسلما ن پیچھے رہ جاتے ہیں تو یہ مسلمانوں کی سستی اور غفلت ہے ‘ خدا کی نہیں ۔ یہاں اپنی حالتِ زار پہ شرمسار ہونے کی ضرورت توموجود ہے ‘لیکن اتنا ہی اپنے خدا پہ فخر بھی بنتا ہے ‘ جس نے یہ statementsچودہ سو سال پہلے دیں ‘ جب کہ سائنسزاغلاط سے بھرپور تھیں۔
اپنے دوستوں کو یاد دلاتا چلوں کہ مسلمانوں نے عروج بھی دیکھ رکھا ہے ۔ مغرب کے حالات اس قدر خراب تھے کہ فلکیات سے متعلق سچ بولنے پر گیلیلیو کو انہوں نے تا حیات نظر بند کر دیا ‘ پھر مغرب میں احیائے علم کی تحریک اٹھیں ۔اسے عروج حاصل ہوا۔ اس نے خلا میں دوربینیں بھیجیں ۔اس تصویر کو حاصل کرنے لیے کرّ ۂ ارض کے مختلف حصوں میں موجود 8دوربینوں نے مل کر کام کیا ۔اس طرح مغرب نے کئی دریافتیں کیں ۔ عین اس وقت مسلمانوں نے دیکھا کہ اس بات سے متعلق خدا کی statementقرآن میں موجود ہے ۔ اب وہ بول اٹھتے ہیں کہ قرآن میں یہ انکشاف موجود ہے ۔ پھر یہ کہ قرآن کا متن مغرب کی نظر میں بھی مکمل طور پر مستند ہے ؛ اگر فرض کریں کہ ارسطو نے یہ لکھا ہوتا کہ زمین اور آسمان شروع میں ایک ہی تھے۔ پھر انہیں پھاڑ کر الگ کر دیا گیا اور میری یہ بات آنے والے زمانوں میں انسان کی سمجھ میں آئے گی تو کیا آپ اسے یہ ساری زندگی کندھے پر اٹھائے‘ نہ پھرتے؟ مغرب تو اپنے بڑے دماغوں کو غلط سٹیٹمنٹ جاری کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ نہیں بناتا ‘بلکہ وہ کہتا ہے کہ اس کی وجہ سے تحقیق تو شروع ہوئی ۔
بجا ارشاد کہ مسلمان غریب اور علمی طور پر پسماندہ ہیں۔ دریافتیں اور ایجادات مغرب کر رہا ہے ‘لیکن مسلمان کب یہ کہہ رہے ہیں کہ فلاں دریافت مغرب نے نہیں ‘ مسلمانوں نے کی ہے ۔ وہ تو یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ چیز قرآن میں موجود ہے ۔ ہاں یہ الگ بات کہ کچھ مہربان دھکے سے ہر چیز کو قرآن میں گھسانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں ۔
چلیں ‘ مسلمانوں کا کوئی والی وارث نہیں ۔ ہم غریب ہیں ‘ غیر ترقی یافتہ ہیں ۔ ہم نے تحقیق نہیں کی اور یہ سب راز تو مغرب افشا کر رہا ہے (حالانکہ دائمی عروج نہ مسلمانوں کو ملااور نہ ہی مغرب کو ملنے والا عروج ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ۔ جرمنی ‘ سویت یونین اور برطانیہ سمیت ان گنت سپرپاورز ڈوب چکی ہیں۔ اس کے باوجود )کیا ایک پڑھے لکھے مسلمان کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ بیٹھ کر اپنی قوم کا مذاق اڑاتا رہے ۔ آپ کبھی انگریزوں یا امریکیوں سے جا کر کہیں کہ گوکہ ہماری قوم جاہل ہے اور ہم تو ذہنی طور پر آپ کے ہم نوا ہیں ۔ پھر دیکھیں کہ وہ آپ کوکیسے اکیس توپوں کی سلامی پیش کرتے ہیں ۔ اپنی قوم کے خلاف وعدہ معاف گواہوں کی کون عزت کرتا ہے ۔
مغرب کے عروج نے کچھ لوگوں کی آنکھیں چکاچوند کر دی ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دوسری قوم کا سورج کبھی طلوع نہیں ہو سکتا؛ حالانکہ ایک وقت تھا‘ جب مسلمانوں نے عروج دیکھا ۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ‘تو پاکستان کا بننا اور سروائیو کرنا ہی ایک ایسا معجزہ ہے کہ جو انتہائی حیران کن ہے ۔ مسلمان اس حیثیت میں کہا ں تھے کہ الگ وطن کی جدوجہد کے بعد اسے حاصل کر سکیں ۔ ان کا حال تو ڈری سہمی بھیڑوں جیسا تھا ۔ علامہ اقبال ؔکا وژن اور محمد علی جناح ؒکی جدوجہد میسر نہ آتی ‘ پاکستان کبھی تخلیق نہ ہو سکتا۔ پھر بھارت جیسے بڑے دشمن کے پہلو میں زندہ رہنا ‘ جس کا دفاعی بجٹ آپ سے کئی گنا زیادہ ہے ‘ پھر سویت یونین اور امریکہ کی افغان جنگوں کو بھگتا نا اور ساتھ ساتھ بھارتی فوج کو بھی ٹھکانے پہ رکھنا ۔ ایٹم بم اور میزائل پروگرام بنانا ۔خود کش حملوں کے ہنگام یہ ریاست قائم رہی ؛حتیٰ کہ ان کا زور ٹوٹنے لگا۔ دفاتر کھلے ہیں ‘ ٹریفک چل رہی ہے ۔
پھر بھی آپ مایوسی کی باتیں کرتے ہیں ‘ جن کا نچوڑ یہ ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں تھے‘ ہم کچھ بھی نہیں ہیں ‘ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔ کیوں نہیں کر سکتے ؟ ہمیں دماغ نہیں لگا ہوا ؟ ہمیں خدا نے سوچنے کی صلاحیت نہیں دی ؟ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھ نہیں سکتے ؟ ایسا محسوس ہوتاہے کہ کچھ لوگ مسلمانوں پہ طنز کے لیے موقعے کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک ہول کی تصویر سامنے آتے ہی انہوںنے مسلمانوں پہ ہلّہ بول دیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس سارے قضیے میں ان کا اپنا کردار کیا ہے ؟ لگ تو ایسا ہی رہا ہے ‘ جیسے بلیک ہول کی تصویردراصل انہوں نے ہی بنا کر مغرب کو تحفے میں پیش کی ہے ۔ طنز کرنے تک بات آ ہی گئی ہے تو پھر یہ بتائیے کہ آپ کاذاتی کارنامہ کیا ہے ؟ آپ ان کی دوربینوں کو صبح اٹھ کر گیلی ٹاکی مارتے رہے ہیں ‘ جس کی وجہ سے وہ اس تاریخ ساز کامیابی تک پہنچ سکا ؟ یا اس پر کچھ روشنی ڈالیے کہ اگر آپ باقی مسلمانوں سے منفرد ہیں تو کون کون سی ایجادات کا سہرا آپ کے سر بندھا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ مسلمان آج جس حال میں بھی ہیں ‘ میں ان کا حصہ ہوں ۔ میں مسلمان پیدا ہوا ہوں ۔ اگر میری قوم مضحکہ خیز صورتِ حال کا شکار ہے تو میں بھی اس میں شامل ہوں اور اگر میںخود کوئی راستہ ڈھونڈنے کی بجائے‘ دوسروں کے ساتھ مل کر اپنی قوم کا مذاق اڑا رہا ہوں تو پھر تویہ بات بہت رسوائی کی ہے !