خدا یہ کہتاہے کہ میں رحمن و رحیم ہوں ۔لوگ ایک مرتبہ تکالیف سے بھرپور اپنی زندگی کو دیکھتے ہیں اور پھر سوال کرتے ہیں کہ اگر خدا رحمن و رحیم ہے تو پھر یہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ۔ اس سوال پر میں نے غور کیا اور اس کا وہ جواب میں دے رہا ہوں ‘ جو صرف مذہبی نہیں ہے ۔ دلیل اور منطق کی روشنی میں ہے ۔ یہ الگ بات کہ جس نے دین کا گہرائی میں مطالعہ کیا ہو‘ وہ بخوبی جانتا ہے کہ مذہب ہے ہی دلیل اور منطق‘اگر وہ واقعی الہامی ہو اور اگر اسے مسخ نہ کر دیا گیا ہو ۔
میں خاموشی سے چیزوں کاجائزہ لیتا رہتا ہوں ۔ خوشیوں اور غموں کے بارے میں غور کرتے ہوئے‘ میں نے یہ نوٹ کیا کہ یہ تکالیف اور آسائشیں نہیں ہیں ‘ جو کہ لوگوں کو خوش یا غمزدہ رہنے پر مجبور کرتے ہیں‘ بلکہ اس میں ہر شخص کے مزاج کی زیادہ اہمیت ہے ‘ مثلاً :میں اپنی زندگی میں سات عدد ایسے لوگوں سے ملا ہوں ‘ جو کہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے تھے‘ جبکہ اصولاً انہیں انتہائی غمزدہ ہونا چاہیے تھا۔ ان میں سے پانچ لوگوں کے بچّے ایب نارمل تھے ۔ دو کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی ؛ چنانچہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھے ۔ جن کے بچّے ایب نارمل تھے ‘ میں ان کے نام بھی لے سکتا ہوں‘ لیکن شاید وہ اسے پسند نہ کریں ۔ ان میں سے ایک شخص کے تین بیٹے ذہنی طور پر ایب نارمل تھے اور چوتھی بیٹی بچپن میں ہی فوت ہو چکی تھی ۔ جب کہ ایک ذہنی معذور بیٹے کو سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے مرگی کے دورے بھی پڑتے ہیں ۔ یہ تفصیل اتفاقاً میرے سامنے آئی اور میں حیرت سے سوچتا رہ گیا کہ یہ شخص اس قدر مطمئن کیسے ہے ؟دوسری طرف وہ لوگ ہیں ‘ جو چھوٹی سی تکلیف پر مرنے کے قریب ہو جاتے ہیں ۔
دوسری طرف میں بہت سے لوگوں سے ملا‘ جن کی زندگی میں کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں تھا‘لیکن وہ غمزدہ‘ بلکہ خوف زدہ تھے۔ یہ خوف تھا آنے والے کل کا۔ اس میں سب سے بڑا خوف تھا بھوک کا ۔ نوکری ختم ہو جانے یا کاروبار ٹھپ ہو جانے کا خوف‘جبکہ ان لوگوںمیں سے کسی کو زندگی میں ایک دن بھی فاقہ نہیں کرنا پڑا ۔ اگر ایک شخص کو زندگی میں چالیس سال کے ساڑھے چودہ ہزار دنوں میں ایک دن بھی بھوکا نہیں سونا پڑا‘ لیکن وہ مستقبل میں بھوکے رہنے کے خوف کا شکار ہے تویہ کس قدر غیر منطقی بات ہے ۔ دوسری طرف آپ ان طاقت ور افراد جیسے کہ معمر قذافی اور صدام حسین کو دیکھیں‘ جو دنیا جہان کی نعمتوں سے مالا مال تھے ‘ جنہیں بھوکے رہنے کا کوئی خوف نہیں تھا اور ان کا انجام کیا ہوا ؟
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ خدا رحمن و رحیم کیسے ہے ۔ جب خدا نے کرّہ ٔ ارض پر زندگی کو تخلیق کیا تو اس نے زمین کی مٹی میں خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت رکھی‘ اگر زمین سے پودے نہ اگتے تو جانور بھوکے مر جاتے اور انسان بھی۔ تو خدا نے ہر جاندار کا رزق رکھا‘ خواہ وہ محلات میں زندگی گزارنے والا انسان تھا یا جنگلات میں رہنے والا بندر ۔ پرندوں کی مثال دی جاتی ہے کہ وہ صبح خالی پیٹ گھونسلے سے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں ۔آپ پیغمبروں کو تو چھوڑ دیجیے ‘جنیدِ بغدادی ؒ اور رابعہ بصریؒ جیسے اساتذہ کو بھی پڑھیے تو وہ اسی طرح توکل کرتے تھے ۔ سب چیزیں زمین سے اگ رہی ہیں ۔ جن چیزوں پر میرا نام لکھا ہے ‘ وہ میں نے لازماً کھا لینی ہیں ۔ اور اگر کسی چیز پر میرا نام نہیں لکھا ہوا تو ساری دولت کے باوجود میں اس چیز کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا ہی رہ جائوں گا ۔ بے شمار لوگ صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں کھا سکتے۔ مسئلہ صرف اور صرف لا علمی کا ہے ۔ انسان کو چونکہ علم نہیں ہوتا تو وہ خوف کا شکار رہتا ہے ۔ تو اس کا علاج روزگار حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علم حاصل کرنا بھی ہے ‘لیکن اس کے لیے آپ کو وقت مختص کرنا پڑے گا ۔وقت سارے کا سارا دولت کمانے میں صرف ہو رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دولت میں اضافے کے باوجود خوف کم نہیں ہوتا ۔
ایک دفعہ میں نے ایک بلڈر کو دیکھا‘ جو سال میں ڈیڑھ د وکروڑ روپے کما لیتا تھا۔ وہ اپنی ایک کوٹھی پر متعین کیے گئے چوکیدار سے حساب کتاب کر رہا تھا۔ اس نے چوکیدار کو دو ماہ ‘ فروری اور مارچ کی تنخواہ ادا کرنا تھی ۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ فروری میں اٹھائیس دن ہوتے ہیں اور مارچ میں اکتیس ؛ چنانچہ وہ 59دنوں کی تنخواہ ادا کرے گا‘ 60دنوں کی نہیں‘ جبکہ حیرت زدہ چوکیدار کا کہنا یہ تھا کہ بات تو ماہانہ تنخواہ کی ہوئی تھی ‘ دنوں کی تو نہیں۔ آخربلڈر صاحب نے یہ کہا : 59دن کی تنخواہ لینی ہے تو لو ‘ ورنہ اپنا کام کرو۔ مجھے محسوس ہوا کہ ڈیڑھ دو کروڑ روپے سالانہ کمانے والا یہ بندہ دنیا کا سب سے غریب شخص ہے اور میرا دل چاہا کہ آئندہ صدقہ خیرات اسی کو دے دیا کروں ۔
اگر آپ نوٹ کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ جو لوگ خوش ہیں‘ وہ ہر حال میں خوش ہیں ۔اس سے زیادہ بڑی آزمائش ایک انسان کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا بچّہ ایب نارمل ہواور اسے ساری زندگی اپنے بچّے کو سنبھالنا ہو۔
ا س کے علاوہ زندگی میں اگر رشتے نہ ہوتے تو یہ دنیا کیسی ہوتی ؟ فرض کریں کہ ہر انسان جوان پیدا ہوتا‘ اس کے ماں باپ نہ ہوتے ‘ نہ آگے جا کر اس کے بیوی بچّے ہوتے ‘ نہ بہن بھائی ہوتے تو یہ دنیا کیسی ہوتی ۔ جب کسی شخص کا بچّہ پیدا ہوتاہے تو اس کی زندگی مکمل طور پر بدل جاتی ہے ۔ انسان جب تھکا ہارا گھر جاتا ہے ۔ جب وہ دروازہ کھٹکھٹا تا ہے اور اسے اپنے بچّے کی پر مسرت چیخ سنائی دیتی ہے ''بابا‘ بابا‘‘ اور وہ بھاگتا ہوا آ کر آپ سے لپٹ جاتا ہے تو اس سے زیادہ خوشی اورکسی چیز میں ہو نہیں سکتی ۔دوسری طرف آ پ دیکھیں کہ خدا فرماتا ہے کہ حشر کے دن تو تم اپنی اولاد کو پہچاننے سے بھی انکار کر دو گے ۔ وہ ایک علیحدہ شخص ہے ‘ میں علیحدہ ہوں ۔ میرا اس سے کوئی بھی تعلق حقیقت میں ہے ہی نہیں‘ لیکن اسے اور مجھے ایک ساتھ رکھا گیا ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہو سکیں ۔ اسی طرح انسان کو مرد او رعورت کی دو جنسوں میں اس لیے پیدا کیاگیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے سکون حاصل کر سکیں۔ یہ قرآن مجید فرقان حمید میں لکھا ہے ۔ اگر میاں بیوی کا رشتہ نہ ہو‘ اگر انسان مرد اور عورت کی دو جنسوں میں پیدا نہ کیا جاتا اور اگر باپ اور بالخصوص ماں کا رشتہ نہ ہوتا تو آپ سوچیں کہ یہ زندگی کس قدر بے رنگ ہوتی ۔
آدمؑ کی زندگی حوا ؑ کی آمد کے بعد مکمل طور پر تبدیل ہو گئی تھی ۔ بنیادی طور پر یہ سب رشتے زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ‘تاکہ انسان اپنی زندگی میں بور نہ ہو ۔ ہمیں جب اولاد دی جاتی ہے توہم اس میں اس طرح مگن ہو جاتے ہیں ‘ جیسے ایک چھوٹا سا بچّہ روشنیوں والے کھلونے میں کھو جاتا ہے ۔ یہ ہیں خدا کی رحمتیں ‘ ہم جن کا شکر ادا نہیں کرتے ۔
بنیادی طور پر رشتے زندگی میں رنگ بھرنے کیلئے پیدا کیے گئے ‘تاکہ انسان اپنی زندگی میں بور نہ ہو ۔ ہم اپنی اولاد میں اس طرح مگن ہو جاتے ہیں ‘ جیسے ایک چھوٹا سا بچّہ روشنیوں والے کھلونے میں کھو جاتا ہے ۔ یہ ہیں خدا کی رحمتیں ‘ ہم جن کا شکر ادا نہیں کرتے ۔اگر آپ نوٹ کریں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ اس سے زیادہ بڑی آزمائش ایک انسان کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا بچّہ ایب نارمل ہواور اسے ساری زندگی اپنے بچّے کو سنبھالنا ہو۔