"FBC" (space) message & send to 7575

خفیہ ویڈیوز…(2)

مشہور شخصیات کی خفیہ ویڈیوز سے فکر کے کتنے ہی دروازے کھلتے چلے جا رہے ہیں ۔ آج کسی واقعے کی ویڈیو بن جانے میں ہمارے لیے کوئی حیرت نہیں ۔ بچّے بچّے نے تو ہاتھ میں کیمرے والا موبائل پکڑا ہوا ہے ‘ لیکن جب انسان گہرائی میں سوچتا ہے کہ ایک انسان اپنی آنکھ سے جو کچھ دیکھتا ہے ‘ وہ غیر موجود لوگوں کو وہ سب کچھ دکھا دے اور بار بار دکھاسکے تو اس میں حیرت ہی حیرت ہے ۔ اصل میں خدا جب زمین میں زندہ مخلوقات کی بنیادی ضروریات کی چیزیں رکھ رہا تھا تو ساتھ ہی ساتھ وہ تیل ‘ گیس اور لوہے جیسی چیزیں بھی رکھ رہا تھا‘ جن پہ بیٹھ کر انسان نے ہوا میں اڑنا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ خدا نے زمین کے نیچے اور اس کے اوپر ایسے عناصر بھی رکھے ‘ جن میں کوئی بھی منظر ریکارڈ کیا جا سکتا تھا اور یہ صرف اور صرف انسان کو عبرت دلانے کے لیے تھا کہ وہ اس بات کو سمجھ سکے کہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے؛ اگر سلیکان اور کاپر وغیرہ زمین میں نہ رکھے جاتے ‘تو کیمرہ بنتا ہی نہ ۔
لیکن انسان‘ خدا کو بہت ہلکا لیتاہے‘ شاید وہ خدا کو ایک پرانا بزرگ سمجھتا ہے ‘ جو کہ جدید دور سے نابلد ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم جس شخص سے قرآن اور حدیث پڑھتے ہیں ‘ وہ دنیاوی تعلیم میں تقریباً ان پڑھ ہوتاہے ۔ اسے خود یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ خدا جدید ترین ہے‘ تو وہ بچّے کو کیسے یہ بات باور کرا سکتاہے‘ اسے جب پتا ہی نہیں کہ بگ بینگ ہے کیا تو وہ اس کی ففہیم و تشریح کیسے کر سکتاہے ۔ 
میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں جتنا مشاہدہ کیا ہے ‘ اس کے مطابق؛ خدا کی بنائی ہوئی چیز کارکردگی میں سب سے قیمتی ‘مگر لاگت میں سب سے زیادہ سستی ہوتی ہے ۔ گو کہ ہم براہِ راست خدا کو نہیں دیکھ سکتے‘ لیکن مخلوقات میں خالق کی ایک جھلک ضرور نظر آتی ہے ۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے جسم میں کتنی layersہیں ۔ ایک تہہ میں خوراک کی نالی ہے تو اس سے نچلی تہہ میںمتوازی طور پر سانس کی نالی۔ ایک تہہ میں پورے جسم میں nervesپھیلی ہوئی ہیں‘ تو دوسری متوازی تہہ میں خون کی نالیاں ۔ایک سب سے باریک خون کی نالی ‘ جس نے ایک ایک خلیے کو گلوکوز اور آکسیجن پہنچانی ہے ‘باریکی میں اس کی بناوٹ کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے ۔ دل کے طاقتور مسلز ‘ جو 80‘ 90سال تک دھڑکتے ہی رہتے ہیں اور سب سے بڑھ کر بچّہ دانی ‘ جس کے ذریعے مخلوقات ہمیشہ زندہ رہتی ہیں ۔ 
کیا آپ جانتے ہیں کہ زندہ چیزیں بنیادی طور پر کرنٹ پر چل رہی ہیں ۔ بجلی کا کرنٹ دماغ سے نکلتاہے اور پائوں کی چھوٹی انگلی تک جاتاہے ‘ اسے حرکت کا حکم دیتاہے ۔ اسی کرنٹ کے ذریعے پائوں درد کا احساس دماغ تک بھیجتاہے ۔ آپ نے آج تک زندگی میں جتنی بھی چیزیں کم سے کم کرنٹ پر چلتے ہوئے دیکھی ہوں ‘ دماغ ان میں سے سب سے زیادہ کم کرنٹ استعمال کرتاہے اور سب سے بہتر رزلٹ دیتاہے ۔ چمگادڑ کے ننھے منّے ریڈار سے لے کر آپ گرگٹ تک کا جائزہ لیتے آئیں ۔ شہد کی مکھیاں انسان کی طرح نہیں دیکھتیں‘ بلکہ وہ الٹراوائلٹ رنگوں میں دیکھتی ہیں ۔ گرگٹ کی دو آنکھیں بیک وقت دو مختلف مناظر کو بخوبی دیکھ سکتی ہیں ۔ انسان میں یہ ہوتاہے کہ ایک ہی منظر کو جو آنکھ زیادہ بہتر طور پر دیکھ رہی ہو‘ دماغ اسی آنکھ کے ویژن کو قبول کرتاہے ۔ گرگٹ کی آنکھیں 360اینگل پر دیکھ سکتی ہیں ۔ مراد یہ کہ چاروں طرف‘ اوپر نیچے ‘ سب کچھ۔ الّو کی آنکھ میں نائٹ ویژن ہوتاہے ۔ وہ آنکھیں گھما نہیں سکتا تو اس کی گردن 270ڈگری کے زاویے تک مڑ سکتی ہے ۔
ابھی تو یہ شکر ہے کہ خدا نے انسان کی آنکھ میں ریکارڈنگ نہیں رکھی‘ کم از کم ایسی ریکارڈنگ نہیں رکھی ‘ جسے ہم خود دوبارہ دیکھ سکیں یا ایک دوسرے کو دکھا سکیں ؛ اگر انسان کی آنکھ میں recordingوالا فیچر بھی ہوتا تو دنیا میں بہت تباہی آتی ۔ ابھی 99فیصد چیزیں تو ریکارڈ ہی نہیں ہو پاتیں ۔ ساراہنگامہ ایک فیصد نے اٹھا رکھا ہے ۔
انسان نے جب کیمرہ بنایا تو پھر اسے پتا چلا کہ سٹوڈیو میں تین یا چار کیمرے ہوں تو کوئی چیز بھی چھپی نہیں رہ سکتی ۔ کرکٹ سٹیڈیم میں کتنے کیمرے نصب ہوتے ہیں ۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ بلے باز کے پیچھے موجود wicketsمیں بھی کیمرہ نصب ہوتا ہے ‘ لیکن کیمرے کیمرے میں فر ق ہوتاہے اور کوئی بھی دو کیمرہ مین ایک جیسے نہیں ہوتے ‘ جس طرح سے ایک ماہر کیمرہ مین کسی منظر کو ریکارڈ کرتا ہے ‘ اس طرح سے ایک اناڑی کبھی کر ہی نہیں سکتا ۔ ماہر کیمرہ مین تو منظر میں جان ڈال دیتاہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کہاں ہیں وہ ماہر کیمرہ مین جو ہماری ریکارڈنگ کر رہے ہیں ؟ کسی چیز کا نظر نہ آنا تو اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ۔ کششِ ثقل اور آکسیجن بھی نظر نہیں آتیں ۔ 
بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ آپ ایک موبائل فون ‘ کیمرہ یا کوئی اور جدید ٹیکنالوجی والی چیز یا بہت قیمتی گاڑی کسی کم عقل کے حوالے کر دیں تو وہ اس کے اکثر فیچرز استعمال ہی نہیں کر پاتا۔ مجھے لگتاہے کہ ہماری آنکھیں بھی ریکارڈنگ کر رہی ہیں‘ لیکن ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ وہ ریکارڈنگ بعد میں کیسے دیکھی جاتی ہے ۔ حشر کے میدان میں یہ ریکارڈنگ چلنی شروع ہوگی تو پھر کسی کو مشہور شخصیات کی خفیہ ویڈیوز یاد نہیں رہیں گی اور وہاں یہ ریکارڈنگ نشر بھی اس طرح سے ہو گی کہ سب دیکھیں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ علیم وخبیر رب کس طرح سے دنیا کی نگرانی کر رہا ہے ‘جواب یہ ہے کہ جو ذات جلنے والی ہائیڈروجن اور جلانے والی آکسیجن کو ملا کے بجھانے والا پانی بنا سکتی ہے۔ خدا جانے اس نے دنیا کی نگرانی کا کیا سسٹم بنایا ہے ۔ ایک بنیادی اور سب سے خطرناک سسٹم تو یہی ہے کہ انسان کے اعضا بولنا شروع کر دیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کا انکار کر نے والے جب بار بار اعتراض کر رہے تھے کہ جب ہم مر جائیں گے اور ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں گی تو کیا پھر ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے ۔ اس کے جوا ب میں اللہ نے بہت معنی خیز انداز میں کہا : کیوں نہیں ؟ َہم تو انسان کی انگلیوں کے نشان بھی دوبارہ درست کردینے پر قدرت رکھتے ہیں ۔ بعد میں پتا چلا کہ ہر انسان کے فنگر پرنٹس دوسرے سے مختلف ہیں ۔ ہو سکتاہے کہ خدا کے پاس صر ف سلیکان نہ ہو‘ بلکہ اس سے آگے کا کوئی عنصر ہو۔ ہم تو دنیا کو ان 92عناصر کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں ‘ جنہیں آج تک ہم نے دیکھا ہے ۔
کیا معلوم کہ خدا کے پاس فقط 92عناصر نہ ہوں ۔ اس کے پاس 192یا 1092عناصر موجود ہوں ۔ ہم نے مر کھپ کے بڑی مشکل سے چند دوربینیں خلا تک پہنچا ئی ہیں ۔ زمین کے وسائل کم ہیں ‘ جھگڑے زیادہ ہیں ۔ اوپر جا کر دیکھیں تو ان گنت ستاروں میں لا محدود وسائل اور توانائی موجود ہے ۔ کرسی لکڑی کی بھی بن سکتی ہے ‘ لوہے کی بھی ‘ ایلومینیم کی بھی ۔خدا کے پاس ہو سکتاہے کہ صرف کاپر اور سلیکان نہ ہوں‘ بلکہ کوئی اور عنصر ہو‘ جسے ہم نہیں جانتے؟ کوئی کھربوں میل موٹا شیشہ ‘ جس سے زمین کی ایک ایک مکھی نظر آ رہی ہو؟۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں