"FBC" (space) message & send to 7575

منحوس…( 2)

اونیکا ایک ایسا بچّہ تھا، جس کی پیدائش کے دوران اس کی ماں مر گئی تھی۔ ایک ایسا بچّہ، جس کا رونا ماتمی چیخوں جیسا تھا۔ ایسے بچوں کو افریقہ میں انتہائی منحوس سمجھا جاتا تھا۔ افولابی وہ دیو قامت سرجن تھا، جس نے اونیکا کی پیدائش کے وقت اس کی ماں کی موت کے بعد ہنگامہ اٹھا کر ایک عورت کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا تھا۔ بیس سال بعد جب اونیکا اپنی کینسر زدہ بہن کے علاج کے لیے بلک رہا تھا تو ارب پتی سرجن افولابی نے اسے پہچان کر ایک بڑی رقم اسے عطا کر دی تھی۔ اب نہ صرف وہ اپنی بہن کا علاج کرا سکتا تھا، بلکہ کاروبار بھی کر سکتا تھا۔ 
اونیکا یہ رقم لے کر باہر نکلا اور دوبارہ کبھی واپس نہ آیا۔ اس نے اپنی بہن کا علاج کرایا۔ تقریبات کی فلم بنانے والی ایک کمپنی بنائی۔ بہنوں کی شادیاں کیں۔ اس کا کام اس حد تک چل نکلا کہ وہ اپنے خاندان کے تمام تر اخراجات بخوبی پورے کر لیا کرتا۔ اس کے باوجود وہ ایک متوسط طبقے کا فرد ہی تھا۔ اس کے دل پر ایک بوجھ تھا۔ جب بھی کبھی وہ کوئی قیمتی گاڑی دیکھتا تو خود سے سوال کرتا کہ وہ دن کب آئے گا، جب وہ ایک انتہائی قیمتی کار لے کر اپنے محسن افولابی کے پاس جائے گا۔ 
اس کے پاس اتنے پیسے کبھی نہ آ سکے۔ شرمندگی کے مارے اونیکا کو کبھی ہمت نہ ہوئی کہ خالی ہاتھ اپنے محسن کے پاس جا سکے۔ چالیس برس بیت چکے تھے۔ افولابی ریٹائر ہو چکا تھا اور مکمل طور پر سبکدوشی کی زندگی گزار رہا تھا۔ تنہا زندگی گزارتے اونیکا کی عمر بھی ساٹھ برس ہو چکی تھی۔ شہر سے باہر اپنے محل میں زندگی کے دن گزارتا ہوا اس کا محسن، دیوقامت افولابی پورے سو برس کا ہو چکا تھا۔
ایک دن اونیکا کی بہن اس کے گھر آئی۔ یہ وہی بہن تھی، جسے کینسر ہو گیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا بھائی تنہا بیٹھا چیخیں مار رہا ہے۔ اس کے دل میں غم بہت گہرا ئی تک اترا ہوا تھا۔ اس نے اپنے بھائی کو گلے سے لگایا۔ اسے پانی پلایا اور دلاسا دیا۔ اس نے کہا کہ وہ اسے اپنا غم بتائے۔ اونیکا نے اسے ساری بات بتائی۔ اسے بتایا کہ کینسر کا علاج کیسے ہوا تھا۔گاڑی والی بات بتائی۔
اونیکا کی بہن بہت سمجھدار تھی۔ اس نے کہا: آئو ہم اس کے گھر جاتے ہیں۔ بعض اوقات پیسوں کی ادائیگی کے علاوہ بھی کوئی ایسی صورت نکل آتی ہے کہ بندہ احسان چکا سکے۔ اس کے ہمت دلانے پر اونیکا نے گاڑی نکالی۔ وہ دونوں شہر سے باہر ارب پتی سبکدوش سرجن کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وسیع وعریض لان میں ایک انتہائی بوڑھا شخص اکیلا بیٹھا ہے۔ اس سے کچھ دور چند لڑکے لڑکیاں کھیل رہے تھے۔ شاید وہ اس کے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے ذرا برابر اہمیت نہیں دے رہا تھا۔
اونیکا نے دیکھا کہ افولابی ملازم کو آواز دے رہا تھا لیکن ملازم دو ادھیڑ عمر مردوں اور ایک عورت کے احکامات کی تعمیل میں مصروف تھا۔ ایک صدی بوڑھے سبکدوش سرجن کے لیے ان سب کی نظروں میں ناگواری تھی؛ حتیٰ کہ نوکر بھی اسے اہمیت نہیں دے رہا تھا۔ 
زندگی میں پہلی بار اونیکا کی بہن نے دیکھا کہ غصے کی شدت سے اونیکا کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی بہن سے کہا: یہ سب تو اس کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں کہ اس کی جائیداد آپس میں بانٹ سکیں۔ 
دفعتاً اونیکا اتر کر افولابی کی طرف بڑھا۔ اس کی بہن نے بھی اس کی پیروی کی۔ وہ دونوں وسیع و عریض لان میں داخل ہو گئے۔ خاندان کے سب لوگ سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ اونیکا نے ان سے کہا: جناب میں ایک پبلشنگ کمپنی کی طرف سے آیا ہوں۔ ہمارا ادارہ ماضی کے اس عظیم سرجن کا انٹرویو کرنا چاہتا ہے۔ سب بے یقینی سے اونیکا کی طرف دیکھنے لگے۔ سب سے بڑھ کر خود افولابی کی نظروں میں حیر ت تھی۔ وہ تو اس عمر میں تھا، جب اس کی کسی بات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی۔ 
چالیس برس میں اونیکا موٹا اور گنجا ہو چکا تھا اور اس نے داڑھی بھی رکھ لی تھی۔ افولابی اسے پہچان نہیں سکا۔ دھتکارا ہوا بوڑھا خوشی اور بے یقینی سے اونیکا کی طرف دیکھتا رہا۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ تو ایک آغاز تھا۔ ایک مقروض کی طرف سے اپنے محسن کو ادا کی گئی پہلی قسط۔
افولابی آہستہ آہستہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ سو سال بوڑھا سرجن‘ آج بھی سیدھا کھڑاہونے کے قابل تھا۔ انٹرویو کرنے والوں کی آمد نے اس کے چہرے پر زندگی کی ایک رمق پیدا کر دی تھی۔ افولابی نے کہا: بچّے میں تو کب کا سبکدوش ہو چکا اور اب تو اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ بہرحال پوچھو، تم کیا پوچھنا چاہتے ہو۔ بمشکل اپنی چیخیں روکتے ہوئے اونیکا نے کہا: جناب ایسے کیسے؟ ہم کیمرے لے کر آئیں گے۔ باقاعدہ شوٹنگ ہو گی۔ ''اچھا؟‘‘ بوڑھا سرجن خوشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ 
تقریبات کی کوریج کرتے ہوئے اونیکا کو چالیس برس ہو چلے تھے۔ اس دوران شہر میں ہر قسم کا کاروبار کرنے والوں سے اس کے تعلقات استوار ہو چکے تھے۔ ان میں پبلشنگ کے اداروں سے لے کر ہسپتالوں تک، ہر قسم کے اہم لوگ شامل تھے۔ وہ پبلسٹی کا کام بھی کر رہا تھا۔ کسی شخص کو اہمیت دلوانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ وہ کئی سرجن حضرات سے ملا۔ ان سے مشاورت کر کے سوالات تیار کیے۔ اگلے ہی دن وہ کیمرے لے کر اس کے گھر آ دھمکا۔ تین مختلف زاویوں سے کیمرے نصب کیے گئے۔ مائیک لگائے گئے اور ریکارڈنگ شروع ہوئی۔ 
بوڑھا افولابی اٹک اٹک کر جواب دے رہا تھا لیکن اونیکا کواس سے بھلا کیا غرض تھی۔ اگلے دن ایک مقامی ٹی وی چینل پر یہ انٹرویو اس زاویے کے ساتھ نشر ہوا کہ زیادہ سے زیادہ کس عمر تک ایک پروفیشنل سرجن کا دماغ اپنے پیشہ ورانہ امور کو یاد رکھ سکتاہے۔ ساتھ ہی یہ انٹرویو چھاپ دیا گیا۔ اونیکا نے دیکھا کہ بوڑھا افولابی بے حد خوش تھا لیکن وہ خوفزدہ بھی تھا۔ اونیکا نے محسوس کیا کہ افولابی چاہتا تھا کہ اونیکا اس کے پاس بیٹھا رہے۔ لیکن اسے علم تھا کہ آخر تو اونیکاکو جانا ہی تھا۔ بوڑھے افولابی کو کچھ علم نہیں تھا کہ صدمے میں ڈوبا ہوا اونیکا بمشکل اپنے جذبات پہ قابو پائے بیٹھا تھا۔ اگر اس کا ایک ہاتھ اس کی بہن کے ہاتھ میں نہ ہوتا تو شاید وہ کب کا چیخیں مار مار کر رونا شروع کر چکا ہوتا۔بوڑھے افولابی نے اچانک دیکھا کہ اونیکا کی بہن آنسوئوں کے ساتھ رو رہی ہے۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ یہی وہ شخص تھا، چالیس سال پہلے جو پیسے نہ دیتا تو خون آشام کینسر اس کی زندگی نگل جاتا۔ جہاں تک اونیکا کا تعلق تھا، معلوم نہیں کیسے وہ اپنی چیخوں کو اپنے گلے میں روکتا رہا۔ آخر اونیکا نے خود پر قابو پالیا۔ اس نے کہا: جناب میں اب اجازت چاہوں گا لیکن جانے سے پہلے میں ایک ضروری بات آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ اگلے ہفتے شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں ایک تقریب ہے۔ میرے سرجن دوست نے مجھے بتایا ہے کہ وہ آپ کو بطور مہمانِ خصوصی وہاں مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ 
بوڑھے افولابی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا لیکن وہ ایک انتہائی مضبوط دل کا مالک تھا۔ وہ اس قدر سخت جان تھا کہ سات برس کی عمر کے بعد زندگی بھر کبھی نہیں رویا تھا۔ اس نے کہا: میرے بچّے! میری اب ایسی کون سی اہمیت باقی رہ گئی ہے کہ مجھے مہمانِ خصوصی طور پر مدعو کیا جائے۔ اونیکا نے کہا: جناب میں کبھی سنی سنائی بات نہیں کرتا۔ ایسا ہی ہوگا، جیسا میں کہہ رہا ہوں۔ اب مجھے اجازت دیجیے۔
افولابی کے گھر والے حیرت سے سن رہے تھے کہ قبر میں پائوں لٹکائے بوڑھے سرجن کو اتنی بڑی تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جائے گا۔ اونیکا نے محسوس کیا کہ افولابی کے گھر والے اب اسے کچھ نہ کچھ اہمیت دینے لگے تھے۔ انہیں کچھ اندازہ نہیں تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں