"FBC" (space) message & send to 7575

بیچارہ لمحہ ٔ حاضر…(2)

آج ہم جن عادتوں کے مالک ہیں ‘ ان کی تشکیل ایک دو دن میں نہیں ہوئی ۔ زمین پہ بیتے ہوئے کروڑوں سال کا تجربہ ہمارے لاشعور میں دفن ہے ۔جب پہلی بار ایک جاندار کو بھوکا رہنا پڑا اور جب پہلی بار ایک جاندار نے دوسرے کو بھوک کے ہاتھوں مرتے ہوئے دیکھا تو بھوک کا خوف ایک حیوانی جبلت بن کر اس کے خون میں دوڑنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خوف مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ۔ جو شخص بھی میرا یہ کالم پڑھ رہا ہے ‘ وہ خود اپنے اندر جھانک سکتا ہے ۔ زندگی میں کتنی دفعہ آپ کو واقعتاً فاقہ کرنا پڑا ؟ مجھے یقین ہے کہ ایک عظیم اکثریت نے زندگی میں ایک دن بھی فاقہ نہیں کیا ہوگا ‘ لیکن اس کے باوجود سب کے لاشعور میں بھوکا مرنے کا خوف بدرجہ ٔ اتم موجود ہے ۔ اس دوران زمین پر عالمگیر ہلاکت خیز ادوار (Mass Extinctions)گزرتے رہے ۔ دم دار ستارے گرنے سے لے کر بڑے آتش فشاں پھٹنے تک ‘ ایسے حادثات ہوتے رہے ‘ جن میں جانداروں کی ایک عظیم اکثریت ہلاک ہوتی رہی۔ انسان کے آبائو اجداد یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ۔ انسان کے اندر ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خوف بیٹھ چکا ہے ۔ حادثے کا تو وہ کچھ نہیں کر سکتا‘ لیکن بھوک کا اس نے یہ حل نکالا ہے کہ زیادہ سے زیادہ رقم اکٹھی کی جائے۔ ہو سکے تو چھپا کر اسے سوئٹزرلینڈ یا برطانیہ کے کسی خفیہ اکائونٹ میں جمع کرا دیا جائے۔ 
میں نے ایک کالم لکھا تھا ۔ ملک احمد نامی ایک شخص ‘ جس نے قافلے میں وسطی ایشیا سے مشرقِ وسطیٰ تک سفر کے دوران گندم کی ایک بوری اپنی پیٹھ پر لاد رکھی تھی ۔ اس نے اپنا سفر بے حد اذیت ناک بنا لیا تھا۔ آخروہ یہ گندم کھانے سے پہلے ہی مر گیا ۔ ایک شخص اگر کنگلا ہے ‘تو اس کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے ‘لیکن آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے لوگ جن کے پاس بہت زیادہ مال موجود ہے ‘ وہ کیوں اس قدر خوفزدہ ہیں ؟ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس لاشعور کو یقین دلا دیتاہے کہ زیادہ دولت اکٹھی کرنے سے مستقبل محفوظ ہو جائے گا ۔ اپنی 34سالہ زندگی میں ‘میں نے آج تک کسی غریب سے غریب شخص کو بھی بھوک سے مرتے ہوئے نہیں دیکھا؛البتہ بھوکا مرنے کا خوف امیروں اور غریبوں میں یکساں نظر آتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ کئی اینکر بھی آپ کو امیر سیاستدانوں کے در پر حاضری دیتے نظر آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان سیاستدانوں کاحال ان سے بھی زیادہ پتلا ہے۔ ہر شخص کو ئی ایسا کام کرنا چاہتا ہے ‘ جس سے مستقبل محفوظ ہو سکے ۔بھوک سے کوئی نہیں مر رہا ‘لیکن بھوک کا خوف سب کو مار رہا ہے ۔ 
مستقبل کے اس خوف میں سب سے بڑا المیہ حال کے لمحہ ٔ حاضر کے ساتھ پیش آتاہے ‘ جو نعمتیں انسان کو حاصل ہیں ‘ ان سے وہ ذرا برابر بھی لطف اندوز نہیں ہو پاتا ‘بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے مستقبل محفوظ بنا لیا جائے ‘ پھر زندگی کا لطف اٹھائیں گے ۔ جب مستقبل محفوظ ہوتا ہے‘ تو اس وقت تک اس کی جوانی ڈھل چکی ہوتی ہے ۔صحت خراب ہو جاتی ہے ۔
دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنا مستقبل کسی صورت محفوظ نہیں بنا سکتا‘بلکہ میں تو اس بات پہ حیران ہوتاہوں کہ نفس کیسے انسان کو بے وقوف بناتا ہے ۔ نفس ایک طرف تو بھوکے مرنے کے خوف میں مبتلا کر کے انسان کو دولت اکٹھی کرنے پہ لگا دیتا ہے ۔دوسری طرف جب یہ کسی جنازے کو دیکھتا ہے‘ تو اپنی ساری حیوانی چالاکیوں اور خواہشات کی مدد سے انسان کو یقین دلاتا ہے کہ تمہیں ہرگز نہیں مرنا ۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی انسان کوئی جنازہ دیکھتا ہے تو سب سے پہلا لفظ جو اس کے ذہن میں آتا ہے ‘وہ ''بیچارہ ‘‘ ہوتا ہے ۔ نفس انسان کے لاشعور میں موت کو دھندلا دیتا ہے ۔ اسے کبھی یقین نہیں ہونے دیتا کہ اس نے بھی مرنا ہے ۔ اصولاً ہونا تویہ چاہیے تھا‘ اپنی اور اپنے بچّوں کی متوقع موت کا صدمہ انسان کے ہر فیصلے میں جھلک رہا ہوتا ۔ 
دوسرا دھوکہ نفس انسان کو یہ دیتا ہے کہ وہ اسے یقین دلادیتا ہے کہ اگر اس نے زیادہ دولت اکٹھی کر لی تو مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔ ہمارا جسم fragileہے ۔ ہمارے اہل و عیال کے جسم fragileہیں ۔ ہم کیسے اپنا مستقبل محفوظ کر سکتے ہیں۔ دوسری چیز ہے خیالات کی بوچھاڑ۔ انسانی ذہن پر ہر وقت خیالات نازل ہو رہے ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لاشعوری طور پر دماغ کے سوچنے کی رفتار بہت زیادہ تیز ہو چکی ہے ۔ ان خیالات کا بھی ایک بہت بڑا حصہ دولت کے حصول کی خواہش پر مشتمل ہوتاہے۔ روحانی طور پر انسان بہت کمزور ہو جاتاہے اور اس کی جبلّتیں بہت طاقتور ۔ یہی وجہ ہے کہ ساری زندگی انسان ایک بے چینی میں گزار دیتاہے۔ جتنا زیادہ وہ سمیٹتا چلا جاتاہے ‘ اتنا ہی اس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے ۔روح بیچاری علم اورعبادت کی پیاس میں تڑپتی رہتی ہے ۔ سرکارِ د و عالمؐ نے فرمایا تھا: ابنِ آدم کے پاس‘ اگر سونے سے بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ ایسی ہی ایک دوسری وادی کی آرزو کرے گا اور مٹی کے سوا کوئی چیز اس کا منہ نہیں بھر سکتی ۔
محفوظ مستقبل ایک سراب ہے ۔ جب آپ اس کے نزدیک پہنچتے ہیں تو پانی کی بجائے وہ ریت ثابت ہوتاہے ۔ اس کے ساتھ ہی پانی کسی اور جگہ دکھائی دینے لگتا ہے ۔ سراب در سراب ‘ زندگی بھر وہ بھٹکتا رہتاہے ۔جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا‘ معمر قذافی ‘ صدام حسین اور نواز شریف سمیت کوئی انسان بھی دولت یا ہتھیار اکٹھے کر کے اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں بنا سکتا۔ اللہ جسے محفوظ رکھنا چاہے ‘ وہ جنگ کے دوران بھی محفوظ رہے گا ‘ جس کے نصیب میں پریشانی ہے ‘ تمام تر وسائل کے باوجود ہو سکتاہے کہ اسے کوئی لا علاج بیماری لاحق ہو جائے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی اولاد ہی اسے تنگ کرنا شروع کر دے ۔ 
اس ساری داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ جسم ایسا نہیں کہ انسان اس میں بیٹھ کر محفوظ مستقبل کے سپنے دیکھ سکے ۔ یہاں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ مومنٹ ٹو مومنٹ جینا ہے ‘ورنہ زیادہ وسائل اکٹھے ہوئے کے باوجود انسان کے خوف میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک‘ جن جن حالات سے گزرنا پڑتا ہے ‘ وہ سب تو خدا کے ہاتھ میں ہیں ۔ کون ہے ‘جو انسان کے رجحانات ‘اس کے ماں باپ‘ بہن بھائی‘ شریکِ حیات اور اولاد کا تعین کرتا ہے ؟ 
لمحہ ٔ حاضر میں‘ اگر آپ خوش ہیں تو آپ واقعی خوش ہیں ۔لمحہ ٔ حاضر میں ‘اگر آپ شکر گزار ہیں‘ تو آپ واقعی شکر گزار ہیں ۔ اگر آپ کچھ حاصل کر کے خوش ہونا چاہتے ہیں تو وہ تو سراب ہے ۔کیا آپ آج دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہنے کے قابل ہیں کہ شکر الحمد للہ ‘ میں زندگی سے خوش ہوں ؟ کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی تلقین کر رہا ہوں ۔ زندگی میں شدید جدوجہد کرنی چاہیے ؛البتہ اس کے ساتھ ساتھ جس حال میں اللہ نے انسان کو رکھا ہوا ہے ‘ اس پر اطمینان بھی ہونا چاہیے‘ ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ خواہشات کی تشنگی بڑھتی ہی چلی جائے گی! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں