کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہم انسانوں نے کرّہ ٔ ارض کا حال کیا کر دیا ۔ایسا کوئی دشمن سرزمین کے ساتھ بھی نہیں کرتا۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان ایلین ہے اور زمین کو تباہ کرنے کی نیت سے اس پر اتراہے ۔ ہم کوئلہ‘ تیل اور گیس نکال کر جلاتے رہے ؛حتیٰ کہ فضا میں کاربن کی مقدار بڑھنے لگی۔ کرّہ ٔ ارض کا درجہ ٔ حرارت بڑھنے لگا ۔مغربی انٹارکٹکا سمیت برف کے ذخائر پگھلنے لگے۔ سمندر بلند ہونے لگے ۔انسان نے سیوریج کو صاف پانی میں پھینکنا شروع کیا ؛حتیٰ کہ سبزیوں اور پھلوں کو یہی آلودہ پانی پلایا جا رہا ہے ۔ آبی ذخائر میں سیوریج اور فیکٹریوں کا فضلہ ملایاجارہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آبی حیات بیمار ہو رہی ہے اور اسے کھانے والا انسان بھی ۔ سبزیوں اور پھلوں کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کم سے کم وقت میں حاصل کرنے کے لیے ان پر کیمیکل سپرے کیے جا رہے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کینسر پھیل رہا ہے ۔ بیمار طرزِ زندگی کا نتیجہ یہ ہے کہ بیشتر معمر افراد کے پتّے‘ اس میں پتھری کی وجہ سے نکال دیے گئے ہیں ۔ زیادہ تر بچّے آپریشن سے پیدا ہو رہے ہیں ۔
انسان نے اپنے اس خوبصورت سیارے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔خودوہ ایک مصنوعی زندگی جی رہا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ قدرت کو تباہ کرنے کے درپے ہے ۔ وہ ایسا روّیہ برداشت کرنے کی عادی نہیں اورجواباً انسانیت کو برباد کرنے پہ تلی ہے ۔ایسے میں دیکھنا ہے کہ کون جیتتا ہے ۔
زیادہ وقت نہیں گزرا‘سرِ شام جب سورج کی آخری کرنیں نیند کا پیغام لاتیں‘ لیکن پھر آدمی نے زمانے اور خود اپنے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ یاد رہے کہ تب تک دوسرے جانوروں پہ اپنی ذہانت اور برتری وہ ثابت کر چکا تھا۔دوسروں کے مقابل اس کی زندگی کہیں آسان تھی ‘لیکن اب اس نے فضا میں اڑنا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دریا اس کے بتائے ہوئے راستے پر بہے۔وہ لیبارٹری میں گوشت اگانا چاہتا تھا۔ اس نے بجلی ایجاد کی اور اس کے بل پہ حرکت میں آنے والی ایجادات۔ اس نے زمین سے کوئلہ ‘گیس اور تیل نکالا۔ انجن بنایااور پھر موٹر سائیکل سے لیکر راکٹ تک میں اسے نصب کردیا۔ جو آگ اس نے پتھر کے دور میں دریافت کی تھی‘ اب وہ ان تمام چھوٹے بڑے انجنوں میں دہکنے لگی۔
ریفریجریٹر اور ائیر کنڈیشن افریقا کے تپتے ہوئے صحرا ہی میں نہیں‘ شمالی امریکا کے برف زاروں میں بھی استعمال ہونے لگے۔ خطرناک گیسوں نے کرّہ ٔ ارض کو ڈھانپ لیا۔وہ سورج کی تپش اپنے اندر مقید کرنے لگیں ۔ درجۂ حرارت بڑھنے لگا۔ ماحول کا توازن برقرار رکھنے والے گلیشیر پگھلنے لگے ۔موسم بدل گیا ۔ اوزون کا سینہ شق ہو گیا۔ یہی نہیں ‘ اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے آدمی نے ایٹم توڑ ڈالا اوراپنے ہم نسلوں پہ تابکاری نازل کی۔اسے کائنات تسخیر کرنا تھی‘ لیکن وہ اپنے ہی جیسوں کو زیر کرنے میں جت گیا۔ وہ کائنات کی وسعتوں کو بھول گیا اور ایک چھوٹے سے سیارے پر زمین کی ملکیت پہ جھگڑنے لگا۔ وہ تیل کے لیے لڑا‘ پانی اورہیرے جواہرات کے لیے ۔ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے اس نے جانوروں اور پرندوں کی نسلیں مٹا ڈالیں ۔ جنگلات سکڑ گئے ۔انسانی جرائم کا شمار ممکن نہیں ۔
انسان نے پیکنگ کی اپنی ذرا سی سہولت کے لیے پلاسٹک ایجاد کیا ۔ آج بحر و بر پلاسٹک سے بھرے پڑے ہیں ۔ بڑی بڑی مچھلیوں کا جب پوسٹ مارٹم کیاجاتا ہے ‘توان کے معدے پلاسٹک سے اٹے ہوتے ہیں ۔
یہ تو ایک نکتہ ٔ نظر ہے ۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لیے آپ ذرا پیچھے جائیے ۔ 25کروڑ سال پہلے پرمین دور کی عالمگیر ہلاکت خیزی(Permian Mass Extinction)کو پڑھیے۔ کرّہ ٔ ارض کی بدترین آتش فشانی کے بعد سمندر کی تہوں سے میتھین گیس نکل کے جلنے لگی ۔ درجہ ٔ حرارت میں دس درجے کا اضافہ ہوا اور کرّہ ٔ ارض کے 95فیصد جانوروں کی نسلیں مٹ گئیں ۔اس وقت اگر آپ زمین کو دیکھ سکتے تو قسم اٹھا کر کہتے کہ دوبارہ کبھی اس پر زندگی آباد نہ ہو سکے گی‘ لیکن آہستہ آہستہ نیلا سیارہ پھر زندگی سے لبریز ہو نے لگا۔
پھر ساڑھے چھ کروڑ سال قبل آسمان سے دس مربع کلومیٹر کی ایک چٹان میکسیکو میں آگری اور 70فیصد جاندارہمیشہ کے لیے ماضی کا حصہ ہوگئے ۔ سورج کے گرد زمین کا مدار ذرا سا تبدیل ہوتا اور وہ طویل برفانی ادوار(Ice Ages) میں دھنس جاتی ہے ۔ فرض کریں‘ آج زمین پھر اپنا راستہ ذرا سا بدل لے تو ماحول کی فکر میں گھلنے والا انسان کیا اپنے سارے ایٹم بم استعمال کر کے بھی اسے واپس لا سکتاہے ؟ یہ بات درست ہے کہ انسان نے بے شمار جانداروں کو ناپید (Extinct)کردیا ہے‘ لیکن اب ناپید ہو جانے والے کئی جانوروں کی نسلیں دوبارہ پیدا کی جائیں گی ۔ برف میں ان کے جمے ہوئے اجسام سے ایک خلیہ لیا جائے گا اور کلوننگ ہو گی ‘ جن ماحول دشمن سرگرمیوں میں انسان آج مشغول ہے ‘ ان کی بنیاد اسی روز رکھ دی گئی تھی ‘ جب آدمی کے دماغ پہ تجلّی ٔ عقل کا نزول ہوا تھا۔ جب سات ارب ذہین جانور ایک سیارے پہ آباد ہوں تو لازماًاپنے لیے سہولیات تخلیق کریں گے ۔ کوئی جنگلات اور غاروں میں رہناپسند کرے گااور نہ ان کی ضروریات روایتی طریقوں سے پوری ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے صنعتی انقلاب رونما ہوا ‘ تیزی سے پروان چڑھنے والے جانور اور فصلیں ایجاد ہوئیں ۔
فرض کریں کہ کوئی حادثہ رونما نہیں ہوتا اور نہ کوئی ایٹمی جنگ۔ فرض کرو‘ قیامت نازل نہیں ہوتی ‘ تو بھی کب تک ہم ایک چھوٹے سے سیارے کے وسائل نگلتے رہیں گے ؟ ایک دن سب یہ سب ختم ہو جائے گا۔ تیل اور پانی کے کنویں سوکھ جائیں گے ۔ کوئلہ ختم ہو گا۔ زیر زمین ساری مفید دھاتیں بھی ۔ دو صدیاں پہلے کل انسانی آبادی ایک ارب تھی ۔ آج سات ارب سے بڑھ چکی۔انسان اپنی نسل بہت تیزی سے بڑھا رہا ہے ۔ آخر کو سب ختم ہو جانا ہے ۔ ایک عظیم منصوبہ ساز اپنے سپر کمپیوٹر کو ہدایات جاری کر چکا ہے ۔ اب‘ تو وہ صرف معاملے کو پایہ ٔ تکمیل تک پہنچتا ہوا(Execution)دیکھ رہا ہے ۔ اپنے رخِ پر نور پہ حجاب ڈالے ‘ وہ عقل اور جبلّت کی جنگ دیکھ رہا ہے ۔وہ جانچ رہا ہے کہ ذہانت کے حتمی امتحان میں کون کامیاب ہو تاہے ۔ باقی سب تو کھیل تماشا ہے ۔ انسان کو شاید زمین کی بجائے اپنی فکر کرنی چاہیے ۔
کسی باریک بین کے تخلیق کردہ نقشے پر انسانیت کی عمارت اُٹھائی گئی ہے ۔جس ذات نے زمین کے نیچے انسان کے لیے کوئلے‘ تیل اور گیس کے ذخائر رکھے تھے‘ کیا اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ انسان انہیں نکال کر جلائے گااور کرّہ ٔارض کا درجہ ٔ حرارت بڑھتا چلا جائے گا۔جو ذات انسان کو عقل سے نواز رہی تھی ‘ کیا اسے علم نہیں تھا کہ انسان ایٹم بم بنا لے گا ۔ اسے معلوم تھا‘ لیکن اسے کوئی فر ق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ اب ایک حادثہ ہونا ہے اور زمین سے زندگی ہی ختم ہوجانی ہے اور وہ وقت آچکا ہے۔ نہ رہے گا بانس ‘ نہ بجے گی بانسری ۔
یہ سب حقائق درست ہیں‘ لیکن کیا حادثے کے خوف سے آدمی خود کشی کر لے ؟ جس گھر میں ہمیں رہنا ہے ‘روزاس کی اینٹیں کیوں اکھاڑی جائیں ؟