"FBC" (space) message & send to 7575

کورونا کا علاج… (1)

کورونا وائرس میں ہلاکتوں کی تعداد کیا ہے ؟ چین میں یہ دو فیصد ہے ۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ مسلمان ہوتے ‘ جنہوں نے چمگادڑ سے یہ تحفہ لے کر انسانیت کو دیا ہوتا‘ تو دنیا کتنی لعن طعن کرتی ۔ جنہوں نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے ‘ الٹا ان کی تحسین ہو رہی ہے کہ کیسے قابو پایااس وائرس پر ۔ 
جس کی موت کا وقت آچکا ہے ‘ مرنا تو اس نے ہے ہی ۔ اگر کورونا سے نہیں مرے گا تو زلزلے میں مر جائے گا‘ ایکسیڈنٹ میں مر جائے گا‘ لیکن کورونا وائرس کے آنے کے بعد طبی میدان میں جو کچھ ہو رہا ہے ‘ میں اس سے بہت محظوظ ہورہا ہوں ۔
اس دنیا میں انسان نے جب ہوش کی آنکھ کھولی تو اسے بہت سی باتوں کا علم نہیں تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ خوردبینی جاندار کیا ہوتے ہیں ۔نہ وہ زیادہ دور تک دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی وہ زیادہ چھوٹی چیزوں کو دیکھ سکتا تھا۔اسے اپنے جسم کے اندر قدرتی مدافعتی نظام (امیون سسٹم) کا بھی علم نہیں تھا ۔ آہستہ آہستہ اسے معلوم ہوا کہ جراثیم کیا ہوتے ہیں ۔ یہ بھی انسان کی طرح زندہ ہوتے ہیں ‘ باقاعدہ اپنی افزائشِ نسل کرتے ہیں ۔آہستہ آہستہ انسان کو علم ہوا کہ خدا نے ہر جاندار کے جسم میں امیون سسٹم رکھا ہے ‘ جو کہ جراثیم سے لڑتا ہے ۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ طاعون اور پولیو جیسی وبائیں جراثیم کی وجہ سے پھیلتی ہیں ۔
دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان اپنی لیبارٹریز میں مصروفِ عمل ہو گئے۔ انہوں نے ان جراثیم کی شناخت کی۔ ان کا مطالعہ کیا ‘ پھر انہوں نے بیماری پھیلانے والے وائرس کے ٹکڑے کیے یا لیبارٹری میں انہیں ہلاک کیا‘ پھر ان مردہ اور ٹوٹے پھوٹے جراثیم کو انسانی جسم کے اندر داخل کیا۔ جسم کا امیون سسٹم فوراً بیدار ہوا ۔ اس نے ان نیم مردہ جراثیم کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کر لی۔ اب ‘جسم اس بیماری سے محفوظ ہو چکا تھا ۔ اس سارے عمل میں بہت احتیاط کی ضرورت تھی کہ سائنسدان اس دوران کہیں اپنے آپ کو ہی یہ بیماری نہ لگا بیٹھیں ‘ جس کی ویکسین تیار کرنے کی وہ کوشش کر رہے ہیں ۔ وہ سر سے پائوں تک حفاظتی لباس میں ملبوس ہوتے ہیں ۔ 
یہ ویکسین ہی تھی‘ جس نے پولیو جیسی بیماریوں کا خاتمہ کیا ‘ورنہ امریکہ آج لولے لنگڑوں پہ مشتمل ہوتا۔ پوری دنیا سے بڑے بڑے دماغوں نے ‘ بڑے بڑے سائنسدانوں نے دن رات تحقیق کی ۔ وائرس کو پہچانا ‘ نیم مردہ جراثیموں پر مشتمل ویکسین تیار کی اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے پولیو پر قابو پا لیا ہے۔
آج بھی دنیا بھر میں سائنسدان لیبارٹریوں میں تجربات کر رہے ہیں ۔ اس تحقیق کا مرکز یہ ہے کہ کورونا وائرس ہے کیا؟ لیبارٹریز میں سر سے پائوں تک حفاظتی لباس میں لپٹے ہوئے سائنسدان انتہائی جدید آلات کی مدد سے کورونا وائرس سے لڑ رہے ہیں ۔ ویکسین تیار ہونے میں کافی وقت لگتا ہے اور لگ رہا ہے ۔ 
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں ‘ جو پاکستان میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ وہ نیم حکیم یا طبیب ہیں ‘ جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی وائرس کی شکل تک نہیں دیکھی۔ جو انگریزی پڑھ نہیں سکتے ۔ اگر ان سے قدرتی مدافعاتی نظام پر ایک مضمون لکھنے کو کہا جائے‘ یہ کبھی نہ لکھ سکیں ۔ اور تو اور ‘ انہیں اناٹومی تک کا علم نہیں ہے ۔ اگر آپ ان سے کہیں کہ پنسل سے انسانی نظامِ انہضام ‘ جگر ‘ گردے ‘ پھیپھڑے ‘ بڑی شریانوں اور nerves کی شکل (Diagram) ہی Draw کر دیں‘ تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی نہیں کر سکیں گے ۔
اس سب کے باوجود ‘ وہ آپ کو لیبارٹریز میں انتہائی جدید آلات کے ساتھ مصروفِ عمل سائنسدانوں سے پہلے حل تلاش کر کے دیں گے ۔ یہ وہ لوگ ہیں ‘ جنہوں نے مر مر کے میٹرک کیا ۔ ایف ایس سی میں فیل ہو گئے۔ ہر طرف سے ناکام ہونے کے بعد آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ گھر بیٹھے طب کا امتحان پاس کر کے لوگوں کا علاج کیا جائے ۔ ان کے پاس ہر بیماری کا علاج موجود ہے ۔ وہ ایک ہفتے میں کینسر کا علاج کر دیتے ہیں ۔ ایک خوراک سے پتّے کی پتھری باہر نکال دیتے ہیں ‘ جس کے نکلنے کا کوئی راستہ ہوتا بھی نہیں ۔ان کا طریقہ ٔ علاج یہ ہے کہ صبح سوا چھ بجے نہار منہ تین چھلانگیں لگائیں ۔ اس کے بعد امرود پہ اناردانہ چھڑ ک کر ‘خشخاش کے سات دانے چقندرپہ رگڑ کر ثابت نگل جائیں تو اور اس کے ساتھ ساتھ تین دن بیری کے پتوں کی دھونی دیں ‘تو کورونا وائرس نکل کے بھاگے گا ‘نیز مریض اگرغروبِ آفتاب کے وقت اپنے گھر کی چھت سے چھلانگ لگا دے تو اس کی آئندہ نسلیں بھی کورونا وائرس فری ہو جائیں گی ۔
ہومیو پیتھی والوں نے بھی علاج پیش کر دیا ہے اور ان ادویات سے ‘ جو پہلے ہی دوسری بیماریوں کے لیے زیرِ استعمال ہیں ۔ حرام ہے ‘ جو کسی نے اس وائرس کی شکل بھی دیکھ ہو بلکہ انہیں یہ بھی نہیں پتا کہ وائرس زندہ ہوتا ہے یا مردہ ؟ ان سے پوچھیں کہ کوئی بھی وائرس کیسے خلیے کو مجبور کرتاہے کہ اس کی ہزاروں کاپیاں تیار کرنا شروع کر دے ۔ آپ کو پتا ہے کہ یہ سب لوگ کیوں کامیاب ہیں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مرنا تو سو میں سے دو تین نے ہی ہے ۔ باقی اٹھانوے علاج کے نام پرلسوڑھے بھی کھاتے رہیں تو ٹھیک تو انہوں نے ہو ہی جانا ہے ۔ 
طرفہ تماشا یہ ہے کہ جنہیں یہ بھی نہیں پتا کہ امیون سسٹم ہے کیا ؟ وہ بیٹھے توڑ پہ توڑ نکال رہے ہیں ۔ نئی تھیوری ملاحظہ فرمائیں۔ کورونا وائرس ایک خود کش بمبار ہے ‘ جو کہ ایک عمارت میں داخل ہو کر لوگوں کو یرغمال بنا چکا ہے ۔ ایلو پیتھی ایک بندوق ہے ‘ جس سے جب فائر کیا جائے گا تو یرغمال بھی ساتھ مریں گے‘ لیکن ہومیو پیتھی ایک ایسا کمانڈو ہے ‘ جو یرغمال لوگوں کو کسی نہ کسی طرح ہتھیار پہنچا دے گا (جب ہومیو پیتھی یرغمالیوں کو توپ فراہم کر رہی ہوگی تو اس دوران خودکش بمبار کی آنکھوں میں موتیا اتر آئے گا ) اب یہ ہتھیار سے لیس یرغمال خود ہی کورونا سے لڑ لے گا۔ 
ایسی ایسی تھیوری ‘ ایسی ایسی منطق آپ کے سامنے پیش کی جائے گی کہ آپ انگشتِ بدنداں رہ جائیں گے ۔ اس طرح کی تھیوریز کا رد کوئی نہیں ۔ بچپن میں آپ نے شاید پی ٹی وی پر ایک ڈراما دیکھا ہو ‘ جس میں ایک کردار(جانو) جرمن انگریزی بولنے کا ہر مقابلہ جیت جایا کرتا تھا۔ جب آپ کے سامنے سارے جاہل بیٹھے ہو ں تو پھر آپ ایسی ایسی منطق پیش کر سکتے ہیں کہ جسے سن کر ایک حقیقی سائنسدان پہ فالج گر جائے ۔ میں خود تیس روپے گھنٹہ پر ایسی تھیوریز پیش کرنے کے لیے حاضر ہوں ۔ لطیفہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ تھیوریز سن کر فیصلہ صادر کرنا ہے ‘ انہیں میڈیکل سائنس کی الف ب کا بھی نہیں پتا۔ جہالت کے خریدار لاکھوں ہیں ۔ ان پڑھ عامل نہیں‘ ہر کہیں جسمانی و روحانی بیماریوں کا علاج کر رہے ۔
آپ کی پچاس کروڑ روپے کی گاڑی خراب ہو گئی ہے ۔ ایک بندہ آتا ہے ‘ وہ کہتاہے کہ میں ایک چیز انجن میں ڈالوں گا‘ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ جب اس سے سوالات کرتے ہیں تو اسے انجن کے کسی پرزے کا نام تک تو پتا نہیں ۔ اس کے باوجود وہ مُصر ہے کہ مجھے اس گاڑی کا علاج میرے استاد کی طرف سے ودیعت ہے اور میں ہی اسے ٹھیک کر سکتا ہوں ۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں