"FBC" (space) message & send to 7575

ہماری زمین

ایک بار کیمبرج یورنیورسٹی میں نیوٹن کے جانشین ‘ عظیم طبعیات اور فلکیات دان سٹیفن ہاکنگ سے انسانیت کے مستقبل پر سوال کیا گیا۔سر سے پائوں تک ایک مفلوج زندگی گزارنے والے پروفیسرہاکنگ کو اس کی ذاتی محرومیوں نے مایوس نہ کیا تھا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ معذوری کی وجہ سے اس نے اپنا تمام وقت کائنات پر غوروفکر میں صرف کیا۔ ایک ایسی تھیوری کی تلاش میں لگا رہا جو اس دنیا کی مکمل تشریح کر سکے۔تضاد دیکھیے کہ اپنی اس جستجو میں اس نے خدا کے وجود کو زیادہ اہمیت نہ دی‘حالانکہ یہ اس تحقیق کا ایک بنیادی سوال تھا۔پروفیسر نے اس الہامی پیغام کا سائنسی بنیادوں پر جائزہ نہیں لیا جو حضرت موسیٰ ؑاور حضرت عیسیٰ ؑ سے ہوتا ہوا حضرت محمد ﷺتک پہنچا۔ اس کی بجائے کبھی اپنے لیکچر کے آغاز پر وہ کسی متروک افریقی یا یونانی مذہب پر ایک استہزائی نگاہ دوڑاتا ‘ کبھی خود سے یہ سوا ل کہ کیا (اس قدر ترقی یافتہ ہونے کے بعد )انسان کو اب خدا کی ضرورت باقی ہے بھی یا نہیں ؟ اور کبھی یہ اعلان کہ خدا اپنی بنائی ہوئی کائنات میں مداخلت نہیں کرتابلکہ وہ فزکس اور ریاضی کے قوانین کے تحت خودبخود رواں رہتی ہے ۔ایک بار اس نے یہ کہا کہ جس بگ بینگ کی کوکھ سے کائنات نے جنم لیا تھا‘ اس کے لیے خدا کا ہونا ضروری نہیں ۔ ایک بار اس نے یہ کہا کہ بگ بینگ سے پہلے وقت (Time)کا کوئی وجود تھا ہی نہیں تو خدا کے پاس وہ وقت کہاں سے آیا ‘ جس میں کائنات تخلیق کی جاتی؟
ایسے میں حیرت سے میں اپنا جائزہ لیتا ہوں ۔ بڑی ایجادات ایک طرف‘دوسرے جانور تو انسانی دستبرد سے محفوظ رہنے کے لیے پتھر یا ہڈیوں کا ایک موزوں ہتھیار بھی بنا نہ سکے ۔ انسان جانوروں میں سے ایک جانور ہے ‘ جس کا سائنسی نام ہومو سیپین (Homo sapien)ہے ۔ کیا عالمِ سائنس کے درخشندہ ستاروں نے کبھی اس بات کا سراغ لگانے کی کوشش کی کہ آدمی کو کرّہ ٔارض پہ غلبہ دلانے والی عقل کا منبع کیا ہے ؟ یہ بھی کہ کوئی دوسرا جانور اس ذہانت کا ایک قطرہ تک کیوں نہ پا سکا؟ایسا لگتاہے کہ انسانی عقل زمین نہیں ‘ آسمانوں کی شے ہے ۔ جہاں تک لوکل سمجھ بوجھ کا تعلق ہے ‘ تو وہ دوسرے جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے ۔ آنکھ‘ کان ‘ جلد اور زبان سے ڈیٹا ان کے دماغ تک جاتا ہے ۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ ایک خطرناک چیز سے اپنی زندگی کی حفاظت کیسے کرنا ہے‘ بلکہ اس ضمن میں تو وہ انسان سے کہیں زیادہ سمارٹ ہیں ۔ ایمانداری سے بات کی جائے تو میری نظر میں عقلِ انسان خدا کے وجود کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔اسے پرکھے بغیر کائنات کی تشریح ممکن نہیں ۔ اس بنیادی سوال کو نظر انداز کر کے دنیا کا سب سے عالم فاضل آدمی بھی ٹامک ٹوئیاں ہی مار سکتاہے ۔ 
کائنات کو سمجھنے کے حوالے سے بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں دو شاندار نظریات پیش کیے گئے ۔ آئن سٹائن کی جنرل تھیوری آف ریلیٹی ویٹی (General Theory of Relativity)اور کوانٹم مکینکس۔ ایک کھرب ہا کھرب میل اور دوسری نادیدہ ایٹم کے ایک ذرّے کی سطح پر کائنات کی وضاحت کرتی ہے‘ لیکن ذرا ٹھہریے ۔ سوال تو یہ تھا کہ زمین پر انسانیت کا مستقبل کیا ہے ؟
تو سٹیفن ہاکنگ نے یہ کہا ''جنگوں ‘ وسائل کے خاتمے اور آبادی میں تیز رفتاراضافے سے عالمِ انسانیت کو اپنی تاریخ کے شدید ترین چیلنج کا سامنا ہے‘‘۔ اس نے یہ کہا کہ بات اب ہزاروں اور لاکھوں سال کی نہیں ۔اگلے سو سال کے اندر اندر ہمیں کرّہ ٔ ارض سے باہر نئی پناہ گاہیں ڈھونڈنا ہوں گی۔ (ورنہ انسان ایک دن صفحہ ٔ ہستی سے مٹ جائے گا )۔ اگر آپ غور کریں تو اپنی تمام ترذہانت کے باوجود انسان حیاتیاتی طور پر تو دوسرے جانوروں جیسا ہی ہے ۔ آج اگر ایک بڑا دمدار ستارہ زمین پہ آگرتا ہے یا بڑے آتش فشاں پھٹ پڑتے ہیں یا کسی غلطی سے ایٹم بم پھٹ پڑتے ہیں تو انسان اپنی تمام تر ذہانت کے باوجود ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ 
پروفیسر ہاکنگ کے خیال میں انسانیت کی بقا کا سارا دارومدار اسی بات پر تھا کہ ہم نئی زمینیں ڈھونڈیں‘ دوسرے سیاروں کا رخ کریں ۔ ان سات ارب ذہین جانور وں کے لیے یہ زمین تنگ پڑتی جا رہی ہے جو ہر وقت بچّے جنتے رہتے ہیں ۔ اس کے وسائل ختم ہو تے جا رہے ہیں ۔ سٹیفن ہاکنگ کی بات اپنی جگہ درست ہوگی‘ لیکن اگر کائناتی پیمانوں کو انسان دیکھے تو لرز اٹھتا ہے ۔ وسائل اور وقت کے حساب سے انسان کا دامن خالی ہے ۔ انسانیت کی کل عمر تین لاکھ سال ہے ۔ ستاروں کی قریب ترین جوڑی الفا سینٹوری اور ان کے کسی قابلِ رہائش سیارے تک پہنچنے کے لیے موجودہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ہمیں 80ہزار سال درکار ہیں ۔ ہمارے پاس اتنا وقت ہے اور نہ توانائی ۔یوں بھی سفر کے لیے خلاکوئی خوشگوار راستہ نہیں ۔ انسانی جسم پر اس کے بے حد نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ آدمی کا جسم سکڑ کے رہ جاتاہے ‘حتیٰ کہ وہ بانجھ ہو سکتاہے اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ‘ بانجھ جانور کی نسل ختم ہو جاتی ہے ۔ 
عافیت نظامِ شمسی میں ہے‘ لیکن صرف اسی سیارے میں ‘ جہاں اس وقت ہم قیام پذیر ہیں۔ یہاں چار ارب سال میں وہ نظام تشکیل دیے گئے ہیں ‘ جو اسے ایک قابلِ رہائش سیارہ بناتے ہیں۔ جسم کے ہر خلیے کو ہر وقت آکسیجن چاہیے ۔ا ندازہ اس سے لگائیے کہ دماغ کو خون کی روانی متاثر ہو اور وہ آکسیجن سے محروم ہو جائے تو کچھ دیر میں آدمی فالج ‘ کومے یا موت کا شکار ہو جاتاہے ۔ سورج کی روشنی زندگی کو جنم ضرور دیتی ہے‘ لیکن وہ سخت نقصان دہ بھی ہو سکتی ہے ۔ ہماری بے علمی میں دو اَن دیکھی حفاظتی تہیں مسلسل اسے چھان رہی ہیں ۔ نہایت احتیاط سے اور صرف وہ شعاعیں ہم پر ڈالی جاتی ہیں ‘ ہمارا جسم جنہیں سہہ سکتاہے ۔
اس زمین میں اناج سے بھرپور پودے اُگتے ہیں ۔ مریخ سورج سے مناسب فاصلے پر ہے‘ لیکن وہاں توایک کانٹے دار پودا بھی نہیں اُگتا ۔ کرّہ ٔ ارض کی کششِ ثقل نہایت موزوں ہے ۔ ایک کم یا زیادہ کشش والے سیارے پر زندگی کس قدر تکلیف دہ ہو سکتی ہے ‘ انسان کو اس کا اندازہ نہیں۔ ہم ایک ایسے مقدس سیارے میں رہائش پذیر ہیں ‘ جہاں آسمان سے بارش برستی اور زندگی کو پروان چڑھاتی ہے ۔دریا زمین کے اوپر بہتے ہیں اور اس کے نیچے بھی۔ 
کائنات وسیع ہے ‘ بہت وسیع۔ صرف ہماری کہکشاں میں ہر سال پانچ سے دس نئے سورج جنم لیتے ہیں ۔ ان میں سے کئی کے جلو میں نئی زمینیں ہوتی ہیں لیکن انسان جائے تو جائے کہاں ؟ اتنا وقت ‘ اتنا سرمایہ اور اتنی توانائی کہاں سے لائے ؟ اور پھر انسان کی یہ چار دن کی زندگی اور چھوٹی چھوٹی خواہشات ؟ 
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن 
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
انسان بڑا ہو گیا ہے۔بڑی بڑی باتیں کرنے لگا ہے۔جینیٹک انجینئرنگ ‘ نینو ٹیکنالوجی ‘ ایٹمی توانائی اور تھری ڈی پرنٹنگ...یہ سب تو خوش آئند اور مبارک‘ لیکن اتنی مہلت انسان کے پاس کہاں کہ وہ کسی اور زمین پر منتقل ہو سکے ۔ انسان تو ہمیشہ اسی زمین میں ٹھہر کر کائنات میں جھانکتا رہے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں