"FBC" (space) message & send to 7575

35 برس پرانا قرض…( 1)

کہتے ہیں کہ پڑھنے والا کبھی یہ اندازہ نہیں کر سکتا کہ لکھنے والے نے کتنے الفاظ مسترد کیے ہوں گے ۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک داستان مکمل ہو چکنے کے بعد بھی لکھنے والے کا تعاقب کرتی رہتی ہے۔ ایسا ایک کردار ''خواجہ منگتا ‘‘ ہے اور دوسرا ایغور پاشا۔ عمارت گو بدزیب نہیں ‘لیکن دل چاہتاہے کہ گرا کر نئے سرے سے تعمیر کردی جائے ۔ ایک دفعہ ایسے ہی ایک کردار ایڈم کی کہانی لکھی تھی ‘ جو کئی عشرے قبل لیا گیا قرض لوٹانے اپنے محسن کے پاس جاتا ہے ۔اب اس کہانی کو ایک دوسرے کلائمیکس اور نئی خوبصورتیوں کے ساتھ پڑھیے : ایڈم بتاتا ہے ''پینتیس سال پہلے میں ایک تنگ دست مقامی لڑکے کی حیثیت سے جب آخری بار پاشا سے ملا تو اس کی عمر اس وقت ساٹھ برس تھی ۔ساری زندگی سخت ورزش کرنے والا کھلاڑی نوجوانوں سے زیادہ صحت مند تھا۔یقینا اسے اندازہ تھا کہ میں اس سے کچھ مانگنے آیا ہوں ۔ وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے پاشا سے کہا کہ میں دارالحکومت جانا چاہتا ہوں کہ مقامی سطح پر معیارِ زندگی بہتر بنانے کے مواقع میسر نہیں۔ وہاں جا کر میں شدید محنت کروں گا ۔ جلد ہی بہت سی رقم اکٹھی کر کے میں الاگیر لوٹ آئوں گا۔ میں آپ کی ساری رقم لوٹا دوں گا اور یہاں کھیل کا ایک میدان بھی تعمیر کروں گا۔ یہاں پہنچ کر جب میں نے پاشا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہا تھا ۔ شاید اسے میرے منصوبے ناقابلِ عمل لگ رہے تھے یا شاید اسے میری نیت پہ شک گزراتھا۔ میں خاموش ہو گیا اور بے بسی کی شدت سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ 
اس نے پوچھا : کیا تم البرٹ کے بیٹے ہو ؟ کون سے نمبر والے ؟ وہ سوچتا رہا ۔''بچّے ‘‘ بالاخر اس نے کہا '' ہو سکتاہے کہ تم یہ سب تو نہ کر سکو ‘ جس کا خواب دیکھ رہے ہو‘ لیکن ہو سکتاہے کہ تم کچھ اور کر گزرو۔اس دنیا میں اکثر ایسا ہی ہوتاہے ۔ ‘‘ اس نے کچھ حساب لگایا ‘ پھر جتنی رقم میں نے اس سے مانگی تھی‘ اس سے ٹھیک دو گنا کا چیک میرے حوالے کر دیا۔ آخر اس نے یہ کہا :اگر تم کوئی شوق رکھتے ہو تو یاد رکھنا کہ ایک زندہ انسان مال کمانے کی خوفناک جنگ میں بھی اپنے شوق سے دستبردار نہیں ہوتا۔میں فٹ بال کا مایہ ناز کھلاڑی ضرور تھا ‘لیکن میرا اصل شوق کچھ اور تھا۔ جب میں ایغور پاشا کے گھر سے باہر نکلا تو فرطِ جذبات سے کانپ رہا تھا ۔اس وقت میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وقت تیزی سے گزر جائے اور میں رقم کا تھیلا لیے واپس پاشا کے گھر پہنچ جائوں‘لیکن اس نے ٹھیک کہا تھا ۔ گوکہ میں کامیاب رہا ‘لیکن حالات کا جبر مجھے بہا لے گیا۔دارالحکومت میں ‘ میں نے روپیہ کمایا ‘ شادی کی‘ باپ بنا ۔ میں نے پاشا کی بات یاد رکھی اور جی بھر کے اپنا شوق بھی پورا کیا ۔یہ شوق تھا ؛ نفسیات کا مطالعہ ۔ 
یہ 35برس جیسے 35منٹ میں گزر گئے ۔ دوستوں کی محفل میں ایک روز ان لوگوں کا ذکر چھڑا‘ جن کے ہم پر احسانات تھے ۔ہم سب ٹھوکریں کھا کر یہاں تک پہنچے تھے ۔ ہر دوست نے اس شخص کا ذکر کیا ‘ جس کا اس پر احسان تھا۔ 
مجھے پاشا یاد آیااور اس بری طرح کہ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ سب سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے‘ لیکن میں آنسوئوں میں بہتا ہی چلا گیا اور ایک لفظ بھی ادا نہ کر سکا۔ دوست بیچارے مجھے حوصلہ دیتے دیتے رخصت ہوئے۔ آخر جب میرے بیوی بچے آئے اور انہوں نے میری حالت دیکھی تو گھبرا گئے ۔
بڑے لڑکے سے میں نے کہا :جائیداد‘ گاڑیوں اور سونے میں سے جو بھی بک سکے ‘ اسے بیچ ڈالو اوررقم کا تھیلا میرے حوالے کر دو ۔ جلدی جائو ۔اصل مسئلہ چھوٹے بیٹے کا تھا۔ وہ چند دن بھی مجھ سے دور رہنے کا روادار نہیں تھا‘ لیکن ایک طرف ساری زندگی کا پچھتاوا تھا اور دوسری طرف بچے کی وقتی اداسی ۔ 
ایڈم الاگیر واپس پہنچا تو پاشا کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔کئی ہفتے وہ اس کی ایک ایک جائیداد کا سراغ لگا کر اسے کھوجتا رہا ۔ آخر ‘ بہت دور ‘ ایک نواحی عمارت میں وہ اسے مل گیا۔ایڈم برف کے طوفان سے گزر کر بمشکل وہاں پہنچا تھا ‘اسے اپنے خاندان کی یاد ستا رہی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ پاشا کی قدم بوسی کے بعد رقم اس کے حوالے کرے اور تیزی سے شہر کا رخ کرے ۔ 
بالآخر دروازہ کھل گیا ۔ ایک ڈھانچہ ایڈم کے سامنے کھڑا تھا ۔ ایڈم نے غور سے اسے دیکھا اور پہچان لیا۔ وہ ایغور پاشا ہی تھا ۔ کبھی دنیا‘ جسے جھک کر سلام کرتی تھی ۔ اب وہ خود جھک چکا تھا۔
ایڈم نے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ ہزاروں میل کا سفر طے کر کے 35برس پرانا قرض واپس کرنے آیا ہے ۔''قرض ؟35 سال ؟ ‘‘ پاشا نے بے یقینی سے کہا ۔ پھر وہ ہنس پڑا ۔ ایڈم خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات سے ہڈیوں کے پنجرے کو دیکھتا رہا۔ 
پاشا نے کہا : بچّے اندر آجائو ۔ایڈم نے اس سے کہا کہ وہ جلد از جلد واپس نکلنا چاہتاہے ۔برف کا طوفان ہے اور اسے شہر پہنچنا ہے ‘ پھر اسے دارالحکومت کا رخ کرنا ہے ‘ جہاں اس کا خاندان بالخصوص چھوٹا لڑکا بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا ہے ۔اصل میں شدید سرد موسم میں ہفتوں کی تگ و تاز نے ایڈم کے حواس توڑ کر رکھ دیے تھے‘ ورنہ وہ یقینا پاشا کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا۔ 
پاشا چند لمحے خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘پھر ایڈم نے دیکھا کہ اس کے تاثرات بدلنے لگے۔یکایک اس نے کہا :اپنی رقم پکڑو اور دفع ہو جائو۔ میں کسی ایڈم کو نہیں جانتا اور نہ ہی میں نے زندگی بھر کبھی کسی قرض دیا ہے ۔ایڈم کے سر پر جیسے بم گر پڑا ۔ اس نے کہا : میں البرٹ کا تیسرا بیٹا ۔ پاشا نے کہا : میں کسی البرٹ کو نہیں جانتا ۔ایڈم حیرت اور صدمے سے اس کا منہ تکتا رہ گیا۔ 
جس بات کا پاشا کو علم نہیں تھا ‘ وہ یہ تھی کہ ایڈم کو نفسیا ت پڑھنے کا شوق تھا ۔ پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے شوق کو بھی جاری رکھا تھا۔ روز کئی گھنٹے وہ رضاکار کے طور پر دارالحکومت کے سب سے بڑے ماہرِ نفسیات کے پاس تین عشرے تک مختلف خدمات سرانجام دیتا رہا تھا ۔ وہ یقین سے کہہ سکتا تھا کہ پاشا اسے بخوبی پہچان چکا ہے ۔بات کچھ اور تھی ۔
اس کی نفسیات پڑھنے کی حس بیدار ہو چکی تھی ۔ اس نے سوچا ‘ بوڑھا لیجنڈ شاید تنہائی کا شکار ہے اور اسے فوراً واپس نکل پڑنے کی بات کا رنج ہوا ہے ‘ اسے شرمندگی محسوس ہوئی اور اس نے سوچا کہ اسے رک کر صورتِ حال کا جائزہ لینا چاہیے ۔ (جاری ) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں