کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جب ہم بچّے تھے ‘ بڑے ہو رہے تھے ‘ ہمیں نماز ‘ روزہ وغیرہ کی تعلیم دی گئی ۔ اس وقت کتنا ہمیں مشکل لگتا تھا کہ کھیلنے کودنے کو چھوڑ کر آپ جائے نماز پر کھڑے ہوں ۔ دل اکتاجاتاتھا۔ آپ مسجد میں بیٹھیں ۔ آپ کو استنجے اور وضو کے مسائل سکھائے جائیں یا جو لوگ طنز کرتے ہیں مذہبی لوگوں پر ‘ وہ لوٹے کا ذکر کرتے ہیں ۔ ایک چیز میں نے بعد میں نوٹ کی ‘ اگر آپ کہیں لوگوں میں بیٹھے ہوں اور شرافت سے خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہیں ‘تو لوگ آپ کے ساتھ چھیڑ خانی پر اتر آتے ہیں ۔ انہیں یہ محسوس ہو جائے کہ آپ سادہ ہیں ۔بس‘ پھر آپ کو چھیڑ کر وہ تفریح شروع کر دیں گے ؛حتیٰ کہ آپ کو انہیں ٹیڑھا جواب دینا پڑے گا ۔ میرا ایک دوست ہے ‘ جس کا قد ایب نارمل حد تک چھوٹا ہے اور اس کی شادی نہیں ہوئی ۔ ایک دن ایک بندہ‘ اس سے پوچھنے لگا ؛ تیری شادی کیوں نہیں ہوئی ؟ عمر کتنی ہو گئی ہے ؟ اس نے سوال کرنے والے کو اوپر سے نیچے دیکھا اور بولا؛ عمر میری پھلّاں ورغی اے (میری عمر بہت کم ہے ‘ پھولوں جیسی ہے )۔ اس پر ایک قہقہہ لگا اور سوال کرنے والا شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا ۔
اسی طرح اگر آپ نے مذہب کی طرف آنے کا فیصلہ کیاتو آپ کو دنیا سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ خاص وضع کا لباس اور ایک خاص طرز کا حلیہ آپ کو اپنانا پڑے گا ۔ کوئی شک نہیں کہ نماز کا ان گنت بار حکم دیا گیا ہے ۔ ڈاڑھی رکھنا کارِ ثواب ہے ۔ وضو اور پاکیزگی کے مسائل پر عمل کرنا ہوگا ‘لیکن ایک چیز آپ نے نوٹ کی ہوگی کہ جب آپ وعظ کرنے والوں کا حصہ بنیں گے تو پھر آپ کو ایک خاص حلیہ اپنا کر دنیا سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ دوسری طرف جو لوگ دنیا دار ہیں ‘جو گناہوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں ‘ وہ جب ان مذہبی لوگوں کو دیکھتے ہیں ‘تو وہ ان پر فقرے کستے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ہم مذہبی لوگوں سے کہیں زیادہ چالاک ہیں ۔ ہم فائدے میں ہیں ۔
اس کی وجہ کیا ہے ؟مذہب کی طرف لوگ بے دلی سے کیوں آتے ہیں ؟وجہ یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کی نمائندگی کر رہے تھے‘ ان کے پاس علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کی کتابیں صدیوں پرانی ہیں ‘ اگر آپ صرف فلکیات کو دیکھیں تو پچھلی تین دہائیوں میں فلکیات کی سائنس مکمل طور پر بدل کے رہ گئی ہے ۔ بچپن میں ہم پڑھا کرتے تھے کہ سیارہ حرکت کرتا ہے اور ستارہ ساکن ہے ۔ یہ سو فیصد غلط ثابت ہو چکا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک ستارہ یا سورج اپنے سیاروں کو لے کر اس قدر زیادہ رفتار کے ساتھ حرکت کر رہا ہوتا ہے ‘ جو ہمارے وہم و گمان سے بھی باہر ہے ۔ سورج کی رفتار ہے‘ سوا آٹھ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ ‘ جو چیز سوا آٹھ لاکھ کلومیٹر کی رفتار سے حرکت کر رہی ہے ‘ اسے ہم ساکن سمجھتے تھے ۔
اب ‘جو بندہ سائنسز سیکھ چکا ہے ‘ وہ ایسے شخص کی اطاعت کیسے کرے ‘ جس کے پاس موجود علم متروک ہو چکا ہے ؟ میں اسی بندے کی بات مانوں گا ‘ جو مجھے علم میں اپنے سے بہتر نظر آئے گا ۔ اگر ایک استاد کھڑا ہو کر آپ کو وہ پڑھانے کی کوشش کرے ‘ جس کے بارے میں آپ کو سو فیصد یقین سے معلوم ہو کہ وہ غلط کہہ رہا ہے ‘ تو آپ اس کی کتنی اطاعت کریں گے ؟ آپ پر بوریت کا حملہ ہو جائے گا اور آپ اس سے جان چھڑانے کے چکر میں ہوں گے ۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے خدا کو علمی طور پر جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ہمارا خیال یہ ہے کہ وضو‘ نماز اور تلاوت سے دین مکمل ہو جاتا ہے ۔ اب‘ میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ جو خدا سوا آٹھ لاکھ کلومیٹر کی رفتار سے سورج کو کہکشاں کے مرکز کے گرد دوڑا رہا ہو اور دوسری طرف وہ کہکشاں خود بھی حرکت میں ہو‘ پھر سورج کے گرد سیارے بھی گردش میں ہوں اور سورج ان سیاروں سمیت کہکشاں کے گرد گھوم رہا ہو اور سیاروں کے گرد ان کے چاند بھی گردش میں ہوں تو جو ہستی یہ سب کچھ کروا رہی ہو‘ اس کو کبھی آپ نے علمی سطح پر judgeکرنے کی کوشش کی یا طالبان کی طرح صرف کوڑے مارنے تک ہی دین کو محدود رکھا ؟
ہم نے کبھی یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ علم سارے کا سارا خدا کی ذات سے پھوٹتا ہے ۔ ولَا یحیطونَ بشئی من علمہِ الّا بما شاء ‘ وسعَ کرسیہ السّموت والارض۔ اور وہ اس کے علم میں سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے‘ مگر جتنا وہ چاہے ۔اس کی کرسی آسمانوں اور زمینوں پر حاوی ہے ۔ بڑی احتیاط کے ساتھ چھانٹ کر خاص لوگوں پرذرا سا علم اتارا جاتاہے ۔ہر صاحب ِعلم کے اوپر ایک صاحب ِعلم ہے ۔ پیغمبر ‘ صحابہ اور ان کے شاگرد وں کی تو مثال دی جا سکتی ہی نہیں ۔ آخری زمانے کے استادوں میں سے بھی ایک استاد جب کلام کرتا ہے‘ تو اس کا ایک ایک لفظ ذہنوں میں سوئے پڑے تجسس کو مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ لیتاہے ‘ جس پر علم کی ایک چھینٹ بھی پڑجائے ‘ اس علم کی‘ جسے اشیا کی حقیقت کا علم کہاجاتا ہے ‘تو وہ بندہ زمانے میں ممتاز ہو جاتا ہے ۔
لیکن ہم نے کبھی خدا کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ ہم نے کبھی اس نظر سے قرآن ِ پاک کو نہیں دیکھا کہ یہ کائنات تخلیق کرنے والی ہستی کا کلام ہے ‘ جس نے پانی سے مخلوقات بنائیں اور انہیں ان کے جسموں کے اندر آکسیجن سے توانائی دی ‘ جس نے ایک ہی پانی سے گنّا‘ تربوز‘ سٹرابری ‘ لیچی ‘ چیری اور آم جیسے مختلف پھل بنائے ۔ جس نے دو جلنے اور جلانے والی گیسز کو ملا کر پانی بنا ڈالا ‘ جس نے بغیر کسی ہیوی مشینری کے سیارے بنائے‘ ان کی وادیاں اور پہاڑ بنائے ‘ جس نے کششِ ثقل پیدا کرکے نا صرف سورج اور دوسرے ستارے بنائے ‘ بلکہ اسی موزوں کششِ ثقل کے بل پر ہمیں ایک سیارے پر زندگی کے روزمرہ امور انجام دینے کے قابل بنایا ۔ (جاری )