"FBC" (space) message & send to 7575

خوف اور خواہش

کبھی آپ مختلف لوگوں سے ملیں‘ ان سے بات چیت کریں اور پوچھیں کہ زندگی میں آگے ان کا کیا پروگرام ہے ؟ آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ بڑے بڑے پروفیشنلز ‘ انجینئرز‘ ڈاکٹرز‘ چارٹرڈ اکائونٹنٹس سے لے کر؛حتیٰ کہ ایک عام دیہاتی نے بھی مستقبل کے کچھ منصوبے بنا رکھے ہوں گے ۔ اس بات سے انکشاف یہ ہوتاہے کہ منصوبے سب نے بنا رکھے ہیں ؛البتہ ان پر عمل درآمد کا رسک کتنے لیتے ہیں ؟ یہ ایک الگ بات ہے ۔
انسان کو ambitiousتخلیق کیا گیا ہے ۔لاشعوری طور پر ‘وہ ہمیشہ ‘ مسلسل اور متواتر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچتا رہتاہے ۔ گائوں میں زمینوں کا مالک سوچ رہا ہوتاہے کہ وہ جائیداد بیچ کر کسی بڑے شہر میں کسی اچھی سی ہائوسنگ سوسائٹی میں شفٹ ہو جائے۔ پتلون شرٹ پہن کر‘ ٹائی لگا کر دفتر بیٹھا کرے ۔ شہر والاسوچ رہا ہوتاہے کہ کہیں کسی گائوں میں بڑا سا رقبہ مل جائے۔ نوکری کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کر کے اجناس اگائی جائے۔بچوں کو صاف ستھری غذا اور آکسیجن سے بھرپور ہوا میسر آسکے ۔ دفتروں میں کام کرنے والے اپنے باسز کے سخت روّیے سے تنگ ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود اکثر لوگ ساری زندگی اسی حال میں گزار دیتے ہیں ۔ 
اور پھر سب سے بڑی چیز ہے خوف۔ ہر بندہ آنے والے کل سے خوفزدہ ہے ۔ کل کیا ہوگا ؟ اگر یہ دفتر یا فیکٹری بند ہو گئی‘ جس میں ‘ میں ملازم ہوں تو میں کہاں جائوں گا؟ اسی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد گزر بسر کرنے کا خوف انسان کو کچوکے لگاتا رہتاہے ۔ کچھ لوگ تو یہ بھی سوچتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتاہے ۔ اس لیے جیسے بھی ممکن ہو‘ بیرونِ ملک منتقل ہو جانا چاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ ہمیشہ بیرونِ ملک جائیدادیں بناتی ہے ‘ سرمایہ بیرونِ ملک رکھتی ہے اور باہر فرار ہونے کے لیے موقعے کی تاک میں رہتی ہے ۔ بڑے بڑے سیاستدان ‘ بزنس مین اوربڑے بڑے افسر بیرونِ ملک جائیدادیں بناتے ہیں ۔ پاکستان کے بارے میں ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ یہاں سے جو کچھ کمایا جا سکتاہے‘ اسے بونس سمجھو اور مناسب وقت پر بوریابستر سمیٹ کر نکل جائو ۔ پہلے ان کا خیال یہ تھا کہ پاکستان دہشت گردی سے کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے گا ۔ اب‘ وہ یہ سوچتے ہیں کہ معاشی دبائو کے نیچے دبے پاکستان کی کمر ٹوٹنے والی ہے ۔ یہاں آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کون پاکستان کے مستقبل میں faithرکھتا ہے اور کون نہیں ؟ آپ کے خیال میں زرداری اور شریف خاندانوں نے اپنی دولت بیرونِ ملک کیوں منتقل کی ؟ 
ہزاروں لوگوں میں ایک بندہ ایسا ہوتاہے کہ جوکہتا ہے کہ میں جس حال میں ہوں ‘ خوش ہوں ۔مخلوق کی اکثریت خوف کا شکار ہے کہ آنے والے کل میں ان کا چراغ اگر گل ہو گیا تو وہ کیا کریں گے ؟سب سے بڑا خوف انسان کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ باقی سب کا کچھ نہ کچھ بن جائے گا‘ میں پیچھے رہ جائوں گا ۔ 
انسان اپنے اس خوف کا مقابلہ کرنے کے لیے دولت اکٹھی کرنا شروع کر دیتاہے۔اس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کے خوف میں کمی آئے‘ الٹا اس میں اضافہ شروع ہو جاتاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسا کہ میرا دوست ناصر افتخار کہتاہے کہ نفس ہر چیز کو کئی گنا بڑا کر کے دکھاتاہے ۔ انسان مستقبل کو دیکھ تو نہیں سکتا ‘لہٰذا وہ اس خوف میں مبتلا رہتاہے کہ کل جو حادثہ وقوع پذیر ہونے والا ہے ‘ وہ اس قدر بڑا ہوگا کہ یہ ساری دولت اس کا مداوا کرنے میں ناکام رہے گی ۔ 
اصل میں انسان زمین پر وقوع پذیر ہونے والے حادثات دیکھتا رہا ہے ۔ شہابِ ثاقب کی بارش ‘ دمدار ستارے کا گرنا‘ بڑے آتش فشائوں کا پھٹنا‘ سونامی اور زلزلے ‘سمندر کاخشکی پہ چڑھ آنا‘ پورے پورے شہروں کو اجاڑ دینے والے وبائی امراض ۔ انسان کے لاشعور میں ایٹمی حملوں کا خوف بھی پوشیدہ ہے ۔ خانہ جنگیوں اور دشمن قبیلوں کی یلغار ۔ اس کے علاوہ انسانی لاشعور میں قیامت برپا ہونے کا خوف بھی موجود ہے ۔ اندر ہی اندر ہر بندے کو یقین ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا ‘ جب سب کچھ ختم ہو جائے گا ‘ یعنی فنا ہو جائے گا۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ انسان جو مرضی کر لے ‘ وہ اپنے غیر مرئی مستقبل کو مکمل طور پر محفوظ نہیں کر سکتا ۔ اس لیے کہ انسان اپنے دشمن کو اپنے جسم سے باہر ڈھونڈ رہا ہوتاہے ۔ دشمن اندر ہے۔ خوف دماغ کے اندر ہوتا ہے ۔ اسے اندر سے ہی ختم کیا جا سکتاہے ‘ باہر سے نہیں ۔فرض کریں‘ آپ کو بھوک کا خطرہ ہے ‘ ایٹمی حملے کا خطرہ ہے ۔ آپ ایک زیر زمین بنکر تعمیر کر کے اس میں بہت سا اجناس جمع کر لیتے ہیں‘تا کہ اس مشکل وقت کا مقابلہ کیا جا سکے۔اب آپ دیکھیں کہ مسئلہ کس طرف سے آتا ہے ۔ آپ کے دماغ میں خون کی ایک نالی پھٹ جاتی ہے ۔ اب‘ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بے ہوش شخص کو اٹھا کر بنکر سے باہر کیسے لایا جائے اور نیورو سرجن تک کیسے لے جایا جائے ۔ آپ میرا مطلب سمجھ رہے ہوں گے ۔ ہمارا سب سے بڑا دشمن ہمارا یہ نازک بدن ہے ‘جس میں ہماری روح قیام پذیر ہے ۔ اس جسم کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور دشمن کی ضرورت ہی نہیں ۔ 
دماغ کے اندر جو دشمن رہتاہے ‘ وہ نفس ہے ۔ اس کی خواہشات اس قدر زیادہ ہیں کہ جو کبھی پوری ہو ہی نہیں سکتیں ۔ اس نے انسان کو گلیکسیز میں راج کرتے ہوئے دیکھ رکھا ہے اور یہ چھوٹا سا سیارہ اس کی بھوک ختم کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ہے ۔اسی طرح انسان کو سب سے بڑا خوف موت کا ہے ۔ ساری زندگی نفس انسان کو یہ دھوکہ دیتا رہتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو تو مرنا ہے‘ لیکن اسے نہیں ۔ اس کے باوجود لاشعوری طور پر اسے علم تو ہوتاہی ہے کہ موت بہرحال آکر رہنی ہے ۔ اس کے آس پاس کے لوگ مرتے رہتے ہیں اورٹائم بم پہ نصب گھڑی کی ٹک ٹک وہ سنتا رہتا ہے ۔ 
ہاں ؛ البتہ دنیا میں ایک اور طرح کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں ۔ یہ لوگ اس بے پناہ خوف اور اس بے کراں خواہش پہ غالب آجاتے ہیں ۔خوف اور خواہش سے آزاد ہونے کے بعد ان کی عقل میں نور پیدا ہوجاتاہے ۔وہ یکسو ہو جاتاہے۔سرکارﷺ نے فرمایا تھا : مومن کی بصیرت سے ڈرو‘ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔ ان لوگوں میں وہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے ‘ جس کی مدد سے نا صرف پوری انسانی تاریخ پہ ان کی نظر ہوتی ہے‘ بلکہ وہ آنے زمانوں کے بارے میں بھی درست اندازے قائم کرتے ہیں ۔ جیسا کہ قائد اعظمؒ نے اپنے مخالفین سے کہا تھا کہ ان کی اولادیں غیروں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا کریں گی ۔ 
ان لوگوں کے ذریعے خدا تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے ۔ اقبالؔ اور جناحؒ انہی میں شمار ہوتے ہیں ۔ گو کہ قائد اعظمؒ علمی مدبر تو نہ تھے‘ لیکن آپ انہیں کبھی بھی خوف اور خواہش سے مغلوب نہ دیکھیں گے ۔ہمیشہ وہ آپ کو اخلاقی عظمت کی بلندی پہ نظر آئیں گے۔ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عظمت کس طرح ان پہ برس رہی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے مخالفین کی زندگیوں کا بھی جائزہ لیں کہ آج تاریخ انہیں کس نام سے یاد کرتی ہے ۔ اقبالؔ اور جناحؒ کا قد چھوٹا کرنے کے خواہش مندوں کا وہی حال ہوا ہے‘ جو چاند پہ تھوکنے والوں کا ہوتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں