آئین کا سفر

امسال 1973ء کے آئینِ پاکستان نے اپنا پچاسواں سال یعنی گولڈن جوبلی مکمل کی ہے جو سول اور آمر‘ دونوں حکمرانوں کے ہاتھوں کئی دفعہ مسخ ہو چکا۔ ایک دو بار معطل رہنے کے باوجود گزشتہ نصف صدی میں یہ مزید بگاڑ سے بچا رہا۔ یہاں ہم کچھ ترامیم پر بات کرتے ہیں جن کا پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ پر گہرا اثر پڑا۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء سے 1977ء تک جو پہلی سات آئینی ترامیم متعارف کرائیں‘ انہوں نے آنیوالے سالوں میں آئین میں مزید توڑ پھوڑ کی راہ ہموار کی۔ مثال کے طور پر 1975ء میں نیشنل عوامی پارٹی (NAP) پر لگنے والی پابندی نے اس کی تحلیل کی راہ ہموار کی، جس کی منصوبہ بندی حکومت نے مخصوص آئینی ترامیم کے ذریعے کافی پہلے کر لی تھی۔
1973ء کے آئین میں پہلی اور دوسری ترامیم 1974ء میں ہوئیں۔ پہلی ترمیم سے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیا جبکہ دوسری نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ مئی 1974ء میں آئین کے آرٹیکل 1 میں ترمیم کرکے پاکستان کی پارلیمنٹ نے سابقہ مشرقی پاکستان کا ذکر حذف کیا۔ فروری 1975ء ایک اہم مہینہ تھا جب قومی اسمبلی نے خصوصی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی کے مقدمات چلانے کا بل منظور کیا۔ اس کا پس منظر 8 فروری کا وہ واقعہ ہے جس میں پی پی کے سینئر رہنما حیات محمد خان شیرپاؤ جو صوبہ سرحد (موجودہ کے پی) کے سابق گورنر تھے‘ پشاور میں ایک حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس واقعے کے ایک ہفتے کے اندر حکومت نے نیپ کو غیرقانونی جماعت قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی اور اسے کالعدم قرار
دے دیا۔ بھٹو حکومت کی آئین میں تیسری ترمیم کے ذریعے زیر حراست لوگوں کے حقوق کو کم جبکہ حراست میں لینے والے حکام کے اختیارات میں توسیع کی گئی۔ یکم نومبر 1975ء کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس‘ جسٹس یعقوب علی نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور اسی ماہ آئین میں چوتھی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کے دائرۂ اختیار کو کم کر دیا گیا۔ اس ترمیم نے آرٹیکل 199 کے تحت حفاظتی حراست کے معاملات میں ہائی کورٹس کے دائرۂ اختیار کو بھی محدود کر دیا جس کے باعث عدالتیں کسی شخص کو ضمانت دے سکتی تھیں اور نہ ہی اس حراست پر پابندی لگا سکتی تھیں۔ ستمبر 1976ء میں بھٹو حکومت نے عدالتوں پر پابندیوں کے دائرۂ کار کو وسیع کرتے ہوئے پانچویں آئینی ترمیم منظور کی۔ عدلیہ کی انتظامیہ سے علیحدگی کی مدت تین سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی زیادہ سے زیادہ مدت بالترتیب پانچ اور چار سال مقرر کی گئی۔ اب ہائی کورٹس آئین کے آرٹیکل 175 (2) اور 199 کے تحت کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی تھیں۔ حکومت ہائی کورٹس کے ججوں کو ان کی رضامندی کے بغیر‘ بلا کسی وجہ‘ دوسری ہائی کورٹس میں منتقل کر سکتی تھی۔
عام انتخابات سے قبل‘ دسمبر 1976ء میں اسمبلی کے آخری اجلاس کے دوران بھٹو حکومت نے چھٹی آئینی ترمیم متعارف کرائی۔ اس ترمیم کا بنیادی مقصد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی حد بالترتیب 62 اور 65 سال سے زائد کرنا تھا۔ اس ترمیم نے خاص طور پر چیف جسٹس یعقوب علی کو 1977ء کے وسط میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد عہدے پر برقرار رہنے کا جواز فراہم کیا کیونکہ انہوں نے اپنے عہدے کی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کی تھی۔ چھٹی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس 65 اور 62 سال کی عمر کی حد عبور کر جانے کے باوجود پانچ اور چار سال کی اپنی مدت پوری کر سکتے تھے۔ بھٹو حکومت نے مئی 1977ء میں ساتویں ترمیم متعارف کرائی جو ریفرنڈم سے متعلق تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو مارچ 1977ء کے عام انتخابات کے نتائج کو اپوزیشن کی جانب سے مسترد کرنے کے بعد دوبارہ انتخابات نہیں چاہتے تھے۔ وہ ریفرنڈم کرانا چاہتے تھے تاکہ لوگ ایک بار پھر ان پر اعتماد کا اظہار کر سکیں مگر وہ ریفرنڈم کرا سکے اور نہ ہی دوبارہ انتخابات، کیونکہ 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کو برطرف اور آئین کو معطل کر دیا۔ مارچ 1985ء میں جنرل ضیاء نے صدارتی حکم برائے بحالیٔ آئین جاری کیا جس کے ذریعے آئین میں بڑی تعداد میں ترامیم کی گئیں اور جس نے آٹھویں ترمیم کی راہ ہموار کی۔
ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو کو ملک کا وزیراعظم مقرر کیا جنہوں نے مارچ 1985ء کے آخری ہفتے میں اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے بل کو پاس نہ کرنے کی صورت میں اسمبلی کو تحلیل اور نظام کی بساط لپیٹنے کا اشارہ دیا۔ ممبرانِ قومی اسمبلی اس صورتحال کا سامنا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اکتوبر تک اس ترمیم پر اتفاقِ رائے ہو گیا اور بالآخر نومبر 1985ء میں آٹھویں ترمیم کو آئین میں شامل کر لیا گیا۔ نویں ترمیم میں شریعہ لاء کو سپریم لاء قرار دیا گیا۔ یہ بل سینیٹ سے پاس ہو گیا مگر پھر یہ بل قومی اسمبلی کی سلیکٹ کمیٹی میں پھنس گیا اور آئین میں تبدیلی کے لیے پیشرفت نہ ہو سکی۔ مارچ 1987ء میں قومی اسمبلی نے10ویں آئینی ترمیم منظور کی جس کے تحت قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں کے درمیان وقفوں کی مدت 160 دن سے کم کر کے 130 دن کر دی گئی۔
1988ء کے آخر تک بینظیر بھٹو 35 سال کی عمر میں ملکی تاریخ کی سب سے کم عمر اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن چکی تھیں۔ ایوانِ بالا میں اپوزیشن اراکین نے 1989ء میں قومی اسمبلی میں خواتین کی 20 نشستیں بحال کرنے کیلئے گیارہویں آئینی ترمیم پیش کی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو اس کی منظوری دینا چاہیے تھی لیکن شاید وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ حزبِ اختلاف اس کا کریڈٹ لے اس لیے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے یقین دہانی کرائی کہ پی پی پی کی حکومت اپنے طور پر یہی بل پیش کرے گی۔ جولائی 1991ء میں نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں بارہویں آئینی ترمیم متعارف کرائی گئی جس کے تحت گھناؤنے جرائم کی سماعت کیلئے تین سال کیلئے سپیڈی ٹرائل کورٹس قائم کی گئیں۔ اس ترمیم سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کیا گیا۔ اپریل1997ء میں نواز شریف حکومت دوبارہ فعال ہوئی اور منٹوں میں تیرہویں آئینی ترمیم منظور کی گئی اور اس طرح کی ترامیم کو منظور کرنے کیلئے معمول کے قوانین میں نرمی بھی کی گئی۔ تیرہویں ترمیم نے صدر کے اختیارات بشمول58(2)B کو ختم کر دیا لیکن آٹھویں ترمیم سے متعلق دیگر شقوں سے متعلق کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ لہٰذا یہ تصور غلط ہے کہ تیرہویں ترمیم نے عملاً آٹھویں ترمیم کو ختم کر دیا تھا۔ اس ترمیم نے صرف صدرِ پاکستان کے اختیارات کو کم کیا تھا اور یہ اختیارات وزیراعظم کو منتقل کر دیے تھے۔ اس ترمیم نے صدرِ مملکت سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے اور نئے انتخابات کرانے یا وزیراعظم کو برطرف کرنے کا اختیار چھین لیا تھا۔
تیرہویں ترمیم کے محض تین ماہ بعد‘ جولائی 1997ء میں نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں چودہویں ترمیم متعارف کرائی گئی جس نے پارٹی کی ہدایت کے مطابق ووٹ نہ دینے والے اراکینِ اسمبلی کو برطرف کرنے کا اختیار دے کر پارٹی ممبران کو سیاسی جماعتوں کے ضوابط کا پابند بنایا۔ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت نے آئین میں پندرہویں ترمیم کا بل پیش کیا جو اگست میں قومی اسمبلی سے پاس ہوا لیکن جب یہ سینیٹ میں گیا تو اکتوبر 1999ء میں پرویز مشرف کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹ دیے جانے سے اسے منظوری نہ مل سکی۔ تیرہویں اورچودہویں ترامیم میں وزیراعظم کے اختیارات میں کیا گیا اضافہ بھی حکومت کو نہ بچا سکا۔ مجوزہ پندرہویں ترمیم میں آئین میں ایک نئے آرٹیکل 2B کا اضافہ کیا گیا تھا اور آرٹیکل 239 میں ایک ترمیم کی گئی تھی۔ اس ترمیم میں پاکستان میں شریعت کو سپریم قانون کے طور پر قراردادِ مقاصد کے مطابق نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تھی جسے جنرل ضیاء نے مرکزی قانون میں شامل کیا تھا۔ اگست 1999ء میں منظور کی گئی سولہویں ترمیم نے کوٹہ سسٹم کی میعاد کو 20 سے بڑھا کر 40 سال کر دیا۔
مختصراً یہ کہ آئینِ پاکستان کی منظوری کے پہلے 26 سالوں کے دوران 16 ترامیم پیش ہوئیں جن میں سے 13 منظور شدہ ترامیم ہیں اور تین مجوزہ ترامیم دونوں ایوانوں سے منظور نہ ہو سکیں۔ منظور ہونے والی 13 ترامیم میں سے سات ترامیم آئین کی منظوری کے اگلے پانچ سالوں میں پیش کی گئیں۔ ضیا دور میں جو آٹھویں ترمیم نافذ کی گئی وہ سب سے زیادہ تباہ کن تھی جس نے ملک میں جمہوریت کی ترقی کو بری طرح متاثر کیا اور جو چار منتخب قومی اسمبلیوں کو نگل گئی۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی دو حکومتوں کے دوران‘ جو پانچ سال سے کم عرصے پہ محیط تھیں‘ کوئی آئینی ترمیم پاس نہیں کی جبکہ نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت کے دوران بارہویں اور دوسرے دورِ حکومت کے دوران (1997ء سے 1999ء تک) تیرہویں، چودہویں اور سولہویں ترامیم پاس ہوئیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ڈاکٹر نذیر محمود کے مزید کالمز