کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ انسان اس دنیا میں ‘ اس سیارے پر کیا کر رہا ہے ؟ سائنسدان سوچتے ہیں کہ انسان کو ایک دن یہ ساری کائنات تسخیر کرنا ہے۔ اسے چاند اور مریخ کو آباد کرنا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس زمین میں کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے کہ آدمی کو کسی دوسرے سیارے پر پناہ لینی پڑے۔ ا س کا جواب یہ ہے کہ انسان کو انسان سے خطرہ ہے ۔ دوسرے جانوروں میں ایسا کوئی مال کا لال نہیں ‘جو انسان کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹا دینے کی سازش کر رہا ہو۔ایٹمی میزائلوں سمیت تباہی پھیلانے والے جتنے بھی ہتھیار دنیا میں موجود ہیں ‘وہ سب انسان نے ہی بنائے ہیں ۔
انسان کو اگر انسان سے خطرہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کچھ انسانوں کو دوسرے سیارے پر منتقل کیا جائے گا تو یہ خطرہ بھی ان کے ساتھ ہی وہاں منتقل ہوجائے گا ۔ جیسے ہی ان میں سے کسی کو وہاں کوئی قیمتی چیز نظر آئی ‘ اس کی ملکیت کا تنازعہ پیدا ہو جائے گا۔شروع میں تو وہاں بے حساب زمین ہوگی‘ لیکن آہستہ آہستہ جب وہ آباد ہوتی جائے گی ‘تو پھر ایک ایک مرلے زمین پر قتل شروع ہو جائیں گے ‘ جیسے یہاں ہو رہے ہیں ۔
اس کے بعد وہاں وہی کہانی ایک بار پھر دُہرائی جائے گی‘ جو پچھلے پچاس ہزار سال میں کرّہ ٔ ارض پہ بیتی ہے ۔ یہ لڑائی ہے وسائل پر قبضے کی‘ جس کی خاطر بھائی ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں ۔ایثار کی مثالیں بھی بے شمار ہیں ۔ لوگ اپنے اعضا بہن بھائیوں کو عطیہ کر دیتے ہیں ‘لیکن انسانوں کی ایک غالب اکثریت خود غرضی کا مظاہرہ کرتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن جبلتوں کے مجموعے کو نفس کہتے ہیں ‘ اس کا مزاج انتہائی خودغرضی کا ہے ‘بلکہ نفس ہوتا ہی ہمیشہ خود غرض ہے ۔ یہ تو اگر انسان کی عقل اس کی خواہش پر قابو پا لے تو انسان ایثار کا مظاہرہ کر تا دکھائی دیتا ہے ۔
یہ الگ بات کہ آج موجودہ سائنسی ترقی کے باوجود مریخ سمیت کسی بھی دوسرے سیارے کو اس طرح سے آباد کرنا ممکن نہیں کہ زمین سے مستقل رسد کی ضرورت نہ ہو ۔ اگر زمین سے ہی رسد جانا ہے تو پھر وہاں منتقلی کا مقصد ہی فوت ہو جاتاہے ۔ ہاں ‘ البتہ اس مشن کا مقصد صرف تحقیق ہو تو پھر اور بات ہے ۔ بہرحال اگر انسان کو کسی اور سیارے پر منتقل ہونا پڑے تو اسے اپنی زندگی کی بدترین تکالیف کے لیے تیار ہوجانا چاہیے ۔ آکسیجن اور زیرِ زمین پانی ‘ بادلوں کے برسنے اور بیج کے پھوٹ پڑنے سمیت جانداروں کو ایک خوشگوار زندگی مہیا کرنے والے جتنے بھی نظام ہیں ‘ وہ صرف اس زمین میں ہی رکھے گئے ہیں ۔انسان بڑے پیمانے اور مستقل طور پر کسی دوسرے سیارے پر ہرگز آباد نہیں ہو سکتا۔ جو لوگ وہاں جائیں گے‘ وہ موت سے بدتر زندگی گزاریں گے۔ اندازہ یہاں سے لگائیں کہ خلا نورد دانت صاف کر کے ٹوتھ پیسٹ نگل لیتے ہیں ۔
دنیا میں انسان کو بہت سی آبزرویشنز ہوتی ہیں ۔قرآن میں لکھا ہے کہ خدا اپنے دوستوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ انسان کی عقل سے حجاب اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ انسان Focusedہو جاتاہے ۔ پہلے جن چیزوں کو وہ نوٹس کیے بغیر گزر جاتا تھا ‘ اب اسے ان پر حیرت ہونا شروع ہو جاتی ہے ۔ ایک چھوٹا سا لڑکا پانچ بھینسوں کو ہانکتا ہوا لے جا رہا ہے ۔ایسے مناظر بار بار دیکھتے رہنے کی وجہ سے آپ اس پر توجہ نہیں دیتے‘ لیکن اگر انسان کی آنکھ کھل جائے توہو سکتاہے کہ اسے اس عام سے منظر میں بہت کچھ مل جائے ۔؎
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
سوال یہ تھا کہ انسان اس زمین پر کیا کر رہا ہے ؟جواب ہے تو بہت تلخ‘ لیکن سچ یہی ہے کہ انسان کچھ بھی نہیں کر رہا ۔ وہ صرف اپنی زندگی بسر کر رہا ہے ‘ جیسے دوسرے جانور کر رہے ہیں ۔ وہ پیدا ہوتاہے ‘ اس زمین سے اگنے والی چیزیں اور جانوروں کا گوشت کھاتا ہے ۔ بچّے پیدا کرتاہے اور آخر کار بوڑھا یا بیمار ہو کر مر جاتاہے ۔وہ یا تو زمین سے اگنے والی چیزیں کھاتا ہے یا سبزی خور جانور ۔کیا مٹی کو بیج کے لیے Habitableبنانے میں انسان کا بھی کوئی عمل دخل ہے ؟؎
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون
کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
زمین پر آج بھی انسان کے علاوہ 87لاکھ قسم کی مخلوقات زندگی گزار رہی ہیں ۔ انسان ہی کی طرح وہ بھی ماں باپ کی حفاظت میں آنکھ کھولتی ہیں ‘زمین سے اگنے والی چیزیں کھاتی ہیں ‘ بڑی ہوتی ہیں ‘ بچے پیدا کرتی ہیں اور عمر رسیدہ ہو کے مر جاتی ہیں ۔ اگر تو آپ کی زندگیاں اس سے مختلف ہیں تو بتائیے ۔ آ پ جتنی مرضی ترقی کر لیں ‘ کھائیں گے تو زمین سے اگنے والی گندم اور چاول ہی ۔ کپاس ہی سے اپنا جسم ڈھانپیں گے اور زیرِ زمین پانی نکال کر ہی پئیں گے ۔
لیکن نفس انسان کو بھلا دیتاہے ۔ لاشعوری طور پر اسے اس دھوکے میں مبتلا کر دیتاہے کہ خوراک پیدا کرنے سمیت سب کام تم خود کر رہے ہو۔ انسان اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتاہے کہ سب معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں ۔ بظاہر اگر آپ انسان کو دیکھیں تو آپ کو وہ بہت مصروف نظر آئے گا ۔آپ ایک ہائوسنگ سوسائٹی کو دیکھ لیں‘ بڑی بڑی مشینوں کو زمین ہموار کرتا دیکھیں ۔ ایسا لگتاہے کہ جیسے سارے معاملات انسان ہی کے ہاتھ میں ہیں‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جب زمین تخلیق ہو رہی تھی‘ بڑے بڑے پہاڑ ‘ دریا اور پورے پورے براعظم تخلیق ہو رہے تھے تو اس وقت انسان اور اس کی یہ مشینیں کہاں تھیں؟ ان کا کتنا کردار تھا ؟زمین کو habitable بنانے میں۔انسان خود کو ناگزیر سمجھتا ہے ‘لیکن کسی دانشور نے کیا خوب کہا تھا: قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں ۔ کسی بھی بڑے آدمی کی موت کے بعد نظامِ ہستی اسی طرح رواں دواں رہتا ہے ۔
اصل بات یہی ہے کہ یہ زمین habitableہے ۔ یہ زندگی کو سپورٹ کرتی ہے ۔ تو جیسے 87لاکھ دوسری مخلوقات اس پہ زندگی گزار رہی ہیں ‘ اسی طرح انسان بھی گزارتاہے ۔ حیاتیاتی طور پر اگر آپ دیکھیں تو انسان اور جانور میں بالکل بھی کوئی فرق نہیں ؛حتیٰ کہ انسان ہی کی طرح ‘ جانوروں میں بھی مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا انسان اور جانور بالکل ایک برابر ہیں ؟ اس کا جواب قرآن میں درج ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے‘ وہ اللہ کے نزدیک بدترین جانور ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ‘ علم حاصل کرتے ہیں ‘ صرف وہ انسان ہیں ۔ دماغ جب آبزرویشن کرتا رہتاہے‘ تو وہ ساری زندگی مسلسل بدلتا رہتاہے ۔ یہی چیز ہے ‘ جو انسان کو انسان بناتی ہے۔
خدا نے اگر اپنی ذات کو حجاب میں نہ رکھنا ہوتا ‘تو انسان کو ہل چلانے کا جھنجھٹ بھی نہ اٹھانا پڑتا۔ گھر بیٹھے ہم پہ من و سلویٰ نازل ہو رہا ہوتا ۔ رہا انسان تو اگر وہ اپنا دماغ استعمال کر رہا ہے تو ہی وہ انسان ہے ۔ حیاتیاتی طور پر تو ورنہ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں ۔