کبھی آپ نے اس دنیا کے بارے میں سوچاہے ‘ جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں ۔ صبح مشرق سے سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے ۔ رات کو چاند دکھائی دیتاہے ۔ آسمان پہ ستارے چمکتے ہیں ۔ ہم تو خیر ایک ہی ستارے یا سورج کے گرد گھوم رہے ہیں ۔ آسمان ایسے ستاروں سے بھرا پڑا ہے ‘ جو د ویا تین کے جوڑوں میں پائے جاتے ہیں ‘ ان ستاروں کے گرد گھومنے والے سیاروں پہ اس طرح کی مکمل تاریک رات شاید کبھی بھی نہیں اترتی ‘ اس زمین پر ہم جس کے عادی ہیں ‘ اسی طرح دنیا میں بے شمار سیارے ایسے ہیں ‘ جو کہ اپنے سورج کے بے حد قریب ہونے کی وجہ سے اپنے محور کے گرد گھومنا بند کر دیتے ہیں ۔ ہمارے نظامِ شمسی میں ایسے سیارے موجود ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایسے سیارے کے ایک طرف تو ہمیشہ رات رہتی ہے اور دوسری طرف ہمیشہ دن ۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف سورج کی مسلسل گرمی کی وجہ سے پگھل جاتی ہے ‘اگر آپ اس دنیا پہ غور کریں‘ تو یہاں سے آپ کو موت کے بعد کی زندگی کے اشارے نظر آئیں گے ۔ یہاں کرہ ٔ ارض پہ ایک ایک مرلے پر جھگڑا ہے ‘ ادھر دوسری طرف آپ خلا میں دیکھیں تو ایک ایک سیارے پر کھربوں ایکڑ زمین بے کار پڑی ہے ۔ چاند پراتنی زمین موجود ہے کہ ہزاروں ہائوسنگ سوسائٹیز بنائی جاسکتی ہیں ‘لیکن وہاں آکسیجن اور دوسری ضروریاتِ زندگی موجود نہیں ۔ سفر اتنا ہے اور اس کی لاگت اتنی زیادہ ہے کہ وہاں جا کر آبادہونا نفع بخش ہو ہی نہیں سکتا‘ اگر کبھی انسان کی ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کی کہ چاند پر جاکر آبادہونااور اسے کھود کر اس کی معدنیات نکالنا نفع بخش ہو گیا تو آپ دیکھیں گے کہ جس طرح کرہ ٔ ارض پہ ایک ایک مرلے کے لیے قتل ہوتے ہیں ‘ ویسے ہی چاند پر بھی ہوں گے ۔ بڑے بڑے سائنسدان جب دنیا کو دیکھتے ہیں ‘ سورج کو دیکھتے ہیں ‘ دوسرے ستاروں کو دیکھتے ہیں اور پھر جب وہ مڑ کر اپنے کرہ ٔ ارض کو دیکھتے ہیں تو حیرت کے مارے ان کی زبان ساکت ہوجاتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں باقی ہر چیز کی سمجھ آرہی ہے‘ لیکن یہ جو کرہ ٔ ارض پہ زندہ چیزیں یا زندگی پائی جاتی ہے ‘ اس کی سمجھ نہیں آتی ۔ حیرت کی شدت میں سٹیفن ہاکنگ نے ایک دفعہ یہ کہا تھا : کائنات اگر زندگی پیدا کر سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے ۔ مغرب میں خدا کا نام لینا فیشن کیخلاف ہے ‘ورنہ وہ یہ کہتا کہ خدا‘ اگر زندگی پیدا کر سکتاہے تو وہ کچھ بھی کر سکتاہے ۔ مغرب میں رائج نظریہ اب یہ ہے کہ خدا کا وجود ہم مان تو لیتے ہیں‘ لیکن اسے ہماری زندگیوں میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں ۔ مغرب نے انسانی آزادی کا ایک بت بنا ڈالا ہے اور اسی کی وہ پوجا کرتا ہے ۔خیر بات ہو رہی تھی زندگی کی‘ زندہ چیزیں بہت ہی نازک ہوتی ہیں ۔ درجہ ٔ حرارت ایک خاص حد سے اوپر یا نیچے چلا جائے تو وہ فوراً مر جاتی ہیں ۔ ان کے جسم میں خون کی نالیاں بنائی گئی ہیں۔ زیادہ دبائو کی وجہ سے یہ نالیاں پھٹ جائیں تو انسان مر جاتاہے ‘ اسی طرح نروز بھی خون کی نالیوں ہی کی طرح پورے جسم میں پھیلی ہوئی ہیں ‘ اگر ان کوز نقصان ہو جائے تو انسان معذور ہو جاتاہے ۔ زندگی بہت نازک ہے ۔ کوئی بڑا صدمہ ‘ بڑھی ہوئی شوگر ‘ فشارِ خون ‘ کوئی بھی چیز اسے منٹوں میں ختم کر دیتی ہے ‘ اگر آپ کا دل بڑا ہونے کی وجہ سے کمزور ہو جائے تو انسان ایک چلتی پھرتی لاش بن جاتاہے ۔ وہ خود رفع ٔ حاجت کر سکے تو یہی بڑی بات ہے ۔ پھیپھڑے ‘اگر خراب ہو جائیں اور ہوا سے آکسیجن لینے کے قابل نہ رہیں تو آدمی مر جاتا ہے ۔ یہی صورتِ حال خوراک کی ہے ‘ اگر آپ کو کھانا اور پانی ایک مقرر مدت کے اندر اندر نہیں ملتا تو آپ مر جائیں گے ۔ خواہ بینک میں اربوں روپے پڑے ہوں ۔ دنیا میں اس طرح کے ان گنت واقعات رونما ہو چکے ‘ جب ایک امیر شخص کسی لفٹ میں یا کسی تہہ خانے میں بند ہو گیا ۔ وہاں سے وہ نکل نہیں سکا ‘ نہ کسی کو اطلاع دے سکا اور وہیں بھوک او رپیاس کی شدت سے مر گیا ۔ آپ کو 8اکتوبر2005ء کا زلزلہ آپ کو یاد ہوگا۔ بے شمار لوگ تھے‘ جن کے پاس دولت موجود تھی‘ لیکن وہ عمارت کے ملبے تلے دبے ہوئے تھے ۔ ان میں سے کچھ نکال لیے گئے اور کچھ وہیں بھوک اور پیاس کی شدت سے مر گئے ۔اس کی وجہ کیا تھی ؟ خدا کہتاہے کہ زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں ‘ جس کا رزق میرے ذمے نہ ہو۔ جو لوگ مرتے ہیں ‘ ان کا رزق ختم ہو چکا ہوتاہے ۔اب ‘چاہے ان کے بینکوں میں اربوں روپے بھی پڑے ہوں ‘ وہ کچھ نہیں کھا پی سکتے اور بھوکے پیاسے مر جاتے ہیں ‘ اسی طرح کچھ لوگ اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں کہ پیسہ ہونے کے باوجود ان کا جسم کسی چیز کو قبول ہی نہیں کرتا ۔ محمد علی جیسا باکسر دنیا کی تاریخ میں نہیں آیا ‘ جو تین دفعہ عالمی فاتح بنا ہو۔باکسنگ ہی نہیں ‘ کہا جاتاہے کہ اگرتمام کھیلوں کی تاریخ کے دس سب سے شاندار کھلاڑی منتخب کیے جائیں تو محمد علی سرِ فہرست ہوگا ۔ اس کے باوجود تین چار عشرے اس نے اس حال میں گزارے کہ اسے بولنے ‘ چلنے اور پانی کا گلاس پکڑنے میں دقت محسوس ہوتی تھی ۔
خیر بات ہو رہی تھی خوراک کی ۔ آپ جتنے مرضی امیر ہوں ‘ اگر آپ کو ایک مقررہ مدت کے اندر آکسیجن اور خوراک نہیں ملتی تو آپ کی ساری دولت بالکل بے کار ہے ۔ یہ خوراک زمین سے اگتی ہے ۔ بظاہر پیسے کا ایک چکر اس میں انوالو ہے‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسان خود کچھ بھی نہیں ایجاد کر رہا‘ بلکہ صرف زمین سے اگنے یا زمین سے نکلنے والی چیزوں کو استعمال کر رہا ہے ۔ ہم اکیلے نہیں ‘ ہمارے گھروں میں موجود ہر چھپکلی اور مکڑی ‘ گلی میں پھرنے والی ہر بلی اور کتا ہر چڑیا اور ہر چیونٹی اسی طرح زمین سے اگنے والی چیزوں کو استعمال کر رہی ہے ۔ یہ چیزیں ہر جاندار کو اس کی موت تک مسلسل فراہم کرنے والی ذات خدا کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خدا یہ کہتا ہے : زمین پہ پھرنے والاکوئی ذی روح ایسا نہیں ‘ جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو ‘ جن کا رزق ختم ہو چکا ہو ‘ وہ کچھ نہیں کھا سکتے ۔ انہیں بھوک ہی نہیں لگے گی‘ اگر ہر جاندار کو خوراک پہنچانے کی ذمہ داری خدا نے نہ اٹھائی ہوتی ‘تو زمین پر آج 87لاکھ قسم کی مخلوقات موجود نہ ہوتیں !