"FBC" (space) message & send to 7575

رگوں میں اور نروز میں

جب ایک بچہ تیرنا سیکھتا ہے اور ایک سائنسدان جب یورینیم کی افزودگی میں مہارت حاصل کرتا ہے ۔ جب ایک بچہ اپنی پہلی شرارت سیکھتاہے تو جسمانی طور پر اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ یہ دماغ ہے‘ جو بدلتا رہتاہے ۔ علم و ہنر اور مہارت میں اضافہ ‘دماغی خلیات میں نئے روابط (Connections)اور نئی ترتیب(Pattern)کا نتیجہ ہوتاہے ۔یہی کنکشن اور یہی پیٹرن ایک آدمی کو عبدالستار ایدھی جیسا عظیم شخص اور دوسرے کو منشیات کا بدنامِ زمانہ سوداگر بنا دیتے ہیں ۔ دماغ میں موجود یہی کنکشن اور یہی پیٹرن قوم کی ہڈیاں چچوڑنے والے سیاستدان پیدا کرتے ہیں‘ لیکن انہی کے بطن سے اقبالؔ اور قائد ؒ جنم لیتے ہیں۔ 
ایک چیز ہوتی ہے ‘ جسے stimulus کہتے ہیں ۔ stimulusکا مطلب ہے کہ دماغ کو ردّعمل کے لیے اکسا دینے والی چیز ۔ آپ چند دن کے بچّے کے پاس آوازوں اور روشنیوں والا ایک کھلونا لے جائیں ‘ وہ بے تاب ہو کر ہاتھ پائوں مارنا شروع کر دے گا۔ اس دوران اس کی آنکھوں ا ور کانوں سے معلومات دماغ تک جائیں گی اور دماغ پھرمناسب ردّعمل کا فیصلہ کرے گا ۔جب ماں اس سے بات کرتی ہے تو یہ ایک اور stimulusہوتا ہے۔ stimulusکی مدد سے ہی دماغ سیکھتا ہے ‘ اگر آپ بچّے کو دنیا سے بچانے کے لیے ایک کمرے میں بند کر دیں تو وہ کچھ بھی نہیں سیکھ پائے گا ۔اس کے دماغ میں خلیات کے درمیان کنکشن ہی نہیں بنیں گے ۔ تاریخ میں ایسے بچوں کا ذکر موجود ہے ‘ جنہیں ذہنی مرض میں مبتلا ماں باپ نے تنہاقید رکھا تو وہ سیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے تھے ۔ 
دماغ کاسہ ٔ سر تک محدود نہیں ۔ وہ ریڑھ کی ہڈی سے منسلک ہے ‘ جس سے نکلنے والی باریک تاریں (Nerves)جسم کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ رابطے کے اسی نظام کے ذریعے دماغ دل کو دھڑکنے کا حکم دیتاہے اور یہی پائوں میں چبھنے والے کانٹے کی تکلیف کا احساس دماغ تک پہنچاتاہے ۔اسی کی مدد سے ہم لقمہ توڑتے اور اسی کے ذریعے قدم اٹھاتے ہیں ۔ دماغ ‘ ریڑھ کی ہڈی اور اس سے منسلک نروز کے اس نیٹ ورک کو مجموعی طور پر اعصابی نظام (Nervous System)کہا جاتاہے ۔یہی جاندار اور بے جان اشیاء کے درمیان بنیادی فرق ہے ۔رحمِ مادر میں سب سے پہلے یہی جنم لیتاہے ۔ یہ عمارت کھربوں عصبی خلیات کی اینٹوں پہ مشتمل ہے ۔
عظیم سائنسدان کارل ساگان نے کہا تھا: ''روز مرّہ کی زندگی گزارتے ہوئے ہم کائنات کے بارے میں کچھ بھی جان نہیں پاتے ۔مثلاً زندگی کی بنیاد بننے والا وہ عمل ‘ جس کے دوران سورج روشنی(اور حرارت) پیدا کرتاہے ۔مثلاً وہ کششِ ثقل ‘ جس نے ہمیں زمین سے جوڑ رکھاہے اور جس کی عدم موجودگی میں ہم خلا میں محو پرواز ہوتے اور مثلاًہمارے اجسام کوتشکیل دینے والے وہ ایٹم ‘ جن کے استحکام پہ ہماری زندگیوں کا دارومدار ہے‘‘۔
کائنات کجا‘ روزمرّہ کے امور انجام دیتے ہوئے‘ خود اپنے بارے میں بھی ہم لاعلم رہتے ہیں ۔ دیر تک سیدھے کھڑے رہنا ہماری نگاہ میں کوئی بڑا کام نہیں جب کہ اس دوران متعلقہ جوڑ‘ مسلز‘ پائوں کی جلد اور توازن برقرار رکھنے والے اعضا مسلسل پیغام رسانی میں مصروف ہوتے ہیں ۔ اس دوران ان گنت پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے۔سوتے جاگتے‘ اٹھتے بیٹھتے ‘ سفر میں اور دوستوں سے گپ شپ کرتے‘ یہ پیغام رسانی جاری رہتی ہے ۔رکتی تب ہے ‘ جب آدمی مرجاتاہے ۔ 
ماں کی ممتااور باپ کی محبت یہ سب ایک خالص سائنسی عمل کا نتیجہ ہے ۔ جی ہاں‘ایک عصبی خلیے کا دوسرے سے کامیاب رابطہ ۔ Transfer of signal from one nerve cell to the other۔مثبت اورمنفی ‘ یہی رابطہ ہر قسم کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل کی بنیاد ہوتا ہے ۔ یہی انسانی تاریخ کی عظیم الشان کامیابیوں کے پس منظر میں روپوش ہے ۔
ایک عصبی خلیے سے دوسرے تک برقی اور کیمیائی پیغام کی درست منتقلی کے بغیر ہم سانس تک لے نہیں سکتے ۔ اس میں خلل سے انسان ایک عضوِ معطل ‘ اپنے اہل و عیال پہ ایک بوجھ بن کے رہ جاتاہے ۔اسے فالج ہو جاتاہے ۔اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے ۔ وہ مرگی‘ ڈیمنشیا اور دوسری دماغی بیماریوں کا شکار بن جاتاہے ۔وہ دوسروں کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے ۔ 
پشاور سے ایک افسوسناک اطلاع ملی۔ کار حادثے میں میرے دوست غلام صدیق کے بھائی کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے ۔ ایک کاروباری شخص عمر بھر کے لیے معذور ہو چکا ہے‘ لیکن بے بسی اور سمجھوتہ نہیں ‘زندگی جدوجہد ہے ۔دنیا میں کئی ایسے معذور افراد گزرے ہیں‘ جو تاریخی کردار کے حامل تھے ۔ آج بھی دنیا میں ایسے بے شمار معذور افراد موجود ہیں ‘ جو مکمل طور پر نارمل اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔ 
انسانی جسم تہہ در تہہ پیچیدہ توازنوں پہ استوار ہے ۔کیا کبھی آپ نے محسوس کیا کہ زندگی کو برقرار رکھنے ‘ دل دھڑکانے‘ پھیپھڑوں اور معدے کو حرکت دینے کی خاطر دماغ کتنے تسلسل سے احکامات جاری کرتا رہتا ہے ۔ صلہ مانگنا درکنار ‘ وہ تو کبھی ان احسانات کا احساس تک ہمیں ہونے نہیں دیتا۔کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کون سی ہستی ہے‘ جو دوڑ لگاتے ہی ہمارے دل اور پھیپھڑوں کو زیادہ تیزی‘ زیادہ قوّت سے متحرک کر دیتی ہے ۔ اس لیے کہ مشقت کے لیے درکار زیادہ توانائی جسم کو ملتی رہے ۔ و نحن اقرب علیہ من حبل الورید۔'' اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں ‘‘۔ جی ہاں ‘ خدائے بزرگ و برتر ہمارے جسم ‘ ہماری رگوں اور ہماری nervesمیں دوڑ رہا ہے ‘ وہ کرنٹ کی صورت میں ایک دماغی خلیے سے دوسرے میں منتقل ہوتاہے ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ جن عناصر سے ہمارے جسم بنے ہیں وہ ماضی میں فنا ہو جانے والے ستاروں میں پیدا ہوئے تھے اور وہ ستارے کیسے تخلیق ہوئے تھے ؟ اللہ نور السموات والارض۔'' اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے‘‘ ۔ یہ کائنات خدا نے اپنے نور سے پیدا کی ہے ۔ اس پس منظر میں یہ حیرت کی بات نہیں کہ پہلے ہی سے وہ جانتاہے کہ ہم کیا کرنے والے ہیں ۔اس پس منظر میں یہ حیرت کی بات نہیں‘ وہ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ۔ وہ نا صرف خون میں دوڑ رہا ہے ‘بلکہ نروز میں بھی ۔ میں دو لوگوں کو جانتا ہوں ''اللہ نور السموات والارض‘‘ کی تسبیح سے جو لا علاج بیماریوں سے شفایاب ہوئے ۔ 
انسان اگر اپنے اندر جھانکے تو اسے حیرتوں کا جہاں ملے گا۔ اپنے اندر جھانکیے‘ آپ کو خدا ملے گا۔من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔'' جس نے خود کو پہچان لیا‘ اس نے اپنے خد اکو پہچان لیا‘‘۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں ‘ جو دیانتداری کے ساتھ اپنے جسم کا سائنسی جائزہ لے ‘ وہ خداکا منکر ہو ہی نہیں سکتا۔
زندگی کچھ اورہے ‘ مگرنظر کچھ اورآتی ہے ۔ خوردبینی سطح پہ اترے بغیر آدمی کائنات کو سمجھ سکتاہے اور نہ خود کو۔سائنسدان بھی یہی کہتے ہیں ‘لیکن خوردبینی سطح پر کون اترتا ہے ۔ آدمی تو ہاتھ میں لٹھ لے کر کھڑا ہے کہ کسی کا جانور میرے کھیت میں گھسے تو اسے جان سے مار دوں ‘ لیکن آپ خوردبینی سطح پر اتر سکتے ہیں ۔ آپ اپنے اندر جھانک سکتے ہیں ‘ اگر آپ واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں تو !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں