"FBC" (space) message & send to 7575

کورونا اور ماڈرن میڈیسن …(آخری قسط)

آپ کورونا سے ڈرے ہوئے ہیں ‘ جبکہ یہ کچھ ہے ہی نہیں۔90فیصد افراد تو بغیر علاج کے صحت مند ہو رہے ہیں۔ بڑی عمر کے وہ افراد بھی اس سے صحت یاب ہو رہے ہیں ‘ جن کی مجموعی صحت اچھی ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ سنا ہے کہ ان کو دل کی کچھ تکلیف بھی ہے ۔ میرے اپنے خاندان میں کئی مثالیں موجود ہیں ۔ 
اس سے ہزاروں گنا زیادہ خوف و ہراس تھا پولیو کے دنوں میں ۔ چھوٹے چھوٹے بچّے ‘ جن کے کھیلنے کودنے کے دن تھے‘ وہ بری طرح معذور ہو رہے تھے۔ ان پھول جیسے بچوں کو لوہے کے سانچوں میں بند کر دیا جا تاتھا‘ تاکہ ان کی ہڈیاں زیادہ نہ مڑیں ۔ اس سے زیادہ تکلیف ایک شخص کو کیا ہوسکتی ہے کہ اس کی اولاد زندگی بھر کے لیے بری طرح معذور ہو جائے ۔ اس کی ساری نروز ہی تباہ ہو کر رہ جائیں ۔ ایک ایک قدم اٹھانا اس کے لیے تکلیف دہ ہو جائے یا اسی بیماری میں سسک سسک کر وہ مر جائے ۔ یہ وہ زمانہ تھا ‘ جب پولیو کا کوئی علاج موجود نہیں تھا۔کچھ جہلا کا کہنا یہ ہے کہ صرف اچھا کھا پی کر‘ قوتِ مدافعت کو مضبوط رکھ کر آپ بیماریوں سے بچ سکتے ہیں ۔ ان کے لیے گزارش ہے کہ جب آپ کے خاندان میں کوئی بچہ پیدا ہو تواپنے اس فارمولے پر عمل کر کے دکھائیں ؛ نہ کروائیں اس کی ویکسی نیشن اور اسے اچھی چیزیں کھلائیں ۔کبھی بھی وہ ایسا نہیں کریں گے ۔ وہ اور ان کی آل اولاد ویکسینیٹڈ ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ویکسین ہی تھی ‘ جس نے پولیو کی جڑ اکھاڑ کے رکھ دی ۔ 
ایک سابق بیورو کریٹ اور موجودہ اینکرپرسن نے ویکسین کے خلاف پروگرام کیا تھا ۔ اس پر ایک ویڈیو مجھ پر ادھار ہے ۔ میں فارغ ہو کر آپ ہی کی طرف آئوں گا ۔ میرا عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اتنا آسان نہیں ہے کہ ہزاروں برس کی مجموعی انسانی ذہانت اور تحقیق کے نتیجے میں ایجاد ہونے والی ویکسین کو آپ متنازع بنا دیں گے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ پولیو جیسا وائرس ایک مکمل صحت مند قوتِ مدادفعت رکھنے والے بچّے کو آسانی کے ساتھ تباہ و برباد کر کے رکھ سکتاہے ‘ اگر اس کے جسم میں پولیو کے خلاف مخصوص اینٹی باڈیز موجود نہ ہوں تو ! ویکسین کے چند قطرے اسے زندگی بھر کے لیے اس خون آشام چڑیل سے محفوظ و مامون کر دیتے ہیں ۔ 
شہر میں افواہیں ہیں ؛ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹر مریضوں کو زہر کے ٹیکے لگا کر مار رہے ہیں ۔ اس سے بڑا لطیفہ اور کیا ہوگا۔ ایک بندہ جو دن رات پڑھ لکھ کر امتحان پاس کر کے ڈاکٹر بنتا ہے ‘ساری زندگی لوگوں کا علاج کرتاہے ‘ وہ اچانک برین واش ہو کر لوگوں کو زہر کے ٹیکے لگانا شروع ہوجائے ۔ جس بندے کو وہ زہر کا ٹیکہ لگا کر مارتاہے ‘ اس کے ورثا کے ساتھ وہ مکمل جنگ کے لیے بھی تیار ہے ۔ اس کا ہسپتال بھی لوگوں کو قتل کرنے کے اس منصوبے میں اس کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے‘ تاکہ ہسپتال کا کام ٹھپ ہو جائے اور لوگ وہاں آنا چھوڑ دیں ‘ نیزعدلیہ ‘ پولیس اور سکیورٹی کے قومی اداروں کو بھی اس بات کی اطلاع نہیں ہوسکی کہ ملک بھر کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں نے مریضوں کو زہر کے ٹیکے لگانے شروع کر دیے ہیں ۔ 
میرے چچا کو ایک کہانی کسی نے سنائی اور انہوں نے مجھے اس سے آگاہ کیا ۔ بتاتے ہیں کہ ایک لڑکا درخت پہ چڑھ کر پھل توڑ رہا تھا۔ اچانک وہ پھسل کر نیچے گر گیا۔ اس کا ایک بازو اور ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ بازو تو انہوں نے کسی مقامی پہلوان/حکیم سے جڑوا لیا اور ٹانگ کے لیے ہسپتال جانے کا فیصلہ کیا ۔ وہاں ڈاکٹر حضرات نے ان سے کہا کہ اس مریض کو یہاں داخل کر کے آپ سب گھرچلے جائیں اور ایک دو دن کے بعد آئیں ۔ دو دن بعد جب وہ ہسپتال آئے تو وہاں اس کی لاش پڑی تھی ۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ اسے کورونا ہو گیا تھا۔ 
اب‘ اگر اس کہانی کا پوسٹ مارٹم کریں تو پہلا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جس مقامی حکیم/پہلوان نے بازو جوڑا ‘ اسی سے ٹانگ کیوں نہ جڑوا لی گئی ؟ دوسرا سوال : ڈاکٹرز کبھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ مریض کے تمام لواحقین گھر چلے جائیں ۔ ایک شخص بھی اس کے قریب نہ کرے ؟ ادویات لانا اور ہسپتال میں پیسے جمع کرانے کے کام کون کرے گا؟ تیسرا سب سے اہم سوال وہی ہے کہ جو لوگ اٹھارہ ‘ بیس سال پڑھ کر ڈاکٹر بنے‘ کیا ایک دم ان کا برین واش ہو گیا ہے کہ ایک دم وہ مسیحا سے قاتل بن گئے ہیں ۔ بڑا دل گردہ چاہیے‘ ایک شخص کو قتل کر نے کے لیے اور جو قتل کرتا ہے ‘اس کی زندگی اور نفسیات ہمیشہ کے لیے بدل کے رہ جاتی ہیں ۔ 
کچھ لوگ ہیں ‘ جو یہ دھندا کر رہے ہیں۔کہانیاں Fabricate کر کے پھیلا رہے ہیں ۔ میں ان کو دیکھ چکا ہوں ‘ ان سے مل چکا ہوں ۔ جب کوئی مریض اپنے امیون سسٹم کی وجہ سے صحت یاب ہوتا ہے ‘ جیسا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب ہو رہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ میرے کشتوں ‘ خمیروں اور پھکیوں سے صحت یاب ہوا ہے ۔ آپ بے شک اس کا ٹیسٹ کروا لیں ۔ اب‘ اس کا ٹیسٹ نیگیٹو آئے گا‘جو لوگ مر رہے ہیں‘ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ معمولی بیمار تھا‘ اسے ڈاکٹرز نے زہر کے ٹیکے لگا کر مار دیا ہے ۔ یہ کام انہوں نے تب سے شروع کیا تھا‘ جب پہلی بار ایلو پیتھی نے بر صغیر میں قدم رکھا تھا۔ اس کی کہانی پھر کبھی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں