کبھی کبھی انسان اس وقت کے بارے میں سوچتا ہے ‘ خدا جب یہ دنیا تخلیق کر رہا تھا ۔ ایک نیلگوں سیارے اورہر قسم کی مخلوقات پیدا کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔ ان میں سے ایک مخلوق پر شریعت اترنا تھی ۔مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے کئی چیزوں کا بندوبست لازم تھا۔ یہ بندوبست تھا؛ خوراک کا اور آکسیجن سمیت ان چیزوں کا‘ جن کی ان مخلوقات کو اپنی زندگی کے دوران ضرورت پڑنا تھی ۔ پہلے سیانو بیکٹیریا اور بعد میں پودوں کے ذریعے زمین پر آکسیجن پیدا کی گئی ۔ اتنی آکسیجن کہ تمام مخلوقات کو ساری زندگی سانس لینے میں دقت نہ ہو ۔ اب‘ آپ بتائیں کہ ایک سیارے پر اتنی آکسیجن کی مقدارکا اندازہ کیسے لگایا گیا ؟جواب : علم کی بنیاد پر ۔
خدا علیم و خبیر ہے ۔یہ سب اندازے نہیں‘ بلکہ حساب کتاب کی رو سے ہوا ہے۔
اس چیز کا اندازہ لگا نا کہ زمین پر کتنی آکسیجن کی ضرورت ہوگی ؟ اس آکسیجن کو پیدا کرنے کے لیے اورجانوروں کا پیٹ بھرنے کے لیے کتنے پودے درکار ہوں گے ۔ہو ااور پانی سے آکسیجن اپنے جسم کے اندر لے جانے کے لیے جانداروں کو کن اعضا کی ضرورت ہوگی ؟ ان پودوں کو زمین میں پیوست ہونے کے لیے کتنی مٹی درکار ہوگی۔ مخلوقات کو اپنے جسمانی افعال سرانجام دینے کے لیے کتنے پانی کی ضرورت ہوگی ۔ یہ پانی کیسے زمین کی سطح سے بخارات بن کر وہاں برسے گا‘ جہاں اس کی ضرورت ہوگی ۔ کیسے اس بارش سے پودے اگیں گے ‘ پھر کیسے یہ پانی زمین میں قید کر دیا جائے گا ۔یہ بندوبست کرنا ضروری تھا کہ یہ پانی نہ زمین کی سطح کے نیچے سے کہیں فرار ہو سکے گا اور نہ بادلوں سے اس کے لیے کوئی جائے فرار ہو ۔
اس سے بھی ذرا پیچھے جائیں ۔کششِ ثقل کتنی رکھی جائے کہ ہائیڈروجن اکھٹی ہوتی رہے اور سورج پیدا ہو جائیں ۔ یہ کششِ ثقل اتنی ہونی چاہیے کہ سیارے سورج کے مدار سے فرار نہ ہو سکیں ‘ جس سیارے پہ مخلوقات کو پیدا کیا جانا ہے ‘ڈیڑھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے زمین کی اپنے محور کے گرد گردش کہ اس کے مختلف حصوں میں حرارت کی تقسیم مساوی ہو سکے ۔مائع پانی بہتا رہے ‘ اسی بنیاد پر پودوں نے بھی اگنا تھا ۔مزید یہ کہ زمین پہ گندم اور چاول سمیت پودوں کی کون کون سی اقسام پیدا کی جائیں ‘ جو کہ مخلوقات کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہو جائیں ۔
یہ سب چیزیں وہ تھیں کہ جن کے لیے انتہا درجے کا علم درکار تھا ‘ جس کا انسان کبھی گمان بھی نہ کر سکتا تھا۔ یہ اربوں سال کے منصوبے تھے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب زمین پر کوئلے‘ تیل اور گیس سمیت ہر قسم کے وسائل مکمل ہو گئے‘ توتین لاکھ سال پہلے اچانک انسان اس سیارے میں پیدا ہو جاتا ہے اور زمین کھود کر لوہے سمیت ساری قیمتی اور مفید اشیا نکالنا شروع کر دیتا ہے ۔
کوئی شک نہیں کہ انسان بہت علم رکھتا ہے‘ لیکن یہی انسان جب پہاڑ کاٹ کر ایک ہائوسنگ سوسائٹی بناتا ہے یا فیکٹریاں لگاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی صاف پانی اور جانوروں کے مسکنوں سمیت ہر شے کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے ۔ امریکہ‘ چین ‘ بھارت اور زیادہ آبادی والے ملک آج معاہدے کر رہے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے کوئلے سمیت کاربن کا اخراج ہمیں بند کرنا ہوگا ۔
Planktonاور الجی سمیت سمندر میں کتنی خوراک درکار ہے اور زمین پر پودوں کی شکل میں کتنی خوراک پیدا کی جائے گی ۔پانی اور خشکی میں دو الگ الگ food chainsبنائی گئیں ۔ اس فوڈ چین کے ذریعے مخلوقات نے پودے کھانا تھے‘ ایک دوسرے کا شکار کرنا تھا ‘لیکن اس طرح کہ یہ سسٹم چلتا رہے اور extinctionسے مخلوقات بچی رہیں ۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک سانپ اگر دس انڈے دیتا ہے تو ان میں سے صرف ایک یا دو ہی بچ پاتے ہیں ۔ باقی دوسروں کا پیٹ بھرنے کے کام آتے ہیں ۔ یہ سسٹم کہ کس مخلوق نے کتنے بچّے پیدا کرنا ہیں ‘ ان بچوں کا میٹابولزم کیا ہوگا اور کتنی دیر میں وہ بڑے ہوں گے۔ یہ سب کچھ علم کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا ۔ انسانوں میں تو بچّہ ایک طویل عرصے تک والدین پہ منحصر رہتاہے ۔ بکرا ایک سال میں جوان ہو جاتا ہے۔بکرے اور بیل سمیت ‘ انسان جانوروں کو ذبح کرتا رہتاہے ‘ کھاتا رہتا ہے ‘ وہ ختم ہو نے میں نہیں آتے ۔ وجہ ؟ صرف اور صرف calculation۔ ان جانوروں کا میٹا بولزم اتنا تیز بنایا گیا ہے کہ وہ لاکھوں کی تعدا دمیں روزانہ ذبح ہو کر بھی ختم نہیں ہوتے ۔ اگر یہ میٹا بولزم سست ہوتا تو گوشت کھانا ایک ایسی عیاشی ہوتی ‘ جس سے صرف امرا ہی فیض یاب ہو پاتے ۔
زمین کی اپنے محور کے گرد ڈیڑھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتا رسے حرکت ‘ زمین پہ پودوں اور آکسیجن کی مقدار ‘ زمین پہ مٹی کی مقدار ‘ زمین کا سورج سے فاصلہ ‘ چاند کا زمین سے فاصلہ اور زمین پہ پانی کی حرکت سمیت زندگی پہ اس کے مفید اثرات۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں ‘ جن کو ڈیزائن کرنے کے لیے بہت زیادہ علم درکار تھا اور اس ذات کے پاس یہ علم موجود تھا ‘ جس نے یہ سب تخلیق کیا ۔ اس کے باوجود ہم اپنے بچّوں کو اللہ کا تعارف یہ کہہ کر نہیں کراتے کہ اللہ وہ ذات ہے ‘ جس کے پاس یہ تمام علوم موجود ہیں۔ اس کے برعکس بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے کہ کسی نے کوئی سوال نہیں کرنا ۔ آنکھیں اور دماغ بند کر کے آپ نے اس کی پوجا کرنی ہے ۔
عام لوگوں کو انسان کیا کہے ؟ خود دانشور ڈرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ سائنس کو مذہب کی حدود سے باہر رکھاجائے ۔وجہ یہ ہے کہ ان کی اپنی کم علمی کی وجہ سے ان کے اندر ایک خوف موجود ہے ۔ یہ خوف کہ خدا سائنس نہیں جانتا ‘لہٰذاوہ شکست کھا جائے گا‘ لیکن یہ خوف ان کا اپنا اور ان کے آبائو اجداد کا تخلیق کر دہ ہے ۔جس خدا نے آسمان‘ ستارے اور سیارے تخلیق کیے‘ وہ جب مخلوق سے کلام کرتاہے تو وہ اپنے پسندیدہ بندوں کے بارے میں کہتا ہے :'' جو کھڑے ‘ بیٹھے اور پہلو کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور کرتے ہیں ۔۔۔‘‘(آلِ عمران: 191) ۔ ''بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں اور لوگوں کے فائدے کے لیے کشتی کے پانی پر تیرنے میں ‘ اور جو اللہ نے آسمان سے پانی برسا کر مردہ زمین کو زندہ کر دیا اور زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلانے میں اور ہوائوں کی گردش اور وہ بادل جو مسخر ہے زمین اور آسمان کے درمیان ‘ان سب میں نشانیاں ہیں‘ عقل والوں کے لیے (بقرۃ: 164)
ڈائنا سارز کے ختم ہونے کے بعد ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے میملز کن حالات میں زمین پر پھیلے اور لکڑی کس اصول کے تحت پانی پہ تیرتی ہے ۔ رات اور دن کے آنے جانے کی وجہ صرف اور صرف زمین کی اپنے محور کے گرد گردش ہے ۔ زمین و آسمان اور زندہ مخلوقات کی تخلیق میں غور ؟ ''کیا میرا انکار کرنے والوں نے دیکھا نہیں کہ آسمان اور زمین جڑے ہوئے تھے‘ پھر ہم نے پھاڑ کر انہیں جدا کر دیا اور ہم نے پانی سے ہر زندہ شے کو پیدا کیا تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے ؟‘‘(الانبیا30)۔
پھر خیال آتا ہے ‘جو خود خوفزدہ ہوں ‘ وہ کیا کسی کو خوف سے نکالیں گے ؟