"FBC" (space) message & send to 7575

نئی جنگی جہات… (2)

دو دشمن ممالک کے مابین جنگ میں جب کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ حریف کی نفسیات پر باقی رہنے والے شدید اثرات مرتب کرتا ہے۔ گزشتہ سال بھارت نے جنگی ماحول بنا دیا تھا اور ایک بار اس کے جنگی طیارے پاکستا ن کے اندر گھس کر واپس جا چکے تھے۔ پاکستانی افواج نے انتہائی ذہانت سے کام لیتے ہوئے بھارت کے چار اہم مقامات پر‘ جہاں انتہائی اہم شخصیات موجود تھیں‘ دور مار ہتھیاروں کے ذریعے گولے برسائے۔ توقع کے عین مطابق جواباً بھارتی جنگی جہاز ایک بار پھر پاکستان میں داخل ہوئے تو انہیں گرا دیا گیا۔ اس واقعے نے بھارت کی نفسیات پر بھیانک خوف طاری کیا۔ اس سے زیادہ بے عزتی ایک ایٹمی طاقت کی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کا جنگی جہازدشمن کی حدود کے اندر ہی گر جائے اور وہ احتجاج کے قابل بھی نہ رہے۔
گزشتہ برسوں میں روس اور نیٹو کے تعلقات کشیدہ تھے۔ یورپ کی فضائوں میں نیٹو اور روس کے جنگی جہازوں کا کئی بار آمنا سامنا ہوا۔ فریقین میں سے کسی کو دوسرے پر حملے کی جرأت نہ ہو سکی۔ انہی دنوں شام جانے والے روسی جنگی طیارے جان بوجھ کر ترک فضائوں کے اندر سے گزرنے لگے کہ ترکوں کے اعصاب توڑ دیے جائیں۔ ترکی نے پھر روس کا ایک جنگی جہاز گرا دیا۔ پوری دنیا میں اس دن سناٹے کا عالم تھا۔ دنیا میں کس کی جرأت تھی کہ دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت کا جہاز گرا دے؟
اب آ جائیں مسلم امہ کے تصور پر۔ رسالت مآبﷺ نے ہمیں مسلم امہ کا ایک تصور دیا۔ مسلمان کالا ہو، گورا ہو، عربی ہو، عجمی ہو، سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ احادیث میں ''میری امت، میری امت‘‘ کی تکرار ملتی ہے۔ حدیث ہے کہ قیامت کے دن میری امت کے لوگ (اپنے جسم پر) وضو کے نشانات سے پہچانے جائیں گے۔ حضرت نعمانؓ بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: سب مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ اگر اس کی آنکھ دکھے تو سارا جسم اس دکھ کو محسوس کرتا ہے اور اسی طرح اس کے سر میں تکلیف ہو تو بھی سارا جسم تکلیف میں شریک ہوتا ہے۔ (صحیح مسلم) یہ ہے تصور مسلم امہ کا اور مسلم امہ کا تصور دینے والی ہستی کون ہے؟ انسانی تاریخ کی سب سے اہم شخصیتؐ، جس نے بغیر رسمی تعلیم کے‘ پوری دنیا کا نقشہ تا قیامت بدل کے رکھ دیا۔ جن کے اصحابؓ صحرا سے خالی ہاتھ نکلے اور دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا۔ وہ ہستیؐ، جن کی بدولت زوال کے اس دور میں بھی دنیا کی ایک تہائی آبادی مسلمان ہے۔ زوال کے اس دور میں بھی ترکی اور پاکستان جیسے مسلم ممالک انتہائی جنگجو افواج رکھتے ہیں۔ کرّۂ ارض پہ سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیات کی فہرست بنائی جائے تو رسالت مآبﷺ کو ہمیشہ پہلے نمبر پہ رکھا جاتا ہے۔
لیکن پاکستان میں کچھ لوگ ایسے ہیں۔ ان کے سامنے مسلم امہ کی اصطلاح استعمال کی جائے تو ان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے مرگی کا دورہ پڑ گیا ہو، ہاتھ پائوں مڑ جاتے ہیں اور منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تم ہو تے کون ہو مسلم امہ کا نام لینے والے۔ کوئی مسلم امہ ہے ہی نہیں۔ انسانی تاریخ کی سب سے اہم شخصیت۔ دنیا کی ایک تہائی آبادی‘ بغیر دیکھے آج بھی جن پر درود و سلام بھیجتی ہے‘ انؐ کا فرمان تو یہ ہے کہ مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں۔ ایک عضو میں تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ ادھر دوسری طرف کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ خبر دار کسی نے مسلم امہ کی اصطلاح استعمال کی۔ فرماتے ہیں کہ بابر کو اس کے چچائوں نے مارا تھا۔ مسلمانوں نے ہمیشہ مسلمانوں کو مارا؛ چنانچہ کوئی امہ وجود ہی نہیں رکھتی۔ بندہ ان سے پوچھے کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی، یورپ اور امریکہ نے ایک دوسرے کا کیا حال کیا تھا؟ امریکہ نے جاپان کا کیا حال کیا تھا؟ آج وہ سب باہمی طور پر شیر و شکر ہیں تو مسلمان کیوں متحد نہیں ہو سکتے؟ 
نوبت یہاں تک آگئی کہ مسلم امہ کی کوئی اصطلاح استعمال کرے تو اکٹھے ہو کر اس کے لتے لینے شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی سرکارﷺ کے امت سے متعلق واضح ارشادات کے باوجود ہمیں ان سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑے گا کہ امت کی اصطلاح استعمال کریں یا نہ کریں۔ جس شخص نے سب سے پہلے امت کے تصور کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا، چند ماہ پہلے ہی اس کے تین بیٹے منظرِعام پر آئے‘ کئی یوٹیوب چینلز پر انہوں نے یہ بتایا کہ ہمارے والد نے ساری زندگی ہم پہ جسمانی اور ذہنی تشدد کیا اور ہم ذہنی طور پر بیمار ہو گئے، تباہ و برباد ہو گئے۔ اپنے دولت مند باپ کے ہوتے ہوئے ہم فاقوں مر رہے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ، جو فیصلہ کریں گے کہ مسلم امہ کے الفاظ ہم استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں۔ یہ صرف ان کا قصہ نہیں، جو بندہ بھی امتِ مسلمہ کے تصور کے خلاف ڈٹ کر کھڑا تھا، اس کا ماضی اسی طرح کے حادثات سے بھرپور نظر آئے گا۔ اگر آپ کہیں تو میں مزید حادثات بیان کروں؟ 
رسالت مآبﷺ فرما رہے ہیں کہ میری امت ایک جسم کی مانند ہے۔ دوسری طرف اپنی سگی اولاد کو تباہ و برباد کر دینے والے یہ بیمار لوگ ہیں، جن کا کہنا یہ ہے کہ خبردار جو امتِ مسلمہ کے لفظ کسی نے استعمال کیے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ کس کی جرأت ہے کہ ہمیں مسلم امہ کا لفظ استعمال کرنے سے روک سکے؟ ہمیں ہمارے پیغمبرﷺ نے امت کا لفظ دیا ہے۔ کسی کی یہ مجال نہیں کہ ہمیں اس کو برتنے سے روک سکے۔ جو امتِ مسلمہ کی اصطلاح استعمال کرنے والوں کو ridicule کرنے کی کوشش کرے گا، ہم اس سے اس طرح نمٹیں گے کہ اس کی نسلیں یاد رکھیں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے کہ اس کے بعد صبح سویرے نماز پڑھ کر وہ امت مسلمہ کے اتحاد کیلئے دعا مانگا کرے گا۔
ترکی نے جب روس کا طیارہ گرا یا تھا تو اس روز مسرت سے پاکستانیوں کے چہرے چمک رہے تھے۔ جب بھارت کا طیارہ پاکستان نے گرایا تو کشمیر ہی نہیں، فلسطین میں بھی جشن منایا جا رہا تھا۔ اسرائیل میں البتہ سوگ طاری تھا۔ پھر بھی آپ کو سمجھ نہیں آرہی کہ امتِ مسلمہ کیا ہے۔ صلیبی جنگیں اور صلاح الدین ایوبی بھی آپ کو امتِ مسلمہ کا تصور نہ سمجھا سکے؟
اگر آپ نے امتِ مسلمہ پہ رسالت مآبﷺ کی جسدِ واحد والی حدیث کا مطالعہ کرنا ہو تو برما (میانمار) کو دیکھ لیں۔ پاکستان میں لاکھوں لوگ برما میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تصاویر اور وڈیوز غم مناتے ہوئے شیئر کر رہے تھے۔ زندگی بھر نہ وہ برما گئے، نہ برما کے مسلمانوں سے عمر بھر کبھی انہیں ملنا ہے، اس کے باوجود وہ تکلیف کیوں محسوس کر رہے تھے؟ اس لیے کہ ایک جسم کے ہم مختلف اعضا ہیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک عضو تکلیف میں ہو اور باقی جسم راحت میں۔ ہم کمزور ہیں، ان کے لیے کر کچھ نہیں سکتے لیکن ان کا غم تو محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے ایک غریب شخص کو اپنے غریب بھائی کی لاش پر رونے سے روک دیا جائے کہ پہلے اپنی غربت دور کرو، پھر رونے کا حق دیا جائے گا۔
ہمارے ہاں مغرب کے سامنے احساسِ کمتری کی ماری ہوئی وہ مخلوق بھی پائی جاتی ہے کہ آپ قرآن یا حدیث سے کچھ نقل کریں تو وہ کہتے ہیں یہ کیا کیا؟ مذہب سے کیوں نکتہ پیش کیا۔ دلیل پیش کرو دلیل۔ اگر آپ ارسطو، شیکسپیئر یا لارڈ برٹرینڈ رسل کا کوئی قول نقل کریں تو کہتے ہیں‘ ہاں! یہ ہوئی نہ دلیل۔ جس ہستیﷺ نے ہمیشہ کے لیے دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دیا، دنیا کی ایک تہائی آبادی کو مسلمان کر دیا، اس کا قول نقل کرنا ان کے نزدیک رجعت پسندی ہے۔ دوسری طرف ارسطو کا قول نقل کرنا صحیح دلیل ہے، جس کے آدھے سے زیادہ نظریات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔ کرّ ۂ ارض کہاں سے کائنات کا محور و مرکز ہے؟ یہ لاتوں کے بھوت ہیں اور باتوں سے کبھی بھی سدھر نہیں سکتے۔ انہیں سدھارنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں