دنیا میں سب سے زیادہ لڑائی کس چیز پہ ہوتی ہے ؟ وسائل پر۔ کرّہ ٔ ارض کے شمال میں آرکٹک اور جنوبی چین کے جزیروں سمیت دنیا کے بڑے بڑے ممالک وسائل پہ لڑتے رہتے ہیں ۔ یہ وسائل کیا ہیں ؟ زمین اور اس کے اندر دفن معدنیات ۔ بڑے بڑے بادشاہ ان وسائل پر قبضے کی خاطر ایک دوسرے کی سرزمین پہ ہلّا بول دیتے ۔ دونوں طرف سے لاکھوں جنگجو قتل ہو جاتے اور دو میں سے ایک سلطان کی مراد بر آتی۔ایک دفعہ اخبار میں ایک لرزہ خیز داستان پڑھی ۔ بسترِ مرگ پہ ایک بوڑھے شخص نے اپنی بیس ایکڑ اور چند کنال پر مشتمل جائیداد اپنے چار بیٹوں میں تقسیم کرنا تھی ۔ سب کو اس نے پانچ پانچ ایکڑ دیے اور بڑے کو چند کنال اضافی ۔ کسی بھائی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ زمین تھی ہی کوڑیوں کے دام۔ وقت گزرتا گیا۔ اب بھائیوں کی اولادیں جوان ہوئیں ۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہاں حکومت نے ایک بڑی سڑک بنا دی ۔ یہ چند کنال اضافی زمین اس سڑک پرآگئی ۔ اس کی قیمت کروڑوں تک پہنچ گئی۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ خاندان کے سارے مرد ایک دوسرے کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے تھے‘ ان کا کہنا یہ تھا کہ جب ہر بھائی کو پانچ ایکڑ زمین ملی تو اس چند کنال اضافی زمین میں بھی ہر بھائی کو حصہ ملنا چاہیے تھا۔ بڑے بھائی کا کہنا یہ تھا کہ جب ہمارے والد نے یہ اضافی زمین میرے نام کی تو اس وقت تم لوگوں نے کوئی اعتراض نہ کیا ‘بلکہ بیس سال خاموش رہے ۔ اب ‘اعتراض کرو بھی تو کیافرق پڑتا ہے ۔
نتیجہ یہ ہوا کہ بندوقیں نکل آئیں ۔خاندان کے آدھے مردوں نے باقی آدھوں کو قتل کر دیا اور خود وہ پھانسی پانے کے لیے جیل چلے گئے ۔ زمین ادھر کی ادھر ہی رہ گئی ۔ زمین ادھر ہی رہ جاتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی وسائل ہیں ‘ سب اپنی جگہ پر موجود رہتے ہیں؛البتہ ان پر ملکیت کا دعویٰ کرنے والے بدلتے رہتے ہیں ۔ موہنجو داڑو اور ٹیکسلا کے کھنڈرات ‘ مصر میں فراعین کے مقبروں میں یہی داستان تو ہر جگہ درج ہے ‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس ساری صورتِ حال میں انسان کس جگہ کھڑا ہے ؟
یہاں میرا آپ سے ایک سوال ہے : آپ کو دنیا میں سے زیادہ محبت کس چیز سے ہے ؟ ہر بندہ جانتا ہے کہ اولاد سے ۔ کبھی کبھی میں اپنی بیٹی کے بارے میں سوچتا ہوں ۔ اس نے جو پہلالفظ بولنا سیکھا تھا ‘ وہ تھا ''با ‘‘ ۔ وہ بائی بائی کی بجائے ''با‘‘ کہتی تھی ۔ اس نے پہلا کام یہ کیا تھا کہ ناپسندیدہ شخص کو دیکھ کر ''با‘‘ کہتی تھی ‘ پھر اس نے محسوس کیا کہ ''با ‘‘ کہنے کا بھی لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اب اس نے یہ کام شروع کیا کہ ناپسندیدہ شخص کو دیکھتے ہی وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتی تھی ۔ ان ناپسندیدہ لوگوں میں تمام اجنبی شامل تھے ۔ دکان سے ٹافی لیکر جب ہم باہر نکلتے تو میں اس سے پوچھتا : کھول دوں ؟ وہ خاموش رہتی ۔ وقت گزرتا گیا۔ ایک دن جب ہم دکان سے باہر نکلے تو اس نے کہا '' کوکو ‘‘ (کھول دو )۔ میں اسے گھر کے قریب پارک میں لے جاتا ۔ ایک دن جب میں اسے واپس لے جا رہا تھا تو میں نے محسوس کیا کہ اس کے منہ سے کچھ آواز آرہی ہے ۔اس نے منہ میں ایک کنکر ڈال رکھا تھا اور وہ اس نے دانتوں سے ٹکرا رہا تھا۔ میں نے جب اس کا منہ دیکھنے کی کوشش کی تو میرے سینے سے چمٹ گئی ۔ اس نے مجھے اپنا منہ دیکھنے نہیں دیا۔ میں حیران ہو ا ۔ میری بیٹی اتنی بڑی ہو گئی تھی ۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ غلط کام کر رہی ہے اور اسے چھپنے کا بھی پتا تھا۔وہ خالہ کو خاکہ کہتی ہے ۔ اس نے ایک گانا بھی بنایا ہے : خاکہ آ اے ای او ۔اس گانے میں صرف ''خاکہ ‘‘ کا لفظ سمجھ آتا ہے ۔ کبھی کبھی مجھے وہ وقت یاد آتا ہے ‘ جب اس کے دانت نکلنا شروع ہوئے۔ سائیڈوالے نوکدار دانت دونوں طرف سے پہلے نکلے۔ سامنے صرف ایک چھوٹا سا دانت تھا اور یہ اکیلا دانت مجھے بہت خوبصورت لگتا تھا۔ اس نے میرا کام کرنا دو بھر کر دیا ۔ جیسے ہی وہ مجھے دیکھتی‘ لپک کر لیپ ٹاپ بند کر دیتی اور مجھے کھینچتی ہوئی باہر لے جاتی ۔ اس نے مجھے چکر دینا شروع کیا۔ جو چیز اسے پسند نہیں ہوتی‘ وہ مجھے دے دیتی ہے اور کہتی ہے ''دِس وائو‘‘۔
جب وہ کوئی خطرناک کام کرنے کی کوشش کرتی اور اسے روکا جاتا تو وہ کہتی ''آپی ‘‘ ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں بچی نہیں ہوں ۔ میں آپی ہوں ۔ سمجھدار ہوں ۔ اپنا نفع نقصان سمجھتی ہوں ‘لہٰذا مجھے اس کام سے نہ روکا جائے ‘ پھر جب وہ تھک جاتی تو کہتی ''بے بی ‘‘ مطلب یہ کہ اب میں بے بی ہوں ۔ مجھے گود میں لٹا کر لوری سنائی جائے ؛حالانکہ کچھ دیر پہلے ہی وہ خود کو آپی قرار دے رہی ہوتی تھی‘ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک دن ایسا نہیں آئے گا‘ جب اولاد کے سامنے ماں باپ مر جائیں گے یا ماں باپ کے سامنے اولاد مر جائے گی ؟ ایسا تو روزمرہ بنیادوں پر ہو رہا ہے ۔ انسان کو اپنی اولاد اپنی دولت سے کہیں زیادہ عزیز ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود وہ اولاد کو بے یارومددگار چھوڑ کر قبر میں اتر جاتا ہے ‘ اگر اولاد انسان کی اپنی ہوتی تو اس کے ساتھ ہی پیدا ہوتی اور اس کے ساتھ ہی مر جاتی ‘ لیکن ایسا نہیں ہوتا ۔ انسان اپنے پیاروں کو روتا چھوڑ کر مر جاتاہے ۔ ان کو بھی صبر آجاتا ہے ۔ چند برس بعد‘ جب وہ کسی نئی مسرت سے روشناس ہوتے ہیں ‘تو ان کے دل میں ہماری یاد کا ایک ذرّہ بھی تو باقی نہیں ہوتا ۔
انسان کی یہ ساری ذہانت اس کے کس کام کی ‘ اگر وہ eternalنہیں ہو سکتا۔ آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ جیسے بڑے دماغ اپنے آپ کو لافانی نہ کر سکے ۔ سٹیفن ہاکنگ تو سر سے پائوں تک معذور تھا ۔ وہ تو زندگی سے لطف اندوز ہی نہ ہو سکا ‘تو جب اولاد ہی انسان کی اپنی نہیں تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے ؟ کیا انسان ایک گھوڑے ‘ بھینس اور بندر کی مانند نہیں ۔ جو پیدا ہوتاہے ‘ زمین سے اگنے والی چیزیں کھاتا ہے ‘ بچے پیدا کرتا ہے ‘ ان کی پرورش کرتاہے اور پھر مر جاتا ہے ۔حیاتیاتی طور پر تو انسان دوسرے جانوروں ہی کی طرح ہے ۔ موت اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے‘ جو چیز انسان کے نصیب میں نہیں ‘ وہ اسے چکھ نہیں سکتا۔ خواہ اپنی ساری دولت ہی کیوں نہ خرچ کر لے ۔
اس زمین پہ انسان کی بے بسی کی انتہا تو دیکھیے کہ اس کی اولاد بھی اس کی نہیں ‘ جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتا ہے !