"FBC" (space) message & send to 7575

علم کا مغالطہ

ایک مشہور قول ہے ''علم کی سب سے بڑی دشمن جہالت ہرگز نہیں‘ بلکہ علم کا سب سے بڑا دشمن تویہ مغالطہ ہے کہ میں سب جانتا ہوں۔‘‘
"The greatest enemy of knowledge is not ignorance but the illusion of knowledge" 
یہ قول سٹیفن ہاکنگ سے منسوب کیا جاتاہے ‘لیکن درحقیقت یہ ایک اور دانشور ڈینیل بورسٹن کے الفاظ ہیں ۔ اس جملے میں علم و حکمت کا ایک خزانہ دفن ہے اورجیسا کہ فرمان ہے ‘ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے ‘ جہاں سے ملے لے لینی چاہیے ۔ 
illusion of knowledgeکا مطلب ہے ‘ آگہی کا مغالطہ ۔ یہ غلط فہمی کہ میں اس معاملے کو‘ اس مسئلے کو پوری طرح سے سمجھتا ہوں؛لہٰذا میں اسے حل بھی کر سکتا ہوں ۔ اس پر اپنی نپی تلی رائے دے سکتا ہوں ۔میں معاملے کو ٹھیک کرنے کا اہل ہوں ؛لہٰذا پھر وہ شور مچاتا ہے کہ معاملہ اس کے حوالے کر دیا جائے ۔ جب معاملہ اس کے سپرد کیا جاتاہے تو پھر پتا چلتاہے کہ اسے مسئلے کی سنگینی تو کیا ‘ اس کی ابجد کا علم بھی نہیں تھا ۔ 
سیاست میں تو خیر ہوتا ہی یہی ہے ۔ جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی تو سمجھا جاتا تھا کہ افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دے کر پاکستان نے ایک تاریخی غلطی کر دی ہے؛حالانکہ افغانوں کے قتلِ عام میں جتنا کردار صدر بش کا تھا ‘ کم و بیش اتنا ہی اسامہ بن لادن بھی تھا۔ القاعدہ دنیا بھر میں حملوں کے لیے افغانستان کو ایک ٹریننگ کیمپ کے طور پر استعمال کررہی تھی ۔ نوخیز لڑکوں کی ایک بڑی تعداد کو خود کش دھماکوں کی ٹریننگ دی جاتی رہی ۔ انہیں اس کا لا متناہی لائسنس دے دیا گیا تھا۔
پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور میں قرضوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ۔ ڈالر ساٹھ روپے پہ روک دیا گیا تھا ۔معاشی ترقی کی شرح زرداری ‘ نواز شریف اور عمران خان کے ادوار سے دُگنا سے بھی زیادہ تھی ۔ برسبیلِ تذکرہ آج کل پرویز مشرف صاحب کی ایک تصویر سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہے ‘ جس میں وہ بیمار اور شدید نقاہت کا شکار نظر آتے ہیں ۔ ہمارے نیک مسلمان اس تصویر پر اس طرح کے تبصرے کر رہے ہیں ''بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ‘‘۔ میرا ان سے ایک سوال ہے کہ جتنے بھی بڑے نامور سیاستدان گزرے ہیں ‘ جنہوں نے صاف ستھری زندگیاں گزاریں ‘ کیا بڑھاپے میں ان کے چہروںسے لشکارے پھوٹ رہے تھے یاہمارے اپنے خاندانوں کے بزرگ،کیا ان کی کمریں دہری نہیں ہوئیں ‘منہ پچک نہیں گئے اور ہاتھ پائوں کانپنا شروع نہیں ہو گئے ؟ کبھی اپنے دادا کی طرف دیکھ کر بھی کہیں کہ بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے ‘ پھر دیکھیں آپ کے ساتھ کیا ہوتاہے ‘جو بندہ بھی 80‘ 90کی عمر تک پہنچتا ہے ‘ یہ تو اس کے ساتھ ہونا ہی ہے ۔ 
نجی حوالے سے جنرل مشرف کے کچھ معاملات ہو سکتے ہیں، لیکن افغانستان میں امریکہ کا ساتھ دینے اور قبائلی علاقے میں فوج بھیجنے سمیت اس کے اکثر فیصلے توبالکل درست تھے۔ انہی کی قیادت میں پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف وہ جنگ شروع کی ‘ جس کی وجہ سے پاکستان میں آج امن قائم ہے۔ رہا افغانستان تواسے تباہ کروانے میں ملّا عمر کا ایک کلیدی کردارتھا۔اسامہ بن لادن دہشت گردوں کا باپ تھا ‘ جس نے خودکش دھماکوں کو ایک سائنس بنا دیا تھا ۔
بات نروان کی ہو رہی تھی ۔ بہت سے لوگ ہیں ‘ جنہیں نروان کا دعویٰ ہے ۔ جب جنرل مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو مری میں نواز شریف اور آصف علی زرداری اکٹھے ہوئے ‘ پوری قوم ان پر پھول نچھاور کر رہی تھی ۔ جمہوریت کا جشن منایا جا رہا تھا تو ان دونوں کا کہنا یہ تھا کہ جنرل مشرف نے ملک تباہ کر دیا ۔ ہم اسے ٹھیک کریں گے ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ مشرف کے دور میں پٹرول کی قیمت دُ گنا سے بھی زیادہ ہے۔ آصف علی زرداری کو پانچ سال ملے۔ اس دوران پٹرول کی قیمت کہاں گئی اور ڈالر کہاں گیا‘ یہ سب کو معلوم ہے ۔ معاشی ترقی کی شرح دوفیصد تھی۔ملکی قرضے 6ہزار ارب روپے سے بڑھ کر چودہ ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے ۔ اس کے بعد نواز شریف کو حکومت ملی‘ ان کا کہنا یہ تھاکہ پہلے پرویز مشرف اور پھر آصف علی زرداری نے ملک کو تباہ کر دیا۔ حالات تو میں ٹھیک کروں گا۔ نواز شریف کے دور میں یہ قرض 14ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 29ہزار ارب روپے تک جا پہنچا‘پھرپنامہ لیکس سامنے آئیں ۔ شریف خاندان پہ زوال آگیا۔ 
اب ایک ہی لیڈر بچا تھا‘ جسے اب تک اقتدار نہ مل سکا تھا۔ یہ لیڈر ہے؛ عمران خان‘ جو مالی طور پر صاف شفاف ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دامن پہ کم از کم کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔ کپتان کا کہنا یہ تھا کہ ان کے پاس ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل موجود ہے ۔ اسد عمر کی صورت میں ایک ایسا آئن سٹائن سامنے لایا گیا ‘ جس نے پٹرول اور ڈالر کی قیمتیں گرا دینا تھیں ۔ معاشی ترقی کی شرح دُگنا ہوجانا تھی ۔ قرضے ادا ہونا شروع ہو جاتے ۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ہرگز کوئی ضرورت باقی نہ رہتی ۔ 
آپ کو یاد ہوگا‘ ایک نہیں ‘ کئی جلسوں میں تقریر کرتے ہو ئے عمران خان نے یہ کہا تھا کہ اگر مجھے قرضہ لینا پڑا تو میں خودکشی کر لوں گا۔ اس وقت وہ جھوٹ نہیں بول رہے تھے ۔عمران خان کو یقین تھا کہ میں برسر اقتدار آ کر سارے مالی معاملات ٹھیک کر دوں گا اور قرض ہرگز نہیں لینا پڑے گا۔ 
دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ جو 29ہزار ارب روپے کا قرض زرداری اور نواز شریف کی حکومتوں نے لے رکھا تھا‘ اس کی قسطیں واپس کرنے کے لیے بھی مزید قرضوں کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔ کپتان کو اس سنگین صورتِ حال کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا ۔ وہ خوش فہمیوں کی دنیا میں زندگی گزار رہا تھا ۔آپ کو مراد سعید کی تقریر یاد ہوگی :'' جس دن عمران خان کی حکومت آئے گی‘ بیرونِ ملک سے 100ارب ڈالر ملک میں آجائیں گے۔ وہ ہم غیر ملکی اداروں کے منہ پر ماریں گے اور باقی پیسوں سے ہم ملک کو ترقی کی شاہراہ پہ لے چلیں گے ‘‘۔ 
تو اصل دشمن ہے illusion of knowledge۔ سائنسی دنیا میںبھی یہی ہورہا ہے ۔ بے شمار لوگ ہیں ‘ جنہیں خوساختہ غلط سائنسی ٹرمز پڑھا دی گئی ہیں ۔ مجھے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ خلا میں vinyle radiation layerہوتی ہے ‘ جس سے ٹکرانے والا انسان زندہ بچ ہی نہیں سکتا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان چاند پہ جا اترا ہو۔ حقیقت یہ تھی کہ vinyle radiation layerنامی کوئی چیز اپنا وجود ہی نہیں رکھتی ‘ اسی طرح حکمت کے نام پر جو لوگ چاندی کے ورق مریضوں کو کھلا کھلا کر دھڑا دھڑ ان کے گردے تباہ کر رہے ہیں ‘انہیں بھی مکمل طور پر یقین ہے کہ ہم صحیح علاج کررہے ہیں ۔ 
جس طرف بھی دیکھیں ‘ illusion of knowledgeنظر آتا ہے ۔ با ایں ہمہ جتنی حکومتیں میں نے دیکھیں ہیں ‘ سب سے بہتر معاشی کارکردگی کا مظاہرہ چودھری برادران کے ذریعے پرویز مشرف نے کیا ۔یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے‘ آپ مانیں یا نہ مانیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں