"FBC" (space) message & send to 7575

انسان کو آزمائش سے کیوں گزارا جاتا ہے؟

کبھی آپ نے اس بچّے کو دیکھا ہے، جو جھولا لینے یا آئس کریم کھانے کی ضد کر رہا ہو؟ اس وقت اس کی کیا حالت ہوتی ہے اور کس قدر وہ بے چین ہوتا ہے؟ دو چھوٹے چھوٹے بچّے ہوں اور اچانک انہیں تین پہیوں والی ایک سائیکل نظر آئے۔ ان میں سے ایک بھاگ کر اس پر سوار ہو جائے اور دوسرا رہ جائے تو اس وقت اس کی کیا حالت ہوتی ہے؟ کیسے چیخ چیخ کر وہ آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے۔ اس وقت اس کے ماں باپ کیا سوچتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ گھر میں اس کی اپنی تین پہیوں والی سائیکل بے کار پڑی رہتی ہے اور اس پر تو یہ بیٹھتا ہی نہیں۔ اگر اس کو یہ سائیکل دے دی جائے تو تھوڑی دیر بعد اس کا دل اس سائیکل سے بھی بھر جائے گا اور یہ یونہی ایک طرف پڑی ہوگی۔ جو آدمی عمر میں بڑا ہے، اسے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بچّے کی ضد کی حیثیت کیا ہے۔ ماں باپ کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر اسے سائیکل یا آئس کریم نہ دی گئی تو یہ کتنی دیر روئے گا۔ کتنے آنسو بہائے گا اور پھر کتنی دیر بعد یہ اس سائیکل کو بھول کر کسی اور چیز کے پیچھے چل پڑے گا۔ 
میرے خیال میں خدا کے سامنے ہم بڑی عمر کے لوگ بھی اس بچّے ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ صرف ہماری خواہشات بدل جاتی ہیں۔ ایک دفعہ میں ایک امیر دوست کے ساتھ بیٹھا تھا۔ باتوں باتوں میں کہنے لگا: یار کہیں سے پیسے آئیں تو میں تین کروڑ روپے کی ایک گاڑی لینا چاہتا ہوں۔ میں نے دیکھا، اس وقت اس کی حالت ایسی تھی، جیسے ایک چھوٹا سا بچّہ ٹافی کی خواہش کر رہا ہو۔
سب کا یہی حال ہے۔ جس کے پاس موٹر سائیکل ہے، وہ دس لاکھ روپے کی گاڑی لینا چاہتا ہے۔ جس کے پاس پہلے سے گاڑی موجود ہے، وہ اس سے بہتر سواری۔ خواہش اگر پوری کر دی جائے تو انسان کے دل میں اطمینان نہیں اترتا بلکہ اس خواہش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آپ ذرا سوچیں کہ اگر آپ کو شدید پیاس لگی ہو اور کہیں سے آپ کو پانی مل جائے لیکن جیسے ہی آپ پانی پینا شروع کریں تو آپ کی پیاس ختم ہونے کے بجائے بڑھنا شروع ہو جائے۔ اس وقت آپ کی حالت کیا ہوگی؟ کیا بادشاہوں کا حال یہی نہیں ہوتا کہ اپنی سلطنت کے ہوتے ہوئے ہمسایہ بادشاہ کی ریاست پہ ان کی رال ٹپک رہی ہوتی ہے۔ اس بچے کی طرح، جو اپنے کزن کی تین پہیوں والی سائیکل ہتھیانا چاہتا ہو۔ بڑے بڑے بادشاہ ساری زندگی دوسری سلطنتوں کو فتح کرنے میں مصروف رہے۔ انہیں یہ بات معلوم ہی نہیں تھی کہ وہ ایک طرح سے ذہنی طور پر بیمار ہو چکے ہیں۔ کسی بھی بڑی سلطنت کو حاصل کرنے سے ان کی پیاس بجھے گی نہیں بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوگا۔ اس کے برعکس آپ وہ لوگ دیکھیں، جن کا خدا سے تعلق ہے۔ ان کے پاس فقط ایک وقت کا کھانا موجود ہو تو وہ مطمئن ہوتے ہیں۔ 
ایک دفعہ کسی دانا کا قول پڑھا تھا: زندگی کو خواہش میں نہیں بلکہ ضرورت میں بسر کرو۔ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے اور خواہش بادشاہوں کی بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔ جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے کہ ابنِ آدم کو اگر ایک سونے کی وادی دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی آرزو کرے گا۔ 
بچپن میں ایک گیم کھیلی تھی جی ٹی اے وائس سٹی۔ آپ ا س میں پیسے جمع کر کے جائیداد خریدتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر لیتے ہیں اور بڑی بڑی گاڑیاں۔ آپ کھیلتے جائیں۔ چند روز میں آپ کی نفسیات تبدیل ہونا شروع ہو جائے گی۔ آپ پاگلوں کی طرح پیسے جمع کرتے چلے جاتے ہیں اور پورے شہر کی ایک ایک جائیداد خریدتے چلے جاتے ہیں۔ انسان جیسے پاگل نہیں ہو جاتا۔ جائیداد پہ جائیداد خریدنے لگتا ہے۔ خواہش جیسے بھڑکنے لگتی ہے۔ سب کچھ خرید کر بھی دل بھرتا نہیں؛ حالانکہ آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ یہ سب کچھ کمپیوٹر کے اندر ہی ہے، حقیقت میں کوئی جائیداد ہے ہی نہیں۔ اس کے باوجود انسان کی نفسیات بگڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ تو آپ سوچیں کہ حقیقی زندگی میں ایسی جائیداد اور ایسی گاڑی، جسے انسان چھو سکے، جس پہ سوار ہو سکے، اس کی نفسیات پہ کیا اثر ڈالتی ہوگی۔ 
اسی طرح ایک دفعہ کسی نے سیکنڈ لائف کے بارے میں بتایا۔ آپ حقیقی دنیا میں کچھ نہیں کر سکے تو گیم کے اندر اپنی ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں، جس میں آپ کے پاس دنیا کی ہر آسائش ہوتی ہے۔ اسی طرح لوگ فیس بک میں اپنی ایک مصنوعی زندگی تعمیر کرتے ہیں۔ وہ لوگ‘ جن کی بات ان کے گھر اور محلے والے بھی نہیں سنتے‘ وہ وہاں پردھان منتری بن کر بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن حقیقت گیم سے باہر بھی یہی ہے کہ کوئی جائیداد اپنا وجود نہیں رکھتی۔ انسان کو حواسِ خمسہ کی عمارت میں قید کر دیا گیا ہے اور اس کے سامنے یہ رنگ برنگی گاڑیاں اور عمارتیں اس طرح سے سجا دی گئی ہیں، جیسے ایک بچّے کے لیے تین پہیوں والی سائیکل سجا دی جاتی ہے۔ جب آپ بڑے ہوتے ہیں تو تین پہیوں والی سائیکل کی جگہ ایک لینڈ کروزر لے لیتی ہے۔ اگر آپ کو لینڈ کروزر مل جائے تو اس سے اطمینان پیدا نہیں ہوگا۔ آپ یہ خواہش کریں گے کہ میرے پاس ایک جیٹ ہو اور میں پورے کرہ ارض پہ اڑتا پھروں۔ یہ خواہش پوری کر دی جائے تو آپ کی اگلی خواہش یہ ہوگی کہ ایک ایسا راکٹ ہو، جس پہ سوار ہو کر دوپہر کا کھانا کسی اور سیارے پہ کھایا کروں۔ بات وہی ہے کہ پیاس نہیں بجھتی۔ انسان جتنی مرضی جائیداد اکٹھی کر لے، حیاتیاتی طور پر وہ اس طرح سے تخلیق کیا گیا ہے کہ اپنی زندگی کو ایک خاص حد سے زیادہ آرام دہ بنا ہی نہیں سکتا۔ 
جس طرح ہم بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بچوں کی ضد کوئی حیثیت نہیں رکھتی، کچھ اسی قسم کا معاملہ ہم بڑی عمر کے لوگوں کی ضد کا خدا کے ہاں ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بچّہ کتنی دیر ضد کرنے اور رونے کے بعد خاموش ہو کر سو جائے گا۔ اسی طرح خدا کو بخوبی یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتنی دیر ہم روئیں گے اور پھر اپنی خواہش بھول کر کسی اور طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ آپ یہ دیکھیں کہ بچّہ بلک رہا ہوتا ہے کہ میں نے آئس کریم کھانی ہے۔ ماں باپ کہتے ہیں کہ نہیں، اس کا گلا خراب ہے۔ اس وقت بچّے کی جذباتی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ 
اس وقت کے بارے میں سوچیے، جب بچّہ چیخیں مار رہا ہوتا ہے کہ میں نے انجکشن نہیں لگوانا اور اس سے شدید محبت کرنے والے ماں باپ اسے زبردستی پکڑ کر انجکشن لگواتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس انجکشن میں بچّے کی بہتری پوشیدہ ہے۔ اسی طرح دنیا میں سب انسان وقتی تکلیف سے بچنے کے لیے بڑا زور لگاتے ہیں لیکن خدا انہیں تکلیف سے گزارتا ہے۔ اسی سے پھر ان کی تکلیف برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی میں Learning ہوتی ہے۔ تکلیف کے بغیر بچہ دنیا میں کیا سیکھ سکتا ہے؟ پانچ برس کی عمر میں‘ جب وہ اپنے ماں باپ سے الگ ہو کر‘ سکول جاتا ہے تو کتنی چیخ و پکار کرتا ہے۔ پھر وہ سکول میں کیا کچھ نہیں سیکھتا۔ ماں باپ اگر اسے گھر میں ہی لے کر بیٹھے رہیں تو کیا وہ زندگی میں کچھ سیکھ سکے گا؟ 
ایک دفعہ میں نے ماں کی محبت اور خدا کی محبت میں فرق لکھا تھا۔ ماں کی محبت خالصتاً جذباتی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ اس میں علم نہیں ہوتا۔ خدا 70مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے لیکن اس کے پاس مکمل علم ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کون سی تکلیف بچّے کے لیے اچھی ہے اور جب وہ سخت جان ہو جائے گا تو پھر دوسرے بچوں سے اسی سخت جانی کی وجہ سے آگے نکل جائے گا۔ اس لیے وہ اسے اس طرح تکلیف دہ حالات سے گزارتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عظیم لوگ زیادہ آزمائش سے گزارے جاتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں