زندگی کے بارے میں ‘ میری دو تین آبزرویشنز ہیں ۔انسان دنیا میں سب سے زیادہ محبت اپنی اولاد سے کرتا ہے ۔ اسے ہر تکلیف سے بچانے کی کوشش کرتا ہے ‘ خصوصاً امیر ماں باپ‘ لیکن تکلیف سے بچائے رکھنے کی ایک قیمت (Price)ہوتی ہے ‘جو آپ کو ادا کرنا ہوگی ۔ وہ قیمت یہ ہے کہ تکلیف کے بغیر بچّہ کچھ بھی نہیں سیکھ سکتا۔ آپ ساری زندگی اپنی اولاد کو گود میں اٹھا کر ہر سختی سے بچا نہیں سکتے ‘ خواہ آپ جس بھی عہدے پر فائز ہوں ۔ آج کل یہ کہا جاتاہے کہ مارنا تو دور کی بات‘ آپ نے اولاد کو زور سے ڈانٹنا بھی نہیں کہ اس کے ذہن پر ‘ اس کی نفسیات پر برے اثرات رونما ہوں گے ۔ ٹی وی ‘ بالخصوص مارننگ شوز میں اس کی تلقین کی جاتی ہے ۔ سوشل میڈیا کے فروغ کے بعد آج کا دور حد سے زیادہ لاڈ پیار اور حد سے زیادہ celebrationکا دور ہے ‘ جب کہ ہم سے پہلے والی جو نسل گزری ہے ‘ اس میں اولاد کو ڈانٹنے سے لے کر مار کٹائی تک عام تھی ۔ مغرب میں تو اولاد اپنے آپ کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتی ‘ پولیس کو بلالیتی ہے ۔
میں یہ کہتا ہوں کہ آپ اپنا سارا زور لگا لیں‘ اولاد کو جو صدمے زندگی میں پیش آنا ہیں ‘ انہیں کوئی بھی روک نہیں سکتا ۔جب آپ اولاد کو حد سے زیادہ محبت اور آرام دیتے ہیں تو بچّہ آپ کے ساتھ بہت زیادہ منسلک (Attached)ہو جاتاہے ۔وہ دوسرے بچّوں کے ساتھ گھل مل نہیں پاتا۔ پھر وہ دن آتاہے ‘ جب آپ نے اسے سکول میں داخل کرانا ہے ۔ سکول میں پہلا دن جب اس بچّے کو ماں باپ سے جدا ہونا پڑتا ہے ‘ اس کی زندگی کا ایک مشکل ترین وقت ہوتاہے ۔ کم بچّے ایسے ہوتے ہیں ‘ جن کا مزاج ایسا ہوتاہے کہ وہ اس نئی صورتِ حال سے آسانی اور خوشی کے ساتھ گزرجاتے ہیں ۔اکثر بچوں کے لیے سکول کا پہلا دن ایک بہت بڑا traumaہوتا ہے ۔
دوسرا یہ کہ حالات جب کروٹ لیتے ہیں تو وہ آپ کو اس قابل نہیں رہنے دیتے کہ آپ اپنا دستِ شفقت اپنی اولاد کے سر پہ پھیلائیں رکھیں ۔معمر قذافی اور صدام حسین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ وہ عشروں تک اپنے اپنے ملک میں کوس لمن الملک بجاتے رہے ۔ حالات بدلے تو ان کا کیا انجام ہوا اور ان کی اولادوں کا کیا انجام ہوا ‘ جنہیں ان کی پیدائش کے وقت سے دنیا کی ہر آسائش مہیا کردی گئی تھی ۔
دماغ میں ایک صلاحیت اللہ نے رکھی ہے ‘ جو کہ مخلوقات پہ اس کے رحم کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ یہ صلاحیت یہ ہے کہ جیسے ہی تکلیف آتی ہے ‘ دماغ اس کے ساتھ ایڈجسٹ ہونا شروع کر دیتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جس خونی رشتے دار کی موت پر انسان کے آنسو رک نہیں رہے ہوتے‘ وہ انسان چند ماہ کے بعد ہنسی مذاق کے قابل بھی ہو جاتاہے ۔ اگر دماغ میں ایڈجسٹ کرنے کی یہ صلاحیت نہ ہوتی تو بچہ کبھی چند گھنٹوں کے لیے ماں باپ سے جدا ہو کر سکول میںپہلا دن گزارنے کے ٹراما سے باہر نہ نکل سکتا۔ ہر غم ساری زندگی کا غم ہوتا ۔
learningتکلیف کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اس تکلیف سے بچّے کو بہرحال گزرنا ہوتا ہے ۔ آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں ‘ آپ اسے تکلیف سے بچا نہیںسکتے۔ انسان کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ آپ جب بچّے کو سکول میں داخل کراتے ہیں تو آپ کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ اسے کس طرح کے کلاس فیلوز سے واسطہ پڑے گا۔ یہ کلاس فیلوز اس کی زندگی پر کبھی نہ ختم ہونے والا اثر ڈالتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی اس کا گہرا دوست بن جاتاہے ۔ کوئی اسے چھیڑتا ہے ‘ تنگ کرتا ہے ۔ اس کے گہرے رنگ ‘ مڑے ہوئے کانوں یاباہر نکلے ہوئے دانتوں پہ طنز کرتا ہے ۔ انسان جتنی مرضی دولت کمالے اور جتنا مرضی زور لگا لے ‘ وہ ان سب لوگوں کا انتخاب خود نہیں کر سکتا‘ جن سے اس کے بچّے کا زندگی میں واسطہ پڑنا ہے ۔ ان میں اساتذہ بھی شامل ہیں ‘ جو بچّے کی پوری زندگی پہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان ساتھی بچوں میں سے کوئی بہت تیز اور چالاک ہوتے ہیں ‘ جو ایک سیدھے سادے بچّے کو چھیڑتے رہتے ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب تک وہ انہیں جواب دینے اور چپ کرانے کے قابل نہیں ہوگا ‘ تب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اور وہ اس قابل تب ہی ہوگا‘ جب اس کا دماغ ان کی باتوں میں سے learningکرے گا اور جواب دینے کے قابل ہو جائے گا ۔
انسان دنیا میں جتنی مرضی دولت کما لے ‘ وہ اپنی اولاد کو وہ سب کچھ نہیں کھلا سکتا‘ جو اس کے نصیب میں خدا نے لکھا ہوا نہیں ۔ اگر نہیں لکھا ہوا تو آپ دنیا جہان کے میٹھے پھل لا کر اس کے سامنے ڈھیر کر دیں۔ وہ آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھے گا ۔ آپ اس کی منتیں کر کے دیکھ لیں ‘ وہ منہ نہیں کھولے گا۔ دوسری طرف آپ ایک غریب بچّے کو دیکھیں گے‘ جو ماں باپ کے ہاتھ سے روٹی چھین کر کھا رہا ہوگا ۔یہ سب چیزیں وہ ہیں ‘ جو کہ اوپر decideہوتی ہیں ۔ زمین پر تو اوپر decideہونے والے یہ فیصلے صرف نافذ ہو رہے ہوتے ہیں ۔
آپ نے اپنے بیٹے کو انتہائی لاڈ پیار سے پال پوس کر جوان کیا ہے ۔ اب اسے ایک کلاس فیلو سے محبت ہو جاتی ہے ۔ وہ کلاس فیلو آپ کے بیٹے کو مسترد کر دیتی اور کسی اور سے شادی کر لیتی ہے ۔ آپ اس سارے قضیے میں کیا کر سکتے ہیں ‘ گو کہ آپ کے پاس بہت سی دولت بھی ہو ۔
یہی صورتِ حال بہن بھائیوں کی ہے ۔ آپ کے بیٹے اور بیٹی کی آپس میں نہیں بنتی ‘ اس کے باوجود کہ وہ دونوں بہن بھائی ہیں ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو زچ کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ یہ صورتِ حال آپ کو دکھ دیتی ہے‘ لیکن اس کا کوئی حل نہیں ہے ۔ اگرآپ بہن بھائیوں کو آپ ایک دوسرے کے ساتھ جنگ و جدل سے باز نہیں رکھ سکتے تو بعد میں ان کی زندگی میں آنے والے ان کے شوہروں اور بیویوں کو کیسے اپنی مرضی سے چلا سکتے ہیں ؟ بڑے بڑے لوگ اپنی بیٹی اور اپنے بیٹے کی ایک جگہ شادی کر کے پچھتا رہے ہوتے ہیں‘ لیکن کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
آپ دنیا جہان کی دولت خرچ کر لیں آپ اپنے بیٹے اور بیٹی کی ذہنی استعداد میں اضافہ نہیں کر سکتے ۔ ایک انتہائی غریب بچّہ جہاں تیزی سے چیزیں سیکھ رہا ہوگا‘وہاں آپ کا بچّہ گھامڑ بن کے بیٹھا ہوگا۔ آپ اس صورتِ حال میں کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔اس لیے اس بارے میں آپ کو سوچنا ابھی سے سوچنا ہو گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو زندگی بھر جو حالات پیش آتے ہیں ‘ وہ اتفاق نہیں ہوتے ‘بلکہ خالق کی طرف سے ڈیزائن کر دہ ہوتے ہیں۔ تخلیق کرنے والی ذات یہ فرماتی ہے کہ زمین پر ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے خلاف ہل نہیں سکتا ؛کجا یہ کہ بڑے بڑے واقعات اپنے آپ رونما ہو رہے ہوں ۔اس ذات نے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ دولت مند ماں باپ کے بعض بچّے بے وقوف اور غریب لوگوں کے کئی بچّے ذہنی طور پر انتہائی sharpہوتے ہیں ۔ اگر آپ اس چیز کو سمجھیں گے تو ہی آپ اس پر صبر کر سکیں گے‘ ورنہ آپ زندگی بھر روتے ہی رہیں گے !