"FBC" (space) message & send to 7575

نئی جنگی جہات

میں ایسے موضوعات پہ لکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ جن پر شاید ہی کبھی کسی نے لکھا ہو گا۔ میری خوش قسمتی یہ تھی کہ مختلف شعبوں کے لیجنڈز تک مجھے خود بخود ہی رسائی مل گئی۔ میڈیکل سائنس پر جو کچھ میں نے لکھا، اس میں عالمی شہرت یافتہ پروفیسر ڈاکٹر ملک حسین مبشر جیسے استاد کا عمل دخل تھا۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ان کا صدمہ باقی رہے گا۔ وہ اچھے خاصے صحت مند تھے لیکن دل تو کسی وقت بھی جواب دے سکتا ہے۔ 
خوش قسمتی یہ تھی کہ عسکری معاملات میں جنرل احسن محمود جیسے جینئس سے کئی بار سوالات کا موقع ملا۔ ایک بار جب میرے والد سے وہ تبادلۂ خیال کر رہے تھے تو میں سوچنے لگا کہ اگر مسلمانوں کی جنگی تاریخ اور موجودہ صورتِ حال پر جنرل احسن محمود ایک کتاب لکھ دیں تو اس موضوع پر یہ بہترین کتابوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ بہرحال زیرِ نظر کالم میں مسلمانوں کی عسکری صورتحال پر چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
مسلمانوں نے جب جزیرہ نما عرب سے باہر قدم نکالے تو دنیاوی اعتبار سے وہ تقریباً خالی ہاتھ تھے۔ سرکارِ دو عالمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو یہ بات بتا رکھی تھی کہ عربوں پر دولت کا فتنہ آئے گا۔ ایک وقت آئے گا کہ ننگے پائوں والے بدو فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں گے۔ اس وقت بظاہر وہ بے سر و سامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے۔ خود سرکارِ دوعالمﷺ نے تین سال شعبِ ابی طالب میں بدترین حالات کا ثابت قدمی سے سامنا کرتے ہوئے گزارے۔ سرکارﷺ نے مگر جب ارشاد فرما دیا کہ دولت کا فتنہ آئے گا تو انسانی تاریخ کے ان عظیم ترین شاگردوںؓ نے فوراً سر تسلیمِ خم کر دیا۔ ہمیشہ وہ یہ کہتے تھے کہ اللہ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتے ہیں۔ مسلمانوں نے پھر دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا اور دولت ہر طرف سے ان کی طرف کھنچی چلی آئی۔ صحابہ کرامؓ نے زندگیاں ایسے بسر کیں کہ ایک ہاتھ ہمیشہ تلوار کے دستے پر ہوتا۔ وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی بسر کرنے والے لوگ تھے۔ اسی طرح سرکارِ دو عالمﷺ نے انہیں یہ بھی بتا دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا، جب مسلمانوں کی کوئی حیثیت دنیا میں باقی نہ رہ جائے گی اور دشمن اقوام ان پر ٹوٹ پڑیں گی۔ یہ سن کر وہ بہت حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ کیا اس وقت ہم تعداد میں بہت کم رہ جائیں گے؟ سرکارﷺ نے اس مفہوم کے کلمات ادا کیے کہ نہیں! تم کثرت میں ہوگے لیکن اس زمانے میں تمہارے دلوں میں دنیا کی محبت اور موت کا خوف اتر آئے گا۔ آج وہی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔
اہلِ عرب سے جب دنیا کی حکومت چھن گئی تو اس کے صدیوں بعد اللہ نے دوسری بار ان پر دولت نازل کی۔ لوگ کہتے ہیں کہ میں نے زندگی میں بہت محنت کی اور دولت اکٹھی کر لی۔ ایسا نہیں ہوتا۔ جب اللہ نے دولت دینا ہو تو پھر یہ دولت وہ نازل کر دیتا ہے۔ جیسے عرب سے تیل نکل آیا۔ وہاں کے مکینوں نے کون سی محنت کی تھی؟ اللہ راستے خود بنا دیتا ہے۔ نکموں کے خاندان میں ایک بچہ بل گیٹس جیسا پیدا کر دیتا ہے۔
لیکن یہودیوں کا معاملہ کیا ہے؟ کیا عربوں کے برعکس وہ موت سے بے خوف ہو چکے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں! یہودیوں کی عادت تھی ڈینگیں مارنے کی۔ وہ کہتے تھے کہ ہم تو اللہ کے خاص اور مقرب لوگ ہیں اور ہمارے لیے تو آخرت میں بے انتہا انعام و اکرام ہے۔ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ان سے فرما دیجیے کہ اگر تمہارے لیے آخرت میں یہ سب کچھ ہے تو ذرا موت کی آرزو تو کرو۔ اور کہا کہ وہ کبھی موت کی آرز و نہ کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار سال تک زندہ رہیں۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ 1967ء اور 1973ء میں یہودیوں نے دو بار عربوں کو شکست دی لیکن عربوں کے پاس فوج تھی کہاں۔ وہ فوج تھوڑی تھی‘ وہ تو بھان متی کا کنبہ تھا۔ یہودی کوئی اتنی جنگجو قوم ہرگز نہیں۔ یہ بزدل لوگ ہیں لیکن اپنے ختم ہو جانے کے خوف سے انہوں نے ایسی جنگی ٹیکنالوجیز تیار کی ہیں، جس سے انہیں خود موت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا‘ وہ دشمن کو تباہ و برباد کرنے کے بعد نیچے اترتے ہیں۔ اگر دو سو سال پہلے کی دنیا میں آپ کے پاس ایک ایسا جنگی جہاز موجود ہوتا، جس کا ایندھن ہوا میں ہی بھرا جا سکتا تو آپ کرّہ ارض کے تمام انسانوں کو موت کی نیند سلا سکتے تھے۔ اہلِ عرب نے بے انتہا جنگی سامان خریدا لیکن وہ دنیا کی محبت میں اتنے مدہوش ہو چکے تھے کہ جہاز اڑانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ 
یہودیوں کو ایسی جنگ کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جس میں زندگی اور موت کی جنگ جنگی تربیت یافتہ دشمن سے دوبدو لڑنا پڑے۔ ان کی نظر میں دنیا کی دو مسلمان افواج ایسی ہیں، جو خطرناک حد تک جنگجو ہیں۔ ان میں سے ایک ترک ہیں، جنہوں نے 2015ء میں روس جیسی خوفناک جنگی اور ایٹمی طاقت کا طیارہ مار گرایا تھا۔ دوسری طرف داعش کے دہشت گردوں نے ترک سپاہیوں کو زندہ جلایا لیکن ترکوں نے خوف زدہ ہو نے سے انکار کر دیا۔
دوسری مسلم فوج پاکستان کی ہے۔ آپ اندازہ اس سے لگائیں کہ امریکہ 832ارب ڈالر خرچ کرکے بھی افغانستان میں ہار گیا۔ اس کے مقابلے میں پاکستانی فوج نے قریب چالیس پچاس ارب ڈالر خرچ کیے اور خود کش حملہ آوروں کے خلاف جنگ جیت لی۔ لطیفہ یہ ہے کہ امریکی اگر یہ 832ارب ڈالر پاکستانی فوج کے مشورے سے خرچ کرتے تو افغانستان کئی بار فتح ہو سکتا تھا۔ وہ تو مگر ڈالر کنویں میں پھینکتے رہے۔
ساڑھے سات سو ارب ڈالر دفاعی بجٹ والا امریکہ افغانستا ن میں ہار گیا۔ ویت نام میں بھی تو وہ ہار گئے تھے۔ پاکستان سے جو نیٹو سپلائی افغانستان بھیجی جاتی تھی‘ اس کا ایک بڑا حصہ ڈائپرز پر مشتمل ہوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گشت کے دوران امریکی اور یورپی فوجی جب رفع حاجت کے لیے اپنی گاڑیوں سے باہر نکلتے تو گھات لگائے جنگجو انہیں قتل کر دیتے‘ اس پر انہوں نے ڈائپرز استعمال کرنا شروع کیے۔ اگرچہ امریکہ نے اس خبر کی تردید کی تھی مگر جو سپاہی دشمن کے خوف سے ڈائپر میں رفع حاجت کر رہا ہو، وہ لڑے گا جنگ؟
پاک افغان سرحدی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان میں دنیا کی سب سے بڑی خودکش حملہ آور تیار کرنے والی فیکٹریاں لگی ہوئی تھیں۔ پاک فوج نے خودکش حملہ آوروں کو اس حال میں شکست دی کہ مشرق میں بھارت نے ایک لمحہ بھی اسے سکون سے رہنے نہ دیا۔ دنیا کی جنگی تاریخ میں ایک نئی Dimension پیدا ہو گئی ہے۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ خود کش حملہ آوروں کو کسی فوج نے اس حال میں شکست دی کہ چھ گنا بڑی دشمن ریاست مسلسل تنگ کر رہی ہو۔ 
یہودی جنگجو کبھی بھی نہیں تھے۔ وہ موت سے اتنا ڈرتے ہیں کہ اگر ایک آٹھ سال کی فلسطینی لڑکی چھری نکالے تو چاروں طر ف سے گھیر کر اس پر فائرنگ شروع کر دیتے ہیں؛ حالانکہ بہ آسانی اس سے چھری چھینی جا سکتی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ وہ موت سے کتنا ڈرتے ہیں۔ انہیں اگر سخت جنگی تربیت یافتہ فوج سے واسطہ پڑے اور جب موت ان کو سامنے نظر آئے تو ان کے اعصاب فوراً ہی جواب دے جائیں گے۔ ایسی افواج سے جنگ ان کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہودی بڑے شاطر ہیں‘ دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ جو قوم اللہ کے اس فیصلے کے خلاف لڑنا شروع کر دے کہ آخری پیغمبر ہماری قوم سے باہر کیسے مبعوث ہو گئے‘ وہ کتنی سمجھدار ہو سکتی ہے؟ بالآخر تو اسے شکست ہی ہونا ہے۔قرآن میں اللہ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اگر تمہارے دل گھبرا رہے ہیں تو دشمن کا دل بھی گھبرایا ہوا ہے۔ یہودیوں کے دل ہم سے زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں