"FBC" (space) message & send to 7575

ذرا سی بات !

مسلم بر صغیر احساسِ کمتری کی سرزمین ہے۔ احساسِ کمتری میں آپ اپنے سے زیادہ خوبصورت اور اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے کے سامنے جھک جاتے ہیں ۔ مرعوبیت ایک مستقل طرزِ فکر بن جاتاہے ۔ آپ اپنے آپ کو مستقل طور پر کمتر تسلیم کر لیتے ہیں ۔ یہ احساسِ کمتری ہمارے جینز میں داخل ہو چکا ہے ۔ گوری چمڑی‘ ماڈرن لباس اور امریکن یا برطانوی لہجے میں جب ہم کسی کو فر فر انگریزی بولتے ہوئے سنتے ہیں ‘تو بس پھر کچھ نہیں بچتا ۔ اندر سے یہ انگریزی دان بے شک خود انتہائی چول ہی ہو ۔ 
مغرب نے مذہب کو عملاً کالعدم کر دیا ہے ۔ہم جنس پرستی تک کو تو قانونی تحفظ حاصل ہے ‘بلکہ جو ہم جنس پرستی پر اعتراض کرے‘ وہ انتہا پسند قرار پاتا ہے ۔یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے‘ ان لوگوں نے جو نیچر کو پوجتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ بے شک دو مرد بچّے پید ا نہیں کر سکتے ۔ بے شک دو عورتیں مل کر ایک بچّہ پید انہیں کر سکتیں ۔ اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ ان کی آپس میں شادی کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور ریاست ان کی حفاظت کرے گی ۔ 
یہاں تک مغرب والے ایک دن میں نہیں پہنچے۔ ان کے پاس موجود آسمانی کتب کو ردّو بدل سے گزار کر ان کا حلیہ بگاڑ دیا گیا۔ چرچ کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا موقعہ ملا تو یہ انتہائی جابر اور جاہل حکومت ثابت ہوئی ۔ یہ وہ دور تھا‘ جب مائیگرین کا مطلب ہوتا تھا کہ دماغ میں شیطانی روحیں داخل ہو چکی ہیں ‘ جن کا علاج سر میں کیل ٹھونک کر ہی کیا جا سکتا ہے ۔ 
پھر مذہبی ٹولے کواقتدار سے نکال باہر کیا گیا۔ انسانی آزادیوں کے قوانین منظور ہوئے ۔ پارلیمان اور آئین کو دیوتاؤں کا درجہ دے دیا گیا ۔انسانی آزادیوں کے وکلا کے لیے مذہب کونشانہ بنانا بہت آسان تھا۔ پیغمبرانِ عظامؑ کی تعلیمات ہی نہیں ‘بلکہ الہامی کتب میں بھی انتہائی تبدیلی کر دی گئی تھی ۔ چرچ والے اپنی سمجھ کے مطابق؛ ان کتابوں کو improveکرنے کی کوشش کرتے رہے تھے۔ اس کوشش کے نتیجے میں وہ بگڑ کے رہ گئی ہیں ۔ 
اسلامی ممالک میں بھی افغانستان کے طالبان اور ایران جیسی ملّائیت زدہ جابر حکومتیں قائم ہوئیں ۔ یہی نہیں‘ بلکہ افریقہ کے بوکو حرام‘ شام و عراق کی داعش اور القاعدہ جیسی خوں ریز مذہبی تنظیمیں سامنے آئیں ۔ پہلے تو کوئی اسلام کے لیے نکلنے والا ہی نہیں تھا۔ پھر جو نکلے ‘وہ تلواریں اٹھائے نکلے ۔ الحاج اسامہ بن لادن کی طرح انہوں نے مسلمانوں ہی کا قتلِ عام کیا۔ یہ وہ لوگ تھے‘ جن کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو کسی دشمن کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ نو عمر لڑکوں کو حوروں کا لالچ دے کر ان سے خود کش حملے کروائے گئے ۔
دوسری طرف عروج کے مہ و سال سے گزرنے کے بعد مسلمان جہالت کا شکار ہوئے۔ اس عرسے میں لوہا اور بارود اپنی شکل تبدیل کر رہے تھے۔ یہ سینکڑوں جنگی جہازو ں کو اپنی پشت پہ لاد کر لے جانے والے aircraft carreersکا دور تھا۔ ایٹم توڑ دیا گیا تھا۔ سب بڑی طاقتوں کے پاس جوہری ہتھیار موجود تھے ۔ مسلمانوں کا ڈنک نکال دیا گیا تھا ۔ نیوورلڈ آرڈر یہودیوں کا تشکیل کر دہ تھا ‘ جبکہ عیسائیوں کی خوش دلانہ تائید انہیں حاصل تھی ۔ خطے میں بھارت کا بت پرست ان کا حلیف تھا ۔ 
یہاں تک تو سب ٹھیک تھا ‘لیکن پھر پاکستان نے چوری چھپے ایٹمی ہتھیار بنا کر رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار بنائے‘ میزائل پروگرام بنایا ۔ صرف یہی نہیں ‘ بڑی جنگیں لڑیں ۔ آخری جنگ خودکش حملہ آوروں کے ساتھ تھی ‘ جن سے دنیا میں آج تک کوئی بھی نہیں جیت سکا ۔ امریکی و مغربی افواج افغانستان میںہا رگئیں ۔ ادھر پاکستان خود کش حملوں سے نکل آیا ۔ گو کہ اکّا دکا حملے آج بھی جاری ہیں اور یہ بہت تکلیف دہ ہیں ‘لیکن ریاست کی رٹ قائم ہے ۔ 
یہی حال ترکی والوں کا ہے ۔ چار پانچ سال پہلے جنرل احسن محمود سے کچھ سوالات پوچھنے کا موقع ہوا۔ کہنے لگے کہ ترکوں کے ایک طرف داعش کے خودکش حملہ آور ہیں تو دوسری طرف روسی ‘ جو جان بوجھ کر ترک فضائی حدود سے اپنے جنگی طیارے گزارتے ہیں ۔ داعش والوں نے ترک فوجیوں کے پائوں زنجیروں سے باندھ کر انہیں آگ لگا کر شہید کیا اوران کی وڈیوز بنائیں ۔ ترکی والوں کی شجاعت کا عالم یہ تھا کہ روس کا ایک جنگی جہاز اپنی حدود میں گرادیا۔ اس روس کا ‘ جس کا طیارہ گرانے کی ہمت نیٹو میں کبھی پیدا نہ ہو سکی ۔ گو کہ ترکی نے اس کے بعد روس سے معذرت کر لی‘ لیکن اس کے بعد دوبارہ کبھی کوئی روسی طیارہ ترک حدود سے گزرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ ادھر پاکستان کی افواج نے حالیہ جھڑپوں میں بھارت کو جس طرح مارا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلے بھارت کے اندر چھ اہداف پر گولے پھینکے ‘ جہاں قریب ہی اعلیٰ عسکری حکام موجود تھے۔ پھر بھارتی طیاروں کو اپنی سرحد کے اندر آنے کا موقعہ دیا اور دو کو گرا دیا ۔ اس سے زیادہ بے عزتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ دشمن کا طیارہ اپنی حدود کے اندر گرا دیا جائے اور اس کا پائلٹ گرفتار کر لیا جائے ۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستانی اور ترک افواج ‘ ان کی جنگی تیاریاں اور ہتھیار ‘ میزائل اور ایٹم بم‘ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کی کرّہ ٔ ارض پہ حکومت میں واحد رکاوٹ ہیں ۔ جب جنگ ہوتی ہے تو پھر قرآن کہتاہے اور تاریخ گواہ ہے کہ کتنی ہی چھوٹی فوجیں کتنی ہی بڑی فوجوں کو ہرا دیتی ہیں ‘ اللہ کے حکم سے ۔ مسلمانوں کی تو تاریخ ہی یہی ہے ۔ اور کوئی جانے یا نہ جانے ‘ پاکستانی‘ ترک اور اسرائیلی جرنیلوں کو اچھی طرح علم ہے کہ انہیں ایک دن ایک دوسرے کا سامنا کرنا ہے اور وہ اس کے لیے تیار ہیں ۔ 
موضوع کچھ اور تھا ۔ مغرب میں تومذہب بیزاری‘ بلکہ مذہب کی توہین کا فیشن دوسری وجوہ سے فروغ پاتا رہا۔ ہمارے احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگوں نے جب لباس اور زبان کی طرح اس معاملے میں بھی ان کی پیروی کرنی چاہی‘ تو وہ کچھ چیزیں فراموش کر گئے ۔ مغرب کے برعکس ہمارے پاس قرآن اور حدیث مکمل صحت کے ساتھ موجود ہیں‘ بلکہ قرآن میں تو زیر زبر کی بھی تبدیلی نہ ہو سکی ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پانی سے زندگی پیدا کرنے والی حیاتیات والی آیت سے لے کر فلکیات تک کی تمام آیات محفوظ ہیں ۔ ان میں سے کچھ آیات نازل ہی آخری زمانے کے لیے ہوئی ہیں ۔ 
جو لوگ کہتے ہیں کہ مذہب اور سائنس کو الگ رکھاجائے‘ ان سے میرا سوال یہ ہے: کیا کائنات تخلیق کرنے والا خدا کوئی اور ہے اور مذہب نازل کرنے والا کوئی اور ؟ کیا خد ایہ نہیں کہتا کہ وہ (میرے پسندیدہ لوگ ) زمین و آسمان کی تخلیق میں غور کرتے رہتے ہیں ۔ کیا وہ یہ نہیں کہتا کہ دن اور رات کے بدلنے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ زمین اور آسمان کی تخلیق میں غور کرنے کیلئے تو کاسمالوجی اورارتھ سائنسز پہ عبور چاہیے ۔ قصہ مختصر یہ کہ خدا کو تو کوئی ڈر نہیں‘ لیکن ہمارے کچھ دوست خوفزدہ ہیں‘ اپنی کم علمی کی وجہ سے ۔ کچھ کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اپنی زندگیوں میں مکمل آزادی چاہیے ۔ یہ آزادی تب تک مکمل نہیں ہوتی ‘ جب تک مذہب کا مکمل طور پر انکار نہ کر دیا جائے ۔ بس یہ ہے ساری داستان۔؎ 
ذرا سی بات تھی اندیشۂ عجم نے اسے 
بڑھا دیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں