"FBC" (space) message & send to 7575

طنز و مزاح…( 2)

گزشتہ کالم میں‘ میں نے لکھا تھا کہ کیا مزاح نگاری واقعی بہت مشکل فن ہے ؟ کچھ دوستوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ یقینا یہ ایک مشکل عمل ہے‘لیکن آپ میں سے اکثر کا مشاہدہ ہو گا کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پرطنزیہ اور مزاحیہ‘ یعنی فکائیہ گفتگو کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ حیران کن یہ ہے کہ ان کے جس طنزیہ ‘ مزاحیہ و فکائیہ جملے پر دوسرے افراد ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائیں‘ لیکن وہ خود گفتگو کرتے ہوئے مسکراتے بھی نہیں!
ہمارے ایک استاد تھے ‘ جو اکثر شکار پہ جایا کرتے ۔ ایک بار اپنا شکار کا ایک قصہ سنا رہے تھے۔ کہنے لگے: نیل گائے کا شکار کرنے گئے تھے‘ لیکن نیل گائے وہاں نہیں ملی ۔ صرف خرگوش ہی کا شکار ہو سکا۔ ساتھ ہی مجھے ایسی آواز سنائی دی ‘ جیسے کوئی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہا ہو۔ دیکھا تو جہاں ساری کلاس سنجیدہ بیٹھی تھی‘ وہاں ایک دوست زاروقطار ہنس رہا تھا ۔ میں نے پوچھا : کیا ہوا؟ بمشکل تمام بولا: کتھے نیل گائے تے کتھے خرگوش؟ ایک دفعہ قانون کے استاد مختلف قسم کی صورتِ حال میں قانونی نکات واضح کر رہے تھے کہ اگر ایک شخص کو کوئی نقصان پہنچتاہے ریاست کی غلطی سے تو وہ کیسے ہرجانہ وصول کر سکتاہے ‘ بولے: اگر ایک شخص چلتا چلتا گٹر میں گر جائے ؟مجھے محسوس ہوا کہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا لڑکا ہل رہا ہے ۔ میں نے دیکھا تو منہ پہ ہاتھ رکھ کر ہنسی روک رہا تھا۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ کہتا ہے کہ میری تو یہ سوچ کر ہنسی نہیں رک رہی کہ بندہ چلتے چلتے غڑپ کر کے گٹر میں غائب ہو جائے۔ یہ تھی اس کی imaginationکی انتہا ‘ جبکہ مجھ سمیت باقی سب سنجیدہ بیٹھے تھے ۔ 
بدقسمتی سے پاکستانی سٹیج ڈراموں میں رشتوں کو ایک گالی بنادیا گیا ہے ۔ زیادہ تر مذاق گھٹیا ہوتا ہے ‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو جتنا ٹیلنٹ ان لوگوں میں موجود تھا‘ یہ دنیا کی بہترین کامیڈی میں شمار ہو سکتے تھے ۔ ایک ڈرامے میں امان اللہ مرحوم عورت بنے ہوئے تھے اور کافی دبنگ قسم کی عورت۔ اپنے مقابل کو وہ اپنی بدمعاشی سمجھاتے ہوئے اسے محتاط رہنے کا حکم دے رہے تھے‘ بولے : میں کوئی عام عورت نہیں ۔ ہم 8بہنیں ہیں اور ہم نے 48طلاقیں لی ہوئی ہیں اور جن لوگوں نے ہمیں طلاقیں دی ہیں ‘ وہ آج تک ہمیں خرچہ ادا کر رہے ہیں ۔ 
میرا ایک دوست ہے ۔ میں ایک دن اس کے گھر گیا تو وہ گھر پہ نہیں تھا۔ میں اس کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ مجھے خیال آیا کہ چائے بنا کر پیتا ہوں ۔ میں نے جب چینی تلاش کرنی شروع کی تو وہ کہیں نہ ملی ۔ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد ایک ڈبہ ملا‘ جس پر چینی لکھا ہوا تھا۔ میں نے ڈبہ کھولا تو اندر چینی کا ایک ذرہ بھی نہیں تھا‘ بلکہ ایک کیڑا بیٹھا ہوا تھا۔ کیڑے نے مجھ سے پوچھا: چینی ڈھونڈ رہے ہو ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ کیڑا کہنے لگا کہ آپ کے دوست تو چینی لیتے ہی نہیں۔ میں جب ڈبہ بند کر نے لگا تو کیڑے نے کہا : کہیں اور جا کر چینی ڈھونڈو اور اگر چینی مل جائے تو ایک ذرہ مجھے بھی دینا۔ میری شوگر lowہوچکی ہے ۔ ایک شادی میں جانا ہوا۔ ویٹر آئے اور ہماری میزپر سالن او ر چپاتیاں رکھ دیں۔ معلوم ہوا کہ اس شادی میں منفرد انتظام یہ ہے کہ آپ کو خود جا کر کھانا لینے کی ضرورت نہیں‘ بلکہ ویٹر کھانا آپ تک پہنچائیں گے۔ ہماری میز پر ایک بزنس مین بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے یہ دیکھا تو چوڑے ہو گئے‘کہنے لگے کہ ہم تو ایسی شادیوں میں جاتے ہی نہیں ‘ جہاں خود جا کر کھانا لانا پڑے۔ اس طرح کی تین چار ڈینگیں انہوں نے ماریں؛ ''ہم تو وہاں جاتے ہیں ‘ جہاں کھانا لا کر ہمارے سامنے رکھ دیا جائے ‘‘ ساتھ بیٹھا ہوا ایک شخص ان کی ہاں میں ہاں ملائے جا رہا تھا۔ خدا کی کرنی کیا ہوئی کہ وہی ویٹر آیا‘ جس نے ہمارے ٹیبل پر کھانا رکھا تھا۔ اس نے ہمارے ٹیبل سے برتن اٹھائے اور جا کر کسی اور میزپر رکھ دئیے۔ ان صاحب کا چہرہ دیکھنے والا ہو گیا۔میں بے اختیار ہنس پڑا اور ساتھ بیٹھے دوست سے کہا : قسمت ہی ایسی ہے ‘ دو ڈونگے آئے تھے‘ وہ بھی ویٹر اٹھا کر لے گئے۔وہ صاحب خفیف ہو کر کہنے لگے کہ ابھی آجائے گا کھانا۔ میں نے کہا : کھانا تو آجائے گا‘ لیکن جو ہمارے ساتھ ہونا تھا‘ وہ تو ہو گیا۔ 
آٹھویں سے دسویں کلاس تک میں ہاسٹل میں رہا تھا۔ ہم کچھ دوست تھے‘ جن کے درمیان پڑھائی میں آگے نکل جانے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ایک لڑکا کافی مزاحیہ قسم کا تھا ۔ اس کا سر بڑا تھا اور دانت باہر نکلے ہوئے ۔ ان دنوں دوستوں کی فرمائش پر میں ان کے لیے مظہر کلیم کی بچوں کے لیے لکھی گئی کہانیاں لے آیا ۔ ایک کہانی میں ایک کردار تھا ‘ جس کا نام تھا بانگلو ۔ اس لڑکے کو سب نے بانگلو کہنا شروع کر دیا‘ بلکہ اس کے کافی نام رکھے گئے‘ لیکن اسے ذرّہ برابر بھی اس کی پروا نہیں تھی ۔ کمرے میں ایک الارم والی گھڑی تھی ۔ ہم روزانہ صبح تین بجے کا الارم لگادیا کرتے ۔ ایک دن بانگلو پوچھنے لگا : کتنے بجے کا ہارن لگایا ہے ؟ میں نے کہا : ہارن نہیں ‘ الارم ہوتا ہے ۔ کہتاہے ‘ ہاں وہی الارم‘ پھر وہ جا کر گھڑی کو الٹا سیدھا کر کے دیکھنے لگا ۔ اس پر ایک اور لڑکا سعد بولا: بانگلو الارم تو تین بجے کا لگادیا ہے‘ اب تو دانت مار کے چار کا نہ کر دینا۔بانگلو کو شوق تھا ‘ اینٹ پھینک کے لڑائی مول لینے کا۔ ہمارے کمرے میں ایک اور لڑکا غلام صدیق بھی تھا‘ جو کافی سنجیدہ مزاج کا محنتی بندہ تھا‘ لیکن اس کے نمبر کم آیا کرتے تھے ۔ ایک دن کمرے میں سب سنجیدہ گفتگو کر رہے تھے ۔ اچانک بانگلو بولا: غلام صدیق نے ابتدائی تعلیم لیٹرین میں حاصل کی ۔ اس کے بعدظاہر ہے کہ فساد تو ہونا ہی تھا‘ لیکن اس طرح کے فساد مول لینے کا اسے شوق تھا ‘ جس میں خوب سرپٹھول ہو۔ بانگلو کے کتنے ہی واقعات یاد آرہے ہیں ۔ وہ زمانہ بھی خوب تھا!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں