پچھلے پچاس ہزار سال میں ہوموسیپینز (انسان ) نے کس قدر ترقی کر لی ہے ۔انسان میزائل میں بیٹھ کر چاند پر اتر چکا ہے ۔و ہ لوہے کے انجن میں تیل جلا کر ہوا میں اڑتا ہے۔ آج کا انسان بادلوں سے بلند عمارتوں میں رہتا ہے ۔ اسی ترقی کا نتیجہ ہے کہ ہم دوسرے جانوروں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں‘ لیکن یہ ساری انسانی عظمت اس وقت کہاں چلی جاتی ہے ‘ جب انسان کی موت کا وقت آتا ہے ۔ موت آتی ہے تو انسان جانوروں ہی کی طرح انتہائی بے بس اور حقیر دکھائی دیتا ہے ۔موت آتی ہے تواپنی تمام تر عظمت کے باوجود انسان ایک حقیر جرثومے کی طرح مر جاتا ہے ۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ موت اگر انسانی فرعونیت کو نگلنے کے لیے موجود نہ ہوتی تو انسان اس دنیا کا کیا حال کرتا۔ چند دہائیوں پر مشتمل اپنی مختصر سی زندگی میں بھی وہ اس زمین کو برباد کرنے میں کوئی کسر چھوڑتا تو نہیں ۔ مرتے دم تک ایک دوسرے پر آگ اور لوہے کی بارش کرتا رہتا ہے ۔
خیر موت آتی ہے تو سانپ اور انسان ایک برابر ہو جاتے ہیں ۔ موت کا کوئی علاج کسی زندہ چیز کے پاس موجود نہیں ۔ حیات کبھی لافانی نہیں ہو سکتی۔
کورونا وائرس کی آمد کے بعد آج ایک عجیب و غریب صورتِ حال طاری ہے ۔کائنا ت کی تسخیر پہ تلے ہوئے آدمی کی عظمت روپوش ہو چکی ہے ۔ سب ایک دوسرے کو شک بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔کوئی ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ کائنات کی تسخیر پہ تلا ہوا انسان کافی اوپر پہنچ گیا تھاکہ اچانک کسی نے سیڑھی کھینچ لی ہے اور وہ ہوا میں معلق ہو گیا ہے۔
خانہ کعبہ کے صحن میں طواف معطل کر دیا گیا‘جو کبھی کسی حال میں نہیں رکتا۔ بالائی منزل پر طواف البتہ اب بھی جاری ہے ۔ وبائی بیماریاں کس طرح ہنستے بستے شہروں کو اجاڑکے رکھ دیتی ہیں ‘ یہ آدمی سے بہتر کون جانتا ہے ۔ چھٹی صدی عیسویں میں جب طاعون پھیلنا شروع ہوا تودو صدیوں میں وہ دس کروڑ انسانوں کو نگل گیا تھا۔ایڈز پچھلے ساٹھ سال میں چار کروڑ انسانوں کی جان لے چکا ہے ۔ بیسویں صدی میں چیچک تیس کروڑ ہلاکتوں کا سبب بنا تھا‘ پھر عالمی ادارہ ٔ صحت کے تحت دنیا بھر میں اس کی ویکسی نیشن ہوئی ۔بالکل اسی طرح جیسے کہ آج پوری دنیا میں پولیو کی ویکسی نیشن ہوتی ہے۔پاکستانیوں کی قابلِ ذکر تعداد آج بھی جس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے ۔ وہ کہتے ہیں '' صرف پولیو ہی کیوں ؟ ‘‘۔
بیسویں صدی کے وسط میں امریکی ہسپتال پولیو کے شکار بچوں سے بھرے پڑے تھے ۔ انہیں لوہے کے سانچوں میں بند کر دیا جاتا تھا کہ ہڈیاں نہ مڑیں ۔ میں چھٹی ساتویں جماعت میں تھا‘ جب ایک دوست کی زبانی پہلی بار یہ افواہ سنی تھی کہ حکومت پولیو کے قطروں میں ایسی دوا ملا چکی ہے ‘ جس کو پینے والے بچّے پیدا کرنے کے قابل نہ رہیں گے ۔ آج وہ سب طالب علم چھ چھ بچّے پیدا کر چکے ہیں ۔پولیو ویکسی نیشن کو آج بھی اتنے ہی شک سے دیکھا جاتا ہے ۔
زندگی کی مختلف اقسام ایک دوسرے کو ہلاک کر دیتی ہیں ۔انسان درندوں پر توغالب ہے ‘لیکن جب نظر نہ آنے والی بلائوں سے سامنا ہو تو وہ بے بس ساہو کر رہ جاتاہے۔ کورونا وائرس ایسی ہی ایک خوں آشام ڈائن ہے‘ جو چینیوں کا خون پینے کے بعد اب دنیا بھر کے ممالک میں اپنے پائوں پھیلارہی ہے ۔
پولیو اور ڈینگی کو ہم بخوبی جانتے ہیں ۔ کورونا ابھی اجنبی ہے ۔پولیو‘ ایڈز ‘ ڈینگی ‘کانگو‘ ایبولا اورکورونا‘یہ سب نظر نہ آنے والی ان نیم جاندار مخلوقات کی بدولت ہیں ‘ جو وائرس کہلاتی ہیں ۔ وائرس ایک بڑی عجیب شے ہے ۔یہ ایک نیم زندہ چیز ہے ۔ انسانی تاریخ کے اوراق پلٹیے تو جہاں کہیں اس کا ذکر ہوگا‘ ساتھ آپ کو خون کے دھبّے ملیں گے ۔ ایک وقت تھا کہ دنیا میں سالانہ پچاس لاکھ افراد پولیو کے ہاتھوں ہلاک یا معذور ہو رہے تھے ۔ عام طور پر یہ ریڑھ کی ہڈی اور اس سے نکل کر پورے جسم میں پھیلنے والی تاروں (Nerves)کے اس نظام کو نقصان پہنچاتاہے ‘ جس کے ذریعے ہم حرکت کرتے ہیں ‘لہٰذا معذوری کا سبب بنتاہے ۔ دماـغ کا نچلا حصہ سانس لینے اور دل دھڑکانے جیسے وہ بنیادی احکامات جاری کرتاہے ‘چند لمحات بھی زندگی جن کے بغیر جی نہیں سکتی ۔
اس نظام میں پولیو کی مداخلت کا مطلب موت تھااور 1950ء کی دہائی میں موت کی یہ قسم بہت سستی تھی ‘پھر عالمی کوششوں سے ویکسین کی دو ایسی اقسام تیار کی گئیں ‘ جنہوں نے کرّہ ٔ ارض سے پولیو کاتقریباً خاتمہ کردیا۔
سو کلو کے جسم سے مچھر ذرا سا خون چوس لے تو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ لیکن اگر اس حقیر مخلوق کے جبڑوں میں ڈینگی وائرس موجود ہو تو آپ کو بے حد تکلیف سے گزرنا ہوگا۔ خیر ڈینگی میں شرح اموات بے حد کم ہے ۔ ایڈز اور ایبولا کے شکار بدقسمت ہوتے ہیں ۔ ایبولا میں موت کا خطرہ 90فیصد تک ہوتاہے ۔ ایڈز کے پھیلائو میں سب سے بڑی وجہ قریبی جسمانی تعلقات ہیں ۔ ایبولا تو چھوت کی بیماری ہے ۔ باآسانی ایک سے دوسرے آدمی میں منتقل ہوتی ہے ۔ اور تو اور اس وائرس کا بڑا شکار معالج او ر نرسیں ہیں ۔ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ خلیے میں خرابی پیدا کرتاہے ۔ اسے اس بات پہ مجبور کرتاہے کہ وہ خود ہی اس وائرس کو ہزاروں کی تعداد میں جنم دینا شروع کر دے۔
بہت سی بیماریاں وائرس نہیں بیکٹیریا پھیلاتے ہیں۔ ٹائی فائیڈ‘ ملیریااور ٹی بی لیکن وائرس بڑی منحوس شے ہے ۔ یہ تو بیکٹیریا کے اندر گھس کر اس کی زندگی بھی عذاب کر ڈالتاہے ۔
انسان اور ہاتھی گھوڑوں کے علاوہ ‘ پھولوں او ردرختوں کے علاوہ ‘ خداکے ان دیکھے ہاتھ نے نادیدہ اشیا بھی تخلیق کی ہیں ۔ مثبت اور منفی ‘ ہماری زندگیوں میں وہ دونوں اثرات رکھتی ہیں ۔ دودھ کو دہی میں یہی بدلتی ہیں ۔ یہی مردہ اجسام کو نگلتی چلی جاتی اور انہیں بے حد بدبودار بنا دیتی ہیں ۔
جہاں تک کورونا کا تعلق ہے ‘ مجھے معلوم ہے کہ اجتماعی انسانی حکمت اس کا علاج بھی ڈھونڈ نکالے گی اور یہ برسوں نہیں مہینوں کی بات ہے ۔میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وائرس سیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ خود کو زیادہ بہتر بناتے اور نت نئی شکلیں اختیار کر کے دوبارہ حملہ آور ہوتے ہیں ۔ ہماری اور ان کی یہ جنگ ہمیشہ جاری رہے گی ۔
اگر ایک ایسا وائرس دنیا میں پیدا ہوتاہے ‘ جو بہت تیزی کے ساتھ ایک آدمی سے دوسرے کو منتقل ہوتاہے ‘ جو دیکھتے ہی دیکھتے انسان کی موت کا سبب بن جاتا ہے تو اس کا نتیجہ دنیا سے زندگی کے خاتمے کی صورت میں نکل سکتاہے ۔
آج انسان اس قابل ہے کہ وہ نادیدہ جراثیم کو دیکھ سکے ۔ ویکسین تیار کرنے میں انسان ماہر ہو چکا ہے‘ لیکن وائرس نے ایک اور بہت ضروری کام کرنا ہے ۔ ایک وقت آئے گا ‘ جب قحط کے ہنگام یاجوج ماجوج کی صورت میں ایک ایسی قوم دنیا میں پھیلے گی‘ جو ہر زندہ شے کو کھا نا شروع کر دے گی ۔ اس کا خاتمہ پھر ایک وائرس ہی سے ہوگا۔ وہ کون سی مخلوق ہے ‘ جو ہر چیز کھا جاتی ہے ‘ یہ اب ہمیں معلوم ہی ہے ۔یہ وائرس اس قدر تیزی سے پھیلے گا کہ اس کی ویکسین تیار کرنے کا کسی کو موقع ہی نہیں ملے گا ۔