"FBC" (space) message & send to 7575

35برس پرانا قرض…( 2)

یہ قصہ ہے کہ ایک ایسے ادھیڑ عمر شخص ایڈم کا‘ جو ہزاروں میل کا سفر طے کر سویت ریاست الاگیر میں اپنے 95سالہ لیجنڈری محسن کو 35برس پرانا قرض لوٹانے آیا تھا ۔ عشروں کوئی جسمانی مشقت نہ کرنے والے ایڈم کو جب ہفتوں برف زارکھنگالنا پڑے تو وہ بری طرح تھک چکا تھا۔ اسے شدت سے اپنے خاندان کی یاد آرہی تھی ‘ خاص طور پر چھوٹے بیٹے کی۔
ایغور پاشا کو ایڈم نے ہمیشہ بھرپور صحت مند دیکھا تھا ۔ اس کا خیال یہ تھا کہ ساری زندگی سخت ورزش اور بہترین خوراک کھانے والے کھلاڑی کا بڑھاپا بھی اس کے شایانِ شان ہوگا۔ ادھر جب اس نے پاشا کو دیکھا تواس کی کمر مکمل طور پر دہری ہو چکی تھی ۔ جسم پر گوشت کا نشان تک نہ تھا۔سوچا اس نے یہ تھا کہ جب وہ الاگیر پہنچے گا تو با آسانی پاشا سے اس کی ملاقات ہو جائے گی ۔ وہ اپنے محسن کی قدم بوسی کرے گا۔ 35برس پرانا قرض ادا کر ڈالے گا ۔کچھ تحائف پیش کرے گا ۔قصبے میں کھیل کا ایک میدان تعمیر کرنے پر بھی بات ہوگی ۔ پاشامسکرائے گا اور اس کی پیٹھ تھپتھپائے گا۔ یوں اس کے سینے سے ایک بہت بڑا بوجھ ہٹ جائے گا ۔ 
ادھر پہلے توبرف زاروں میں پاشا کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس کے اعصاب جواب دے گئے ‘ پھر جب وہ ملا تو اس حال میں کہ وہ ایک چلتا پھرتا مردہ دکھائی دیتا تھا۔ وہ ایک بھوت بنگلہ نما عمارت میں مقیم تھا۔ کسی ملازم کا وہاں نام و نشان تک نہ تھا ۔ یہ سب کچھ ایک بھیانک خواب کی طرح تھا۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ جب ایڈم نے پاشا کو بتایا کہ اسے قرض ادا کر کے فوراً واپس نکلنا ہے کہ اپنے خاندان سے جا ملے‘ توپاشا نے زہر آلود لہجے میں کہا کہ اپنی رقم اٹھا کر دفع ہو جائیے۔ میں آپ کو نہیں جانتا ‘ نہ عمر بھر میں نے کبھی کسی کو کوئی قرض دیا۔ 
ایڈم چند لمحے سکتے کی حالت میں پاشا کو دیکھتا رہا۔ پاشا اندر چلا گیا۔ ایڈم رقم اٹھائے کچھ دیر بت بنا کھڑا رہا‘ پھر وہ پتھر کے زینے پر بیٹھ گیا۔ ادھر طوفان تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ اب‘ اس نے فوری واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیا اور ایک بار پھر دروازہ کھٹکھٹادیا۔ پاشا توجیسے اس کے انتظار میں تھا۔ 
ایڈم اندر داخل ہوا ۔ ایڈم نے دیکھا کہ کنکریٹ کی عمارت میں پیکٹ والی خوراک سمیت ضروریاتِ زندگی کی ہر شے موجود تھی اور ادویات بھی۔ اس کے استری شدہ کپڑے ٹنگے تھے ۔کوئی تھا ‘ جو بوڑھے لیجنڈری کو سپلائیز پہنچا رہا تھا ۔ایڈم نے آہستگی سے کہا ''جناب 35سال پرانا قرض ۔۔۔‘‘ 
پاشا نے اس کی بات سنی‘ اَن سنی کر دی ۔ایڈم کچھ دیر سوچتا رہا۔ اسے بھوک محسوس ہور ہی تھی ۔ وہ اٹھا اور اس نے اپنے لیے خوراک کا ایک پیکٹ کھولا ۔ پاشا نے تحکمانہ لہجے میں کہا : ایک پلیٹ ادھر بھی ۔ اس کے لہجے سے ناقابلِ برداشت حد تک رعونت ٹپک رہی تھی ۔
دو دن اسی طرح گزر گئے ۔ وہ نوکروں کی طرح اسے حکم دیتا تھا۔قرض وصول کرنے کی التجا‘ وہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا تھایا پھر اسے رقم سمیت دفع ہوجانے کا حکم جاری کردیتا۔ 
سوال یہ تھا کہ کیا بوڑھا لیجنڈری خبطی ہو چکا تھا ؟ ایغور پاشا کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ تین عشرے تک نفسیات کا مطالعہ کرنے والا ایڈم بغور اس کا جائزہ لے رہا تھا ۔
تیسرے دن ایڈم کی آنکھ ایک دھاڑ سے کھلی۔ اس نے دیکھا‘ بوڑھا بستر کے بالکل سامنے کھڑا تھا ۔ اپنی چھڑی اس نے گرا دی تھی اور اس کے ایک ہاتھ میں فٹ بال تھا ۔ وہ چیخ رہا تھا۔ اس نے کہا: الو کے پٹھو ۔۔۔ تم سمجھتے ہو کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں ؟ پاشا کے جسم میں آج بھی بجلی دوڑ رہی ہے ۔ آج بھی برف زار میں وہ چیتے کی رفتار سے دوڑ سکتاہے ۔ طوفان میرا کیا بگاڑ سکتاہے؟ ایڈم نے دیکھا کہ حتی الامکان وہ سیدھا کھڑا تھا ‘ پھر وہ دروازے کی طرف بھاگا ۔ دروازہ کھول کر وہ طوفان میں اترجانا چاہتا تھا۔ 
ایڈم بستر سے اتر کر بھاگا اور دروازے کے قریب اس نے پاشا کو جا لیا۔ اس نے اسے گود میں اٹھایا ‘ جبکہ پاشا بری طرح مچل رہا تھا‘ پھراس نے ایڈم کے بال پکڑ لیے ۔ایڈم کو محسوس ہوا کہ پاشا کا استخوانی پنجہ اس کے بال جڑ سے اکھاڑ دے گا۔ ایک لمحے کے لیے اسے شدید غصے نے آلیا ۔بمشکل اس نے خود پر قابو پایا۔ 
پاشا بستر پہ لیٹ گیا اور رونے لگا ۔ ایڈم سوچنے لگا کہ کیا شاہانہ عظمت کا لیجنڈری گزشتہ کئی عشروں سے دنیا کی طرف سے ٹھکرائے جانے پہ آنسو بہا رہا ہے ؟ پھر اسے 35سال پرانا وہ وقت یاد آیا ‘ جب وہ غربت کے مارے ایک اٹھارہ سالہ مقامی لڑکے کے طور پر قرض کی درخواست لیے پاشا کے سامنے حاضر ہوا تھا۔ اسے پاشا کا شاہانہ جاہ و جلال یاد آیا ۔ قصبے میں کوئی گھر ایساتھا‘ جس پر اس کا احسان نہ ہو ؟ 
ایڈم نے اسے پانی پلایا ۔ وہ روتے روتے سو گیا۔ ایڈم بھی بستر پہ دراز ہو گیا۔ جب وہ دوبارہ سو کر اٹھا تو پاشا اس سے پہلے اٹھ چکا تھا۔ اب وہ بالکل خاموش تھا ‘ کسی سوچ میں ڈوبا ہوا ۔ یہ دن یونہی گزر گیا۔ 
اگلی صبح ایک نیا تماشا اس کا منتظر تھا۔ وہ سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا پاشا پینٹ کوٹ ‘ ٹائی اور ہیٹ پہنے کرسی پہ براجمان سگار پی رہا ہے ۔ اس نے کہا : جی ایڈم صاحب! آپ قرض ادا کرنے آئے ہیں ؟کتنی رقم تھی ؟ لائیے میرے حوالے کیجیے ۔ایڈم نے رقم اس کے حوالے کی ۔ اس نے رقم گنی اور سوال کیا :جنابِ عالی! 35سال کا سود؟ 
ایڈم شرم سے پانی پانی ہو گیا ۔پاشا سوالیہ نظروں سے مسلسل اس کی طرف دیکھ رہا تھا‘ پھر اس نے ہیٹ اتارا اور میز کے پیچھے سے نکل کر چہل قدمی کرنے لگا‘ پھر وہ رکا ‘ سگار کا دھواں اچھالا اور بولا : ایڈم صاحب آپ کی شکل چونکہ چارلس ڈارون سے ملتی ہے‘ لہٰذا میں سود آپ کو معاف کرتا ہوں۔ آخر ہم دونوں ایک ہی سپیشیز سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کیا ہوا جو آپ کا چہرہ پھٹکار زدہ ہے ۔
''لیکن ‘‘ پھر ا س نے دھاڑ کر کہا ''اگلے کچھ دن آپ کو میرے نوکر کے طور پر بسر کرنا ہوں گے ‘‘۔ ایڈم اس کو کیا کہتا۔ وہ پہلے ہی اس سے نوکروں سے بدتر سلوک کر رہا تھا ۔ اس نے کہا : جناب پاشا صاحب ‘ آپ تشریف رکھیں ‘ میں غسلخانہ دھو کر آتا ہوں ۔
اب یہ جو کچھ ہو رہا تھا اور پاشا اس کے ساتھ جس طرح کا سلوک کر رہا تھا ‘اس میں ایڈم کو مزہ بھی آنے لگا تھا ۔ (جاری ہے )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں