میں آپ کو دو بھائیوں کی کہانی سناتا ہوں۔ اس کہانی میں آپ کو اپنا آپ نظر آئے گا ۔ بڑے بھائی کا نام الف خان اور چھوٹا ب خان ۔ انہوں نے بچپن ایک ساتھ شرارتیں کرتے ہوئے گزارا۔ یہ غریب ماں باپ کی اولاد تھے ۔جب یہ بڑے ہوئے ‘ شادیاں ہوئیں تو یہ الگ ہو گئے ۔الف خان کے حالات اکثر خراب رہتے تھے ۔ کبھی کام مل گیاتو پیٹ بھر کے کھا لیا‘ ورنہ فاقہ مستی ۔ بے چارہ ہاتھ پائوں مارنے کی اپنی سی کوشش میں لگا رہتا ۔ زندگی ایک عجیب کشمکش میں گزر رہی تھی ۔ ہمسایوں کی طرف سے بھی اکثر حالات خراب رہتے تھے‘ جو اسے غریب و بے نوا دیکھ کر اکثر اس پہ چڑھ دوڑنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے ۔ بالخصوص مشرقی ہمسایہ اکثر اس کے گھر کی طرف فائر نگ کر دیا کرتا ۔
الف خان بے چارہ اپنے خراب حالات ٹھیک کرنے اور کوئی ایسا کام ڈھونڈنے کی کوشش میں لگا رہتا ‘ جس سے اسے خاطر خواہ آمدن ہو سکے ۔ کبھی اپنی تھوڑی سی آبائی زمین کسی کو کرایے پر دے دی اور کبھی کچھ اور۔ خدا کا کرنا کچھ ایسا تھا کہ اس کی ہر کوشش ناکام ہی رہتی ۔
یہی وہ دن تھے ‘ جب ب خان کے محلے سے کچھ لوگ الف خان کے پاس آئے ۔ انہوں نے اسے بتایا کہ ایک بدمعاش نے تمہارے چھوٹے بھائی ب خان کے گھر پہ قبضہ کر لیا ہے اور وہ اکثر اسے زد و کوب بھی کرتا ہے ۔ گزشتہ روز ا س نے مار مار کے ب خان کے بیٹے کا سر پھاڑ دیا ۔
یہ سننا تھا کہ دکھ کی شدت سے الف خان رونا شروع ہوگیا۔ جیسے ہی اس نے رونا شروع کیا‘ سب لوگوں نے اسے سمجھانا شروع کر دیا کہ تمہارے تو اپنے حالا ت خراب ہیں ۔ تم کیسے ب خان کے دکھ پر رو سکتے ہو۔ تمہیں رونے کا ہرگز کوئی حق نہیں ۔
الف خان نے انہیں لاکھ سمجھایا کہ بھلے میں غریب ہوں ‘ کر کچھ نہیں سکتا‘ لیکن کیا میں اپنے چھوٹے بھائی پر ہونے والے ظلم پر رو بھی نہیں سکتا؟وہ میرا چھوٹا بھائی ہے ۔ زندگی کے تیس سال ہم نے ایک ساتھ گزارے ہیں ۔ جیسے جیسے وہ رو رہا تھا‘ موقع پر موجود پتھر دل لوگوں کے اس اصرار میں شدت آتی جا رہی تھی کہ غربت اور حالات کے مارے الف خان کو اپنے چھوٹے بھائی کا غم منانے کی ہرگزاجازت نہیں دی جا سکتی ۔ہاں ‘ البتہ اگر وہ امیر ہوتا ‘ اس کے پاس پیسے ہوتے تو پھر وہ اس کا غم منا سکتا تھا۔
وہ چپ چاپ روتا رہا‘ پھر اپنے خراب حالات کے باوجود وہ سوچنے لگا کہ میں چھوٹے بھائی کی کچھ مدد کروں ۔ لوگوںنے جب اسے مال اسباب باندھتے دیکھا تو زور زور سے ہنسنے لگے ۔ انہوں نے کہا کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو گے ؟ تم ؟ جس غریب شخص کا مشرقی ہمسایہ اتنا طاقتور اور زور آور ہو اور جو خود غربت کا مارا ہوا ہو‘ اسے کیا حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کی مدد کا سوچ بھی سکے ۔
پاکستان الف خان ہے ۔کشمیر اور فلسطین والے ب خان ہیں ۔ اور آپ بے رحم لوگوں کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔ جس طرح لوگ اکھٹے ہو کر الف خان کو سمجھا رہے تھے کہ غریب کو اپنے بھائی کا دکھ منانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی طرح ہمارے محترم تجزیہ کاروں کا فرمان یہ ہے کہ دنیا میں ''مسلم امہ ‘‘ نام کی کوئی چیز سرے سے پائی ہی نہیں جاتی ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ آپس میں لڑائی کی ۔ اس لیے ہمیں ''مسلم امہ ‘‘ کی اصطلاح ہی سے باز آجانا چاہیے ۔ میری اور آپ کی کسی درخواست کا ان پر کیا اثر ہو گا ‘ جبکہ انسانی تاریخ کی سب سے مقدس ہستی ؐ کا فرمان یہ ہے کہ مسلمان ایک جسم ِواحد کی طرح ہیں ۔ اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوگی ‘تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرے گا ۔اب آپ یہ بتائیں کہ جو لوگ سرکارِ دو عالمؐ کے اس قدر واضح اعلان کو نظر انداز کردیں ‘ میرے اور آپ کے شرم دلانے سے ان کی صحت پر کیا اثر پڑنا ہے ؟
میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ ایک غریب شخص پاکستان میں بیٹھا ہوا ہے ۔ وہ سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھتا ہے کہ برما میں مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے ۔ یہ دیکھ کر اسے رنج پہنچتا ہے ۔ وہ ان مسلمانوں پر ظلم و ستم کی تصاویر شیئر کرتا ہے‘ جن کو کبھی اس نے دیکھا تک نہیں اور ساری زندگی دیکھے گا بھی نہیں ۔ دانشوروں کا کہنایہ ہے کہ اسے ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ دنیا کے کسی اور خطے میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر غم کا اظہار کر سکے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ بے رحمی اور بے شرمی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کا خون بہایا؛لہٰذا مسلم امہ کی اصطلاح استعمال نہیں کرنی چاہیے ۔ میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ پچھلی پانچ چھ صدیوں میں دنیامیں ہونے والی بڑی جنگوں کا جائزہ لیں ۔ سولہویں صدی میں سپین کی طرف سے Aztec Empireکو فتح کرنے کے دوران اڑھائی کروڑ افراد قتل ہوئے ۔ سپین ہی کی طرف سے Inca Empireکا خاتمہ کرتے ہوئے 84لاکھ افراد قتل کر دیے گئے ‘ اسی صدی میں جاپان کی طرف سے کوریا پر چڑھائی میں دس لاکھ افراد قتل ہوئے ۔ 17 ویں صدی میں چین میں انتقالِ اقتدار کی جنگ میں اڑھائی کروڑ افراد قتل ہوئے ‘اسی صدی میں فرانس اور سپین کی جنگ میں دو لاکھ افراد قتل ہوئے ۔ انیسویں صدی میں نپولین نے جو جنگیں لڑیں ‘ ان میں 35لاکھ افراد قتل ہوئے ‘ اسی صدی میں سپین اور امریکہ کے درمیان جنگ میں 6لاکھ افراد قتل ہوئے ۔ انیسویں صدی کے وسط میں چین میں Taiping Civil Warمیں دو کروڑ افراد قتل ہوئے ۔دنیا کی دو عظیم جنگوں میں دس کروڑ افراد قتل ہوئے ‘ جن میں مسلمانوں کا کردار نہ ہونے کے برابر تھا۔ انقلاب روس میں پچاس لاکھ افراد قتل ہوئے۔ چینی سول وار میں 80لاکھ افراد کا قتل‘ 1937ء میں چین اوراتحادیوں کی جاپان سے جنگ میں دو کروڑ افراد کا قتل ‘ 1950ء میں کوریا کی جنگ میں پندرہ لاکھ افراد کا قتل ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان اس دوران کیا کر رہے تھے ؟ جواب ‘ مغل بادشاہوں سمیت ‘ مسلمانوں میں بھی اقتدار کی جنگیں اسی طرح رونما ہوتی رہیں ‘ جس طرح کہ باقی دنیا میں ہو رہی تھیں ۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہاں یہ کہنے والا کوئی دانشور موجود نہیں تھا کہ عیسائیوں نے عیسائیوں کا خون بہایا ۔جرمنی نے کیا حال کیا یورپ کا اور اگر دو عالمی جنگوں میں ایک دوسرے کے گلے کاٹنے والے یہودی اور عیسائی مثالی تعلقات تک پہنچ سکتے ہیں تومسلمان کیوں نہیں ؟
سچ یہ ہے کہ ایک شخص کی غربت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی لاش پہ رو بھی نہیں سکتا۔ مسلم امہ existکرتی ہے ۔ ایک طویل عرصے تک existکرتی رہی ہے ۔اور ہم کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہیں گے‘ جس سے ناصرف ہم اپنی غربت دور کر سکیں ‘بلکہ مسلمانوں بھائیوں کا قتل ِ عام کرنے والوں کا ہاتھ بھی روک سکیں۔ یہ ہمارا حق ہے اور کوئی بقراط ہمیں یہ سوچنے سے روک نہیں سکتا ۔ متحدہ عرب امارات والے اگر کشمیری مسلمانوں کے قاتل کو ایوارڈ دیتے ہیں تو یہ ان کا طرزِ عمل ہے ‘ ان کی بے شرمی ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں بھی بے شرم ہو جانا چاہیے ۔