"FBC" (space) message & send to 7575

35برس پرانا قرض …( 3)

ایڈم کو بخوبی علم تھا کہ 35برس پہلے ایغور پاشا ایک بڑی رقم قرض نہ دیتا تو آج وہ ایک پر مسرت زندگی نہ گزار رہا ہوتا ۔ ایک طرف تو بے نیازی کا یہ عالم تھا کہ 35برس اس نے قرض کی واپسی کا تقاضا ہی نہ کیا۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ تھی کہ کبھی وہ اسے رقم سمیت اپنے گھر سے دفع ہوجانے کا حکم دیتا تو کبھی 35سال کے سود کا سوال اٹھاتا‘پھر یہ سود معاف کرتا تو اس شرط پر کہ وہ کچھ دن اس کا بے دام غلام بن کر رہے گا ۔ ایڈم نے جب طنزاً یہ کہا کہ وہ پاشا کا غسلخانہ دھو کر آتا ہے تواُس نے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ ایڈم کو وہ دن بھی یاد تھا‘ جب چیختے چنگھاڑتے پاشا نے یہ کہا تھا کہ آج 95برس کی عمر میں بھی اس کے جسم میں بجلی دوڑتی ہے ۔ بھاگ کر اس نے دروازہ کھولا اور طوفان میں جا گھسنے کی کوشش کی تھی ۔ ایڈم اسے زبردستی پکڑ نہ لیتا تو بوڑھے کی لاش بھی کسی کو نہ ملتی ۔ 
اپنے خاندان سے دوری پر ایڈم اداس ضرور تھا‘ لیکن اب وہ اس صورتِ حال سے محظوظ بھی ہو رہا تھا ۔وہ نفسیات پڑھنے کا شوقین تھااور اس سے زیادہ دلچسپ کیس اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ برف زار میں تعمیر شدہ اس عافیت کدے میں اسے پانچ روز ہو چکے تھے۔ چھٹے روز جب وہ سو کر اٹھا تو ایک نئی حیرت اس کی منتظر تھی ۔ بوڑھے نے اس سے کہا : آپ کا بہت بہت شکریہ ‘اتنے طویل عرصے بعد ‘ اتنا طویل سفر طے کر کے آپ وہ قرض لوٹانے آئے ‘ جس کی واپسی کا تقاضا ہی نہ تھا ۔ مجھے اس رقم کی کوئی ضرورت نہیں‘ لہٰذا اسے آپ رکھ لیجیے ۔ رکنا چاہیں تو جتنے دن مرضی رکیں اور لوٹنا چاہیں تو بھی آزاد ہیں ۔ پاشا حیرت سے اپنے بوڑھے ہیرو کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔ پاشا مسکرایا اور اس نے کہا : بڑھاپے میں اکثر لوگ اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں ۔ شاید ایسی ہی کچھ چیزوں سے گزشتہ دنوں میں آپ کا واسطہ پڑا ۔انہیں بھول جائیے ۔
یہی وہ لمحہ تھا ‘ ایڈم کب سے جس کا منتظر تھا۔ اس نے کہا :35سال پہلے ‘ جب آپ نے مجھے قرض دیا تو ایک نصیحت بھی کی تھی ۔ آپ نے فرمایا تھا: مال کمانے کی خونخوار جنگ میں بھی انسان کو اپنے شوق سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے ۔ آپ نے کہا تھا کہ میں فٹ بال کا ایک اساطیری کھلاڑی ضرور ہوں‘ لیکن میرا اصل شوق کچھ اور ہے ۔ آپ کی یہ بات میں نے پلّے سے باندھ لی اور دولت کمانے کی جنگ میں بھی اپنے شوق کی تعمیل کرتا رہا ۔ میرا شوق تھا ؛ نفسیات کا مطالعہ ‘‘۔ 
ایڈم نے دیکھا کہ پاشا کے چہرے کا رنگ ایک لمحے کے لیے بدل گیا ۔ایڈم بولتا رہا ''35سال تک ایک بہت بڑے ماہر نفسیات کو میں نے ہزاروں مریضوں کا علاج کرتے دیکھا ۔ اپنے شوق اور دلچسپی کی وجہ سے میں خود ماہر نفسیات بن چکا ہوں۔ میں نے بے شمار عمر رسیدہ ‘ڈیمنشیاکے مریضوں کا جائزہ لیا۔ ‘‘ 
ایڈم نے دیکھا کہ پاشا خفیف تھا ‘مگر مسکرا رہا تھا ۔ 
ایڈم نے کہا '' میں سو فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو کسی قسم کا کوئی بھی ذہنی عارضہ لاحق نہیں ۔ آپ جان بوجھ کر مجھے الجھارہے تھے ۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ میں یہ سمجھو ں کہ آپ اپنے ذہنی عدم توازن کی وجہ سے خطرے میں ہیں ‘لہٰذ اآپ کے پاس رک جائوں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ 
ایغور پاشا ہنس پڑا ۔ اس نے کہا ''بچّے ‘ میں تنہائی کا شکار تھا تو میں نے سوچا کہ کسی طرح کچھ دن تمہیں اپنے پاس روک لوں ۔‘‘ 
ایڈم مسکرا اٹھا ۔ اس نے کہا '' جھوٹ ۔ آپ کے پاس اتنی دولت موجود ہے کہ آپ باقی ماندہ زندگی ایک میلے کی شکل میں گزار سکتے ہیں۔حقیقت بالکل برعکس ہے۔ یہاں اس ویرانے میں ڈیرہ لگانے کی وجہ ہی یہی ہے کہ آپ انتہائی تنہائی پسند ہیں ۔ ‘‘
پاشا پھر ہنس پڑا‘پھروہ خاموش ہوگیا اور کچھ دیر سوچتا رہا ۔آخر اس نے کہا '' میں فٹ بال کا ایک عظیم کھلاڑی ضرور تھا ‘لیکن میرا سب سے بڑا شوق موسم کا مطالعہ تھا ۔اس بلند مقام پر رہنے کی وجہ بھی یہی ہے ۔ اوپر والی منزل پر ایک لیبارٹری قائم ہے ‘ جس میں موسم کا مطالعہ کرنے کے لیے انتہائی بیش قیمت آلات نصب ہیں ‘ جس دن تم میرے پاس پہنچے ‘ وہ برف کے اس خون آشام طوفان کا پہلا دن تھا۔یہ کوئی عام طوفان نہ تھا۔ اس کا نام میں نے ''طوفانوں کی ماں‘‘رکھا ہے ۔ہر سال یہ پانچ دن کے لیے آتا ہے۔ ان دنوں اس قدر اندھیرا چھا جاتا ہے کہ دن میں بھی رات کا سماں ہوتا ہے ۔ ‘‘
ایڈم حیرت سے سنتا رہا ۔ پاشا نے کہا '' اس دن تم میرے پاس پہنچ تو گئے‘ لیکن تم نے نوٹ نہیں کیا کہ گزرتے ہوئے ہر لمحے کے ساتھ طوفان کی شدت بڑھتی جا رہی تھی ‘اگر تم رقم میرے حوالے کر کے واپس نکل جاتے‘ جیسا کہ تمہارا ارادہ تھا تو یہ یقینی موت کا سفر ہوتا۔ سڑک اور اس سے منسلک ہر نشانی کو برف تیزی سے نگلتی جا رہی تھی ۔ کئی جگہوں پر تمہیں پتا بھی نہ چلتا کہ سڑک کہاں ختم ہوئی اور کہاں تم کھائی میں جا گرے۔تم ایک طرف کا سفر طے کر چکے تھے ‘لہٰذامیرے اس انتباہ کو اہمیت نہ دیتے کہ واپسی کا سفر مہلک ہوگا۔ اولاد کی محبت تمہیں کھینچ رہی تھی ۔ واپسی پر تمہیں کوئی گیس سٹیشن تک نہ ملتا ‘اگر کھائی میں نہ بھی گرتے تو سڑک کھو کر تم کسی ویرانے میں اتر جاتے ۔ چہار سو برف میں تمہارا حال ایک صحرا نورد کا ہوتا ‘ جو سمت کھو چکا ہو۔تمہارا ایندھن ختم ہو جاتا ‘ انجن جواب دے جاتا ۔ تم بھوک پیاس اور سردی سے مر جاتے۔تمہاری لاش برف میں دفن ہو جاتی ۔ تمہارے خاندان کو تمہاری قبر تک نہ ملتی‘‘۔
ایڈم حیرت سے اپنے ہیرو کی شکل دیکھ رہا تھا ۔پاشا نے کہا '' ایک انتہائی بوڑھے شخص کی نصیحت کون سنتا ‘ خواہ وہ ماضی کا ہیرو ہی کیوں نہ ہو۔ اس بات کو تم کیسے تسلیم کرتے کہ فٹ بال کا عظیم کھلاڑی بہت بڑا ماہرموسمیات بھی ہے ۔ اس وقت تو ویسے بھی تم ہمت ہار چکے تھے اور رقم مجھے پکڑا کر اپنے خاندان کی آغوش میں جا چھپنا چاہتے تھے ۔‘‘
ایڈم عقیدت سے پاشا کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ اصل زندگی میں بھی ایک ہیرو تھا ۔ وہ ایک احسان چکانے آیا تھا۔ادھر پاشانے اب دو گنا احسان تلے اسے دبا دیا تھا ۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں