"FBC" (space) message & send to 7575

ذہنی علاج اور معاشرتی روّیے

لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص کو ایک بار بھی ماہرِ نفسیات سے ملنا پڑا، اس کی زندگی پر ایک ایسا بدنما داغ لگ جاتا ہے، جسے وہ ساری زندگی دھو نہ سکے گا۔ یہ ایک بالکل غلط مفروضہ ہے اور اس کا حل بھی میں بتاتا ہوں لیکن پہلے میں آپ کو ایک لڑکے کے بارے میں بتائوں گا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ایک عجیب وغریب مسئلے سے دوچار ہے۔ جب بھی وہ کہیں بیٹھا ہوتا ہے اور کوئی بھی نامحرم خاتون کمرے میں آتی ہے تو اسے شدید الجھن ہونے لگتی ہے۔ دماغ سخت اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے ایک اچھی خاصی سرکاری نوکری چھوڑی اور اپنے معاشی مستقبل کو شدید نقصان پہنچایا۔ اب دوسری جگہ بھی یہی مسئلہ ہے۔ وہ شادی شدہ تھا اور بالکل شریف النفس۔ اس کی تمام تر سوچ اس نکتے پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھی کہ کوئی نامحرم خاتون وہاں نہ آئے، جہاں وہ بیٹھا ہوا ہو۔ مسلسل ایک خوف اس پر سوار تھا۔ اس کی زندگی اس شدید خوف تلے سسکتے ہوئے گزر رہی تھی۔
اگر آپ کے ساتھ زندگی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ کا ذہن کئی دن تک ایک ہی تکلیف دہ خیال میں پھنس کر رہ گیا ہو تو آپ اس شخص کی اذیت محسوس نہیں کر سکیں گے۔ وہ اس اذیت سے نکلنے کے لیے تڑپ رہا تھا لیکن نکلتا کیسے؟ اس کی معاشی اور معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہو چکی تھی۔
آپ میں سے اکثر لوگ کہیں گے کہ یہ تو کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اسے اس بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ ایک Obsessed بندے کی تکلیف وہ خود محسوس کر سکتا ہے، اس کے اہل و عیال یا ڈاکٹر۔ میں نے اسے ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ کچھ عرصے بعد اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور یہ کہا کہ وہ نارمل زندگی کی طرف لوٹ آیا ہے۔ میں نے اس سے دوا کا نام پوچھا۔ یہ obsession کے خلاف مزاحمت کرنے والی ایک مشہور دوا تھی۔ 
بظاہر مسئلہ خواتین کا تھا لیکن اصل چیز تھی obsession۔ اس کا دماغ obsessed ہو چکا تھا۔ اب اگر وہ خواتین والے مسئلے میں سے نکل بھی آتا تو اس کی جگہ کوئی اور مسئلہ لے لیتا۔ جب obsession دماغ میں اپنی جگہ بنا لیتی ہے تو پھر یہ انسان کی شخصیت اور اس کی اخلاقیات کے مطابق شکلیں بدل بدل کر اس پر حملہ آور ہوتی ہے۔ کسی کسی کو مذہبی طور پر اذیت ناک خیالات آتے ہیں۔
وہ اس سٹیج پر تھا کہ اگر دوا نہ کھاتا تو کبھی اس مسئلے سے باہر نہ نکل سکتا۔ اگر میں بے وقوف ہوتا تو متبادل طریقۂ علاج والوں کی طرح سوشل میڈیا پہ چڑھ کر اس دوا کا ڈھول بجانا شروع کر دیتا۔ میں تو مگر جانتا ہوں کہ اس طرح سے ادویات تجویز کرنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام ہے۔ ہمارے ہاں تو خیر لوگ صدقۂ جاریہ سمجھ کر اپنے کالم میں ادویات کے نام تجویز کر رہے ہوتے ہیں۔ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسے چھپوا کر بانٹو۔ دماغ دنیا کی سب سے پیچیدہ مشین ہے۔ اپنے تمام تر علم اور تجربے کے باوجود ایک ماہرِ نفسیات بھی بیماری کی تہہ تک پہنچنے میں کافی ٹائم لے سکتا ہے، کجا یہ کہ ایک عام بندہ یہ کام شروع کر دے۔
ایک نوجوان نے اپنے ذہنی خلجان کے بارے میں بتایا۔ اس نے کہا: میں ایک روز سڑک سے گزر رہا تھا‘ سڑک کنارے ایک بڑا پتھر پڑا ہوا تھا‘ میں اسے نظر انداز کر کے گھر آ گیا۔ دوسرے دن مجھے خیال آیا کہ وہ پتھر سڑک کے بالکل قریب تھا۔ ہو سکتاہے کہ کوئی موٹر سائیکل اس پتھر کی وجہ سے گر جائے۔ یہ میرا فرض تھا کہ اس پتھر کو دور پھینک دیتا۔ خیر میں اگلے دن گیا اور تین چار کلو کا وہ پتھر اٹھا کر دور پھینک دیا۔ اگلے دن مجھے وہم ہوا کہ وہ پتھر میں نے دور پھینک دیا تھا یا نہیں؛ حالانکہ اندر ہی اندر مجھے معلوم تھا کہ یہ کارِ خیر میں سر انجام دے چکا ہوں لیکن وہم اتنا شدید تھا کہ مجھے ایک بار پھر جا کر تصدیق کرنا پڑی کہ وہ سڑک کے قریب موجود نہیں تھا۔ اس بات کو کئی مہینے ہو چکے ہیں۔ اب مجھے روزانہ جا کر دیکھنا پڑتا ہے کہ میں نے وہ پتھر سڑک سے دور پھینک دیا تھا یا نہیں۔ آہستہ آہستہ اگلے دن سے بات چند گھنٹوں تک آ گئی۔ اس جگہ کا دورہ کرنے کے دو تین گھنٹے بعد اسے خود کو یقین دلانا ہوتا تھا کہ پتھر سڑک سے دور تھا۔ اس نے آج بھی اپنی آنکھوں سے اس کی تصدیق کی ہے۔
ایک شخص نے بتایا کہ نہانے کے بعد اکثر وہ اس وہم کا شکار رہتاہے کہ اس کا کوئی نہ کوئی عضو خشک رہ گیا ہوگا؛ چنانچہ غسل کرنے کے باوجود وہ ناپاک ہے۔ اگر ناپاک حالت میں وہ نماز پڑھتا یا قرآن کو ہاتھ لگاتا ہے تو گناہ کا مرتکب ہوگا۔ اس نے کہا کہ پاک صاف ہونا اس کے لیے اتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ وہ ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا رہتا ہے۔
یہ تینوں بندے obsession کا شکار تھے۔ وہ اس سٹیج پر پہنچ چکے تھے کہ medication کے بغیر وہ اس میں سے نکل نہیں سکتے تھے۔ جسمانی ورزش مدد دے سکتی ہے لیکن ذہن پہلے ہی تھکا ہوا ہو تو انسان ورزش کیا کرے گا؟ دوسری چیز ہے قرآن کا ایک حصہ یاد کرنا، جس سے obsession دھل جاتی ہے۔ قرآن کی آیات دماغ کے خلیات میں جب محفوظ ہوتی ہیں تو معجزہ کردکھاتی ہیں لیکن جو خدا کو مانتے ہی نہیں؟ 
آپ نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا، بالخصوص ٹین ایجرز کو‘ جو سخت ذہنی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی بچّے کو مذہبی معاملات پر ایسے خیالات تنگ کر رہے ہوتے ہیں، جن سے اسے ذہنی کوفت ہو تی ہے۔ کوئی شدید تنہائی کا شکار ہوتا ہے اور کوئی مسلسل خوف کا۔ میں ایسے لوگوں سے ملتا رہتا ہوں۔
پریشانی زندگی کا حصہ ہے۔ آپ کو کاروبار میں نقصان ہو جاتا ہے۔ والدین یا اولاد میں سے کوئی فوت ہو جاتا ہے۔ اولاد کی طر ف سے پریشانیاں آتی ہیں۔ دما غ میں اللہ نے تکلیف دہ حالات کے ساتھ سمجھوتا کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ جو شخص اولاد کے فوت ہونے پر شدید غم کا شکار ہوتا ہے‘ وہ بھی کچھ عرصے بعد مسکرانے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہ بات لیکن بیشتر لوگ نہیں جانتے کہ وقتی اداسی کے دوروں اور شدید اور مستقل ڈپریشن میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شدید اور مستقل ڈپریشن کو کلینکل ڈپریشن یا میجر ڈپریشن کہتے ہیں۔
بزرگ لوگ جب ایسے لڑکے‘ لڑکیوں کو ذہنی اذیت میں آنسو بہاتا دیکھتے ہیں تو وہ انہیں کہتے ہیں کہ وہم نہ کیا کرو‘ کچھ نہیں ہے‘ خوش رہا کرو‘ ہنسا کھیلا کرو‘ ورزش کیا کرو‘ نماز پڑھو‘ تلاوت کرو۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو روز اتنا پیدل چلتے تھے یا پندرہ پندرہ گھنٹے کام کرتے تھے۔
یہ سب باتیں ٹھیک ہیں لیکن فرض کریں کہ وہ بیچارہ کلینکل ڈپریشن کا شکار ہے تو وہ کیسے ان سب ہدایات پہ عمل کرے؟ اس کا دماغ تکلیف سے باہر نکلے گا اور اس میں توانائی ہوگی تو ہی وہ کوئی صحت مند کام کرے گا۔ ایک شخص کو زخم لگا ہوا ہے‘ آپ اسے کہہ رہے ہیں کہ اس زخم کو نظر انداز کر کے وہ اپنے سارے معمولاتِ زندگی نارمل طریقے سے انجام دیتا رہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کو تیز بخار ہے اور آپ اسے نارمل انداز میں معمولاتِ زندگی سر انجام دیتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یا کسی کو متلی ہو رہی ہے اور وہ شدید کوشش کر کے دوسروں کی طرح محنت مشقت کرتا رہے۔ سوال یہ ہے کہ کتنے دن کر لے گا؟ وہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے‘ جو غیر حساس اور سخت جان ہیں۔
کلینکل ڈپریشن کیا ہے؟ طویل عرصے تک تکلیف دہ خیالات اور حالات کے نتیجے میں دماغ میں ہونے والی ایسی منفی تبدیلیاں، جنہیں ادویات/علاج کے بغیر درست نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کلینکل ڈپریشن کا شکار ایک شخص اپنا ارادہ مضبوط کر کے دو سال بھی زور لگاتا رہے تو پھر بھی وہ ذہنی تکلیف سے نکل نہیں سکتا۔ (جاری ) 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں